منصوبہ بندی کے وفاقی وزیر جناب احسن اقبال نے اسلام آباد کے ترقیاتی ادارے ( سی ڈی اے ) کو ہدایت کی ہے کہ دارالحکومت کے لیے عمودی (ملٹی سٹوری) تعمیرات کے حوالے سے پالیسی فریم ورک تیار کر کے پیش کریں! مزید کچھ لکھنے سے پہلے ہم احسن اقبال صاحب کے اس آئیڈیا کی تحسین کرتے ہیں۔ خدا خدا کر کے پالیسی سازوں میں سے کسی کو یہ خیال تو آیا۔ بہت دیر کی مہرباں آتے آتے
وہ جو عام مقولہ سنتے آئے ہیں‘ لگتا ہے‘ اب پرانا ہو چکا ہے۔ مقولہ یہ تھا کہ ہندو وقت سے پہلے سوچتا ہے اور پیش بندی کر لیتا ہے۔ مسلمان عین وقت پر سوچتا ہے اور سکھ وقت یا موقع گزر جانے کے بعد سوچتا ہے۔ لیکن اب ہم سکھ برادری کا نمبر کاٹ گئے ہیں۔ وفاقی دارالحکومت کی بنیاد 1960ء کے لگ بھگ پڑی تھی۔ عمودی تعمیرات بھی اسی وقت شروع ہو جانی چاہیے تھیں۔ تقریباً پون صدی گزرنے کے بعد اب ہمیں خیال آیا ہے کہ شہر کی توسیع افقی نہیں‘ عمودی ہونی چاہیے۔ یہ پون صدی محلات اور وسیع و عریض فارم ہاؤسز بنانے میں کٹ گئی۔ ذرا مارگلہ روڈ پر مکان دیکھیے۔ مشرقی کنارے سے مغربی سرے تک۔ شاید رباط اور ریاض میں بھی اتنے بڑے‘ وسیع وعریض محل نہ ہوں! یہ شہر جو بنیادی طور پر سرکاری ملازموں کے لیے بنا تھا‘ سب سے زیادہ سرکاری ملازموں کے لیے ہی ظالم نکلا۔ قیس کے محمل سے لیلیٰ کو اٹھا لیا گیا۔ سرکاری کوارٹر کا انتظار کرتے کرتے ریٹائرمنٹ آ جاتی ہے۔ پھر پارک روڈ پر ذرا فارم ہاؤسز دیکھیے۔ جرنیلوں‘ سیاستدانوں اور دیگر امرا کے ایکڑوں پر پھیلے ہوئے محلات!! الامان والحفیظ!! کاغذوں پر ان فارموں کا مقصد یہ بتایا گیا تھا کہ شہر کی سبزی اور پھلوں کی ضرورت پوری ہو گی مگر عملاً یہ ہوا کہ شہر کا یہ حصہ طبقاتی امتیاز کا نشان بن گیا۔ اس احمقانہ پالیسی کا نتیجہ یہ نکلا کہ شہر ایک طرف سے ٹیکسلا کو چھو رہا ہے اور دوسری طرف سے فتح جنگ کو‘ مگر رہائشی ضروریات پھر بھی پوری نہیں ہو رہیں!
جناب احسن اقبال کی خدمت میں گزارش ہے کہ اس نیک کام کا انہوں نے بیڑہ اٹھایا ہے تو سب سے پہلے ایف سکس اور جی سکس سیکٹروں میں وسیع و عریض سرکاری مکانوں کو ملٹی سٹوری اپارٹمنٹس میں تبدیل کرنے کی صورت نکالیں۔ منہ زور بیورو کریسی اس قسم کے منصوبے میں ہر ممکن رکاوٹ ڈالے گی لیکن حکومت اگر پُرعزم ہو تو نوکر شاہی پر غالب آ سکتی ہے۔ صدر غلام اسحاق کے عہد میں کوشش ہوئی تھی مگر ناکام رہی۔ یہ سلسلہ کب تک چلے گا کہ کچھ سرکاری ملازم ایک کمرے کے مکان کو ترس رہے ہیں اور کچھ ایکڑوں میں رہ رہے ہیں۔ حتیٰ کہ سینئر افسر بھی مکان کی امید میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔ اگر جی سکس اور ایف سکس کے سرکاری محلات کو ملٹی سٹوری گھروں میں تبدیل کر دیا جائے تو بیس گنا زیادہ خاندانوں کو رہنے کی جگہ مل سکتی ہے۔ مگر اس کے لیے عزم صمیم اور ثابت قدمی درکار ہو گی! یہ کام مرحلہ وار کیا جا سکتا ہے۔ وفاقی حکومت یہ پابندی بھی لگا سکتی ہے کہ دارالحکومت میں کوئی مکان دس یا بارہ مرلے سے بڑا نہیں ہو گا۔ اسلامی فقہ میں ایک قانون‘ قانونِ تحدید (Limitation) بھی ہے جس کی رُو سے ریاست ملکیت کی حد مقرر کر سکتی ہے۔ دولت کا بے تحاشا استعمال عام افراد کی نفسیات پر حوصلہ شکن اثرات ڈالے تو ریاست اس پر قبضہ بھی کر سکتی ہے۔ اپنے مال کو غلط استعمال کرنے والا مفسد قرار دیا جائے گا۔ اس کے خرید وفروخت اور انتقالِ ملکیت کے حق پر پابندی عائد کی جائے گی۔ چاروں فقہی مکاتب اس پر متفق ہیں۔ امیر المومنین عمر فاروقؓ نے کوفہ بستے وقت حکم دیا کہ کوئی ایک فرد تین سے زیادہ مکان تعمیر نہ کرے۔ اگر ریاست اسلحہ رکھنے پر یا کوئی چیز درآمد کرنے پر پابندی لگا سکتی ہے تو مکانوں کا سائز بھی متعین کر سکتی ہے۔ حکومت اگر اسلام آباد میں عمودی ہاؤسنگ کی پالیسی اپنانا چاہتی ہے تو اسے سنگاپور کی ہاؤسنگ پالیسی کا مشاہدہ اور مطالعہ کرنا چاہیے۔ کلچر کے لحاظ سے بھی سنگاپور کی مثال امریکہ اور یورپ کے مقابلے میں ہمیں زیادہ راس آئے گی۔
