پروفیسر عبداللہ بھٹی کو ہزاروں کیا لاکھوں میںایک کہا جا سکتا ہے۔ ان جیسا دوسرا ڈھونڈنا آسان نہیں ہے۔ دیکھنے میں وہ ایک عام سے انسان ہیں… پتلے، دبلے، دھان پان۔ اُن کی باتیں بھی ویسی ہیں جو اِس طرح کے آدمیوں کی ہوتی ہیں۔ تحریر میں شکوہِ الفاظ ہے نہ تقریر میں۔ لباس بھی عام سا پہنتے ہیں، یونیورسٹی تو کیا کالج کے پروفیسر بھی معلوم نہیںہوتے۔ اُن کا رعب طاری نہیں ہوتا، بٹھانا پڑتا ہے۔ کسی مجلس میں موجود ہوں تو نمایاں نہیں ہوتے کہ یہ شوق انہوں نے نہیں پالا، خود کو بچا بچا کر رکھتے ہیں، اِس کے باوجود وہ ’’مرجِع خلائق‘‘ ہیں۔ اُن کی شہرت خوشبو کی طرح پھیلتی جا رہی ہے، جس جس کو جب جب‘ جہاں جہاں اُن کے بارے میں پتہ چلتا ہے، وہ اُن سے بات کرنے کے لئے بے تاب ہو جاتا ہے۔ ہم میں سے بہت سوں نے تصوف کے بارے میں جو کچھ پڑھ رکھا اور صوفیا کے بارے میں جو کچھ (نسل در نسل) سن رکھا ہے، عبداللہ بھٹی اُس پر زندہ شہادت ہیں۔ اُن کی تصنیف ’’اسرارِ روحا نیت‘‘ پڑھنے والوںکو چونکا بلکہ چکرا دیتی ہے۔ یہ آپ بیتی بھی ہے اور جگ بیتی بھی۔ اِس میں تاریخ سمٹ آئی ہے۔ روحانی علوم کے کمالات بھی اور خود اُن کے تجربات بھی۔ وہ کن کن مرحلوں اور مشاہدوں سے گزرے۔ اسم اعظم تک رسائی کیسے ہوئی اور پھر اُس کے سہارے کہاں کہاں کی سیر کی، کیا کچھ دیکھنے کی صلاحیت حاصل کی اور کیا کچھ کر دکھلانے پر اللہ تعالیٰ نے اُن کو قدرت عطا کر دی۔ یہ بظاہر الف لیلیٰ کی کہانی معلوم ہوتی ہے، لیکن ان سے استفادہ کرنے والوں کی طرف دیکھیں اور اُن کے دست ِ شفا کی طرف متوجہ ہوں تو کچھ سمجھ میں نہ آنے کے باوجود سب کچھ سمجھ میں آ جاتا ہے اور سب کچھ سمجھ میں آنے کے باوجود کچھ بھی سمجھ میں نہیں آتا۔ روحانی علوم یعنی سپرچوئل سائنسز کا معاملہ مادی یعنی فزیکل سائنسز سے بہت مختلف ہے۔ ثانی الذکر کے حقائق دو+دو کی طرح ہوتے ہیں کہ ہر شخص ان کو جمع کر کے چار بنا سکتا یا چار سمجھ سکتا ہے، لیکن روحانی علوم کی دُنیا الگ ہے۔ وہاں ایک شخص کا تجربہ دوسرے کا مشاہدہ تو ہو سکتا ہے، تجربہ کم ہی بن پاتا ہے ؎ عشق کی چوٹ تو پڑتی ہے دلوں پر یکساں ظرف کے فرق سے آواز بدل جاتی ہے پروفیسر عبداللہ بھٹی نے افادہ ٔ عام کے لئے اپنے تجربات اور مشاہدات عام کر دیے ہیں اور لوگوں کو اس راستے پر سفر کرنے کی طرف اُکسایا بھی ہے، جس پر چل کر وہ کیا سے کیا بن گئے ہیں۔ اقبال کا شاگرد یا بیٹا، اقبال تو نہیں ہو سکتا، لیکن اقبال مند بہرحال بن سکتا ہے۔ بھٹی صاحب کے معنوی فرزند نو ر رانجھا، ڈاکٹر فیاض رانجھا آف میو ہسپتال لاہور حال مقیم اسلام آباد کے سلبی بیٹے ہیں۔ نور میاں، بھٹی صاحب کی محبت کو حاصل ِ زندگی کیا ، حاصل ِ ایمان سمجھتے ہیں۔ فیاض رانجھا اس حوالے سے بے حد بخیل واقع ہوئے ہیں۔ وہ مولانا طارق جمیل کے اسیر ہیں۔ شرک اور بدعت کے اپنے پیمانے رکھتے ہیں۔ نور رانجھا اپنے پیر صاحب کی کرامات کے عینی شاہد ہیں، بعض اوقات ان کا حصہّ بھی بن جاتے ہیں کہ ان کی وجہ سے انہونی ہو جاتی ہے۔ ان کے والد اسے ’’شعبدہ بازی‘‘ قرار دیتے ہیں اور مجھ سے بھی الجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ شعبدے تو غیر مسلم بھی دکھا سکتے ہیں، لیکن ان کے پاس اِس جوابی سوال کا کوئی جواب نہیں ہوتا کہ جو کام غیر مسلم کر لیتے ہیں، وہ مسلمان کیوں نہیں کر سکتے۔ مسلم اور غیر مسلم کے ’’شعبدوں‘‘ میں وہی فرق ہے جو فرعون کے دربار کے جادوئی سانپوں اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عصائی اژدہا میں تھا۔ جب فرعون کے ساحروں نے رسیاں پھینک کر انہیں سانپ بنا دیا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ اپنا عصا زمین پر ڈال دیں۔ وہ اژدہا بن کر ان سانپوں کو نگل گیا۔ روحانی علوم کی کئی اقسام ہیں، بعض پر غیر مسلم بھی قدرت رکھ سکتے ہیں، جیسا کہ ایم بی بی ایس کا امتحان ہندو، سکھ، مسیحی، بدھ سب پاس کر سکتے ہیں اور علم طب میں نقطۂ کمال کو پا سکتے ہیں۔ انجینئرنگ میں بھی ایسا ہو سکتا ہے (اور ہوتا ہے) سوشل سائنسز کا بھی یہی معاملہ ہے۔ اسی طرح سپرچوئل سائنسز کے بعض شعبوں میں غیر مسلم بھی کمال حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ اور بات کہ بقول اقبال: مومن کے جہاں کی حد نہیں ہے، مومن کا جہاں ہر کہیں ہے۔ نور رانجھا، اپنے پیر ’’صاحب‘‘ کے ساتھ اجمیر شریف گئے، دہلی پہنچے تھے کہ پاکستان سے کسی کا فون آیا اور بھٹی صاحب کے بارے میں دریافت کیا۔ بتایا گیا کہ وہ تو اجمیر کے راستے میں ہیں۔ فون کرنے والے نے سلام عرض کیا اور بھارت میں اپنے کسی دوست کو بھی فون کر دیا، وہ اتفاق سے گورنر تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے بھٹی صاحب ’’وی آئی پی‘‘ قرار پا گئے۔ انہوں نے خدا معلوم کس لہر میں نور رانجھا سے پوچھا کہ کوئی خواہش ہے؟(جس کے لئے دُعا کی جائے) انہوں نے عرض کیا (مشہور بھارتی ہیروئن) بپاشا باسو سے ملاقات کرا دیجئے۔ اس پر بھٹی صاحب نے خفگی کا اظہار کیا کہ اجمیر شریف کا قصد ہے، درود و سلام زبان پہ ہے، اس طرح کی خواہش دل میں کیسے داخل ہو گئی؟ نور رانجھا مچل گئے، آپ نے خواہش کا پوچھا تھا، یہ شرط نہیں لگائی تھی کہ یہ خواہش مومنانہ ہونی چاہئے۔ اب تو وعدہ پورا کیجئے۔ اس پر پیر صاحب نے خاموشی اختیار کرلی، شام کو گورنر صاحب نے عشایئے پر یاد کیا، وہاں پہنچے تو بھارت کے سکھ وزیر ثقافت بھی موجود تھے۔ نور رانجھا کی خواہش زیر بحث آئی تو سردار جی نے اپنے سیکرٹری سے کہا کہ معلوم کرو بپاشا جی کہاں ہیں، اگر دہلی میں ہوں تو صبح ناشتے پر بلا لو… چند لمحوں بعد معلوم ہوا کہ وہ دہلی ہی میں ہیں اور صبح ناشتے پر آ رہی ہیں۔ عبداللہ بھٹی اپنے ساتھی کے ہمراہ مدعو کر لئے گئے ، یوں نور رانجھا کی ’’ پُر از شباب‘‘ خواہش پوری ہو گئی۔ اس طرح کے کئی واقعات ان پر(یا ان کے سامنے) گزر چکے ہیں۔ انہیں آپ ’’اتفاق‘‘ قرار دینا چاہیں تو دے لیں، لیکن اگر اسے کوئی دوسرا معاملہ قرار دے دے تو اس میں بھی کیا مضائقہ ہے۔ ’’فکر ِ درویش‘‘ بھٹی صاحب کی دوسری کتاب ہے،’’ بلھیا کیہ جاناں مَیں کون؟‘‘ اِس کا بھی موضوع ہے۔ یہ تصوف کی تاریخ ہے اور اس کے سماجی اثرات کا تذکرہ بھی۔ اس کی اصطلاحات و ضروریات کی تفصیل بھی اس میں سمٹ آئی ہے اور ان کے حلقہ بگوشوں کے ذہن میں اٹھنے والے سوالات کے جوابات کے لئے بھی ایک حصہ مختص کر دیا گیا ہے۔ فلسفیانہ موشگافیوں اور نکتوں کو رکھئے ایک طرف’’فکر ِ درویش‘‘ ایک گائیڈ ہے جس کے ذریعے شاہراہ حیات پر سفر آسان ہو سکتا ہے … فی الدنیا حسنۃ وفی الآخرۃِ حسنۃ… اِس کتاب (یا صاحب کتاب) کی انگلی پکڑ کر ہم آگے بڑھ سکتے ہیں، سکون کی تلاش میں مارے مارے پھرنے والے تو رہے ایک طرف، دوسروں کا سکون لوٹنے والوں کو بھی سکون مل سکتا ہے اور دوسروں کے لئے سکون کا باعث بن سکتے ہیں۔ سو باتوں کی ایک بات چند الفاظ میں ’’مردِ درویش‘‘ نے کہہ دی ہے: ’’محبت فقیر کی عبادت اور صبر فقیر کی ریاضت ہوتی ہے۔ باہمی نفرت پھیلاتے ہوئے دیا جانے والا کوئی بھی پیغام نہ شریعت کا نمائندہ ہوتا ہے نہ طریقت کا‘ نہ معرفت اور نہ حقیقت کا۔ میرا رب‘ رب الناس ہے۔ الناس بلا تخصیص مذہب و ملت تمام دُنیا کے انسانوں کو کہتے ہیں‘‘۔ پھر ارشاد ہوتا ہے:’’ ایک مرشد کو مان کر بھائی بن جانے والو، ایک امام کو مان کر بھائی کہلانے والو، تم ایک خدا کو مان کر بھائی کیوں نہیں بن سکتے؟ کیا خدا ایک مضبوط قدر مشترک نہیں؟ یا پھر تم نے خدا کو مانا ہی نہیں۔ کتنا مظلوم ہے میرا رب، دھرتی کا خالق دھرتی پر کتنا کمزور کر دیا گیا ہے؟‘‘خدا کی دھرتی پر خدا کو مضبوط بنانے کا دوسرا نام تصوف ہے، یہی فکر ِ درویش ہے… دیکھیں کسی دا دل نہ ڈھا ویں، رب دلاں وچ رہندا‘‘ آج کے پاکستان کی سب سے بڑی ضرورت یہی فکر اور یہی پیغام ہے۔(یہ کالم روزنامہ ’’دنیا‘‘ اور روز نامہ ’’پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے۔