احسن اقبال صاحب نے سی ڈی اے کے سربراہ کو یہ حکم بھی دیا ہے کہ ایک جدید ''سٹیٹ آف دی آرٹ‘‘ نیشنل لائبریری تعمیر کی جائے۔ اس ضمن میں ہم تین ٹھوس تجاویز پیش کرنے کی جسارت کرتے ہیں۔
1۔ احسن اقبال صاحب کو یاد ہو گا کہ پاکستان کونسل برائے قومی یکجہتی کی لائبریریاں ہر بڑے شہر میں موجود تھیں اور کام کر رہی تھیں۔ وہ لاکھوں کتابیں کیا ہوئیں؟ کہاں گئیں؟ سب سے پہلے تفتیش کر کے ان کتابوں کی بازیافت کی جائے۔ اگر ہڑپ کر لی گئی ہیں تو مجرموں کو بے نقاب کیا جائے۔ پاکستان کونسل کا ادارہ وزارت اطلاعات کے ماتحت تھا مگر اب تو اس ادارے کا وجود ہی نہیں۔ اس لیے نوکر شاہی کا ممکنہ موقف کہ یہ بازیافت وزارت اطلاعات کی ذمہ داری ہے‘ غلط ہو گا۔
2۔ نیشنل لائبریری پہلے سے موجود ہے۔ اس کی عمارت بھی ہے۔ صرف اس کا محل وقوع عام شہری کی رسائی میں نہیں۔ یہ لائبریری ریڈ زون کے بالکل وسط میں‘ وزیراعظم آفس کی بغل میں واقع ہے۔ جس نے بھی فیصلہ کیا تھا کہ نیشنل لائبریری ایسے مشکل اور ممنوعہ علاقے میں بنے‘ اس کی عقل پر ماتم کرنا چاہیے۔ جس نئی عمارت کی تعمیر کا وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی نے سی ڈی اے چیئرمین کو حکم دیا ہے‘ وہ شہر کے کسی مرکزی اور آسان مقام پر بنانی چاہیے۔ اس کے لیے بہترین جگہ زیرو پوائنٹ کے ارد گرد ہو گی۔ یا آب پارہ اور میلوڈی مارکیٹ کے قرب و جوار میں! تاکہ عام پاکستانی‘ پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے‘ وہاں آسانی سے پہنچ سکے۔
3۔ ترقی یافتہ ملکوں کے ہر شہر میں ایک نہیں کئی لائبریریاں ہوتی ہیں! ہر سیکٹر میں‘ ہر محلے میں! مثلاً جیلانگ آسٹریلیا کا ایک قصبہ ہے‘ اس میں اٹھارہ لائبریریاں ہیں۔ کسی ایک لائبریری کا ممبر بننے سے تمام لائبریریوں تک دسترس ہو جاتی ہے۔ تیس کتابیں بیک وقت جاری کرائی جا سکتی ہیں۔ یہ سب کچھ تو ہمارے ہاں نہیں ممکن۔ مگر لائبریریوں کے لحاظ سے اسلام آباد کو ایک ماڈل سٹی تو بنایا جا سکتا ہے۔ ہر سیکٹر میں نہیں تو کم از کم ہر چار سیکٹر ز کے لیے ایک لائبریری قائم کی جائے۔ اہلِ قلم اور اہلِ علم خوشی سے کتابیں عطیّے میں دیں گے۔ یہ لائبریریاں نئی نسل کے لیے روشنی کا کام دیں گی اور سوشل میڈیا کی مکروہات کا بہتر نعم البدل ثابت ہوں گی۔ انہی لائبریریوں میں تعلیمی‘ ادبی اور ثقافتی سرگرمیاں بھی منعقد کی جاسکیں گی۔
ہم سب جانتے ہیں اور اچھی طرح جانتے ہیں کہ مغرب کی ترقی یونیورسٹیوں اور کتابوں کی بدولت ہوئی ہے۔ یہ علم اور تحقیق ہے جس کے سبب وہ دنیا پر حکمرانی کر رہے ہیں۔ کاش علامہ اقبال کا یہ فرمان ہر پاکستانی کو ازبر ہوتا
قوتِ افرنگ از علم و فن است ؍ از ہمین آتش چراغش روشن است
علم و فن را ای جوانِ شوخ و شنگ ؍ مغز میباید نہ ملبوسِ فرنگ
کہ اہلِ مغرب کی طاقت کا راز علم و فن میں ہے۔ اسی آگ سے ان کا چراغ جل رہا ہے۔ اے چنچل جوان! علم و فن کے لیے مغز کی ضرورت ہے نہ کہ فرنگی ملبوس کی!
ہم کب تک قرطبہ‘ بغداد‘ بو علی سینا اور جابر بن حیان پر فخر کرتے رہیں گے؟ پچھلے پانچ سو سال کے دوران ہم نے صرف خود کُش جیکٹ ایجاد کی ہے اور وہ بھی ہم نے نہیں ایجاد کی! سنتے ہیں کہ آئر لینڈ والوں نے کی ہے۔