"MSC" (space) message & send to 7575

صدر زرداری کی نئی بازی

میری گھڑی پر ( پاکستانی وقت کے مطابق) دو بج کر33 منٹ ہوئے تھے‘ ایرانی گھڑیاں ایک بجا چکی تھیں کہ آواز بلند ہوئی، صلوٰۃ بر محمدؐ و آل محمدؐ اور شامیانہ درود کی صدائوں سے معطر ہو گیا۔ پاکستان اور ایران کے درمیان تعمیر کی جانے والی گیس پائپ لائن کے پاکستانی حصے کی تعمیر کا رسمی آغاز ہو چکا تھا۔ اِس یادگاری تختی کی نقاب کشائی کی جا رہی تھی جو اِس لمحے پر شہادت دیتی رہے گی۔ صدر آصف علی زرداری اور احمدی نژاد چند قدم کے فاصلے پر یہ رسم ادا کر رہے تھے۔ انہوں نے دُعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے تو پنڈال میں موجودہ سینکڑوں ہاتھ بھی اُن کے ساتھ شریک ہو گئے۔ چند لمحوں بعد میزبان اور مہمان اپنے اپنے لواحقین کے ساتھ آئے اور سٹیج پر جلوہ گر ہو گئے۔ اُن کے سامنے ایک چھوٹی سی میز رکھی تھی اور دو عام سی کرسیاں، جیسی ہمارے ہاں عام جلوسوں میں سامعین کے لیے رکھی جاتی ہیں اور جنہیں تحریک انصاف کے قصوری (بلکہ خورشید قصوری) جلسے کے حاضرین اُٹھا کر لے جاتے ہیں تو منتظمین میں سے کسی کو ملال نہیں ہوتا۔ دُور تک پھیلے ہوئے ویرانے میں یہ عا رضی بستی اس طرح بسائی گئی تھی کہ اِس پر کم سے کم خرچ آئے۔ کرّ و فر تھا نہ ٹھاٹھ باٹھ… بخیلی سے بغل گیر ہوتی ہوئی کفایت شعاری ہر چیز سے عیاں تھی۔ دو تین قطاروں میں کرسیوں کے ساتھ پانی کی بوتلیں اور بروشر رکھے ہوئے تھے جو اِس گیس پائپ لائن کی تعمیر کے بارے میں معلومات فراہم کر رہے تھے۔ چوتھی، پانچویں، چھٹی، ساتویں قطار والے ان سے بھی محروم تھے۔ آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا، ایک نوجوان قاری نے (جو کوئی اعلیٰ افسر ہوں گے) اس انداز سے تلاوت کی کہ ہر شخص پر وجد طاری ہو گیا۔ ایک ایک لفظ روح میں اُترتا جا رہا تھا جیسے قرآن نازل ہو رہا ہو… دس منٹ تک دلوں کو گرمانے کے بعد نوجوان قاری اپنے صدر کے پاس پہنچے۔ انہوں نے کھڑے ہو کر پُرجوش مصافحہ کیا، بوسے وصول کیے اور ساتھ ہی ایک کاغذ بھی۔ پاکستان یاد آ گیا کہ اصل میں (ہم) دونوں ایک ہیں۔ صدر پاکستان کو بھی اپنے میزبان کی پیروی کرنا پڑی، انہوں نے بھی اُٹھ کر مصافحہ اور بوسے حاصل کر لیے۔ صدر آصف علی زرداری کراچی سے سیدھے چابہار پہنچے تھے جبکہ اسلام آباد سے دو جہاز وزرائے کرام، اعلیٰ حکام، میڈیا ارکان اور صنعت کاران وغیرہ کو لے کر آئے تھے۔ چابہار سے رعیند کا فاصلہ کوئی تین گھنٹے کی مسافت کا تھا۔ یہاں بھی سادگی طاری تھی، پینے کا پانی تک دستیاب نہ تھا۔ کارواں دو حصوں میں بٹ رہا تھا، ایک کو ہیلی کاپٹر سے اُڑ کر آدھے گھنٹے میں پہنچ جانا تھا اور دوسرے کو تین گھنٹے تک ایران کی سڑکوں کا لطف اٹھانا تھا۔ اسلام آباد میں تیار ہونے والی فہرست کے مطابق میرا شمار ’’ہیلی کاپٹریوں‘‘ میں تھا۔ مَیں کہ جوانوں میں بزرگ اور بزرگوں میں جوان سمجھا جاتا ہوں، اس لئے پٹرولیم کی وزارت کے نوجوان میری بزرگی کا احترام کرنے پر مصر تھے جبکہ سفارت خانے کے گرگ ہائے باراں دیدہ مجھے جوان قرار دینے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ اُنہوں نے اِس فہرست میں ردوبدل کی کوشش کی جو برادرم قمر زمان کائرہ اور’’اہل پٹرولیم‘‘ نے ناکام بنا دی۔ ارشد زبیری کی کمر میں تکلیف ہے، اس لیے ہیلی کاپٹر پر ان کا استحقاق مسلّم تھا، عارف نظامی بال بال بچے اور ہیلی کاپٹر میں اُن کے لیے بھی نشست نکالنا پڑی۔ بہرحال، اللہ تعالیٰ نے تھکاوٹ سے خاصی حد تک محفوظ رکھا اور اگر کچھ ہوئی بھی تھی تو صدور کی تقریریں سُن کر دُور ہو گئی۔ مختصر الفاظ میں انہوں نے بہت کچھ کہہ دیا تھا، وہ اپنے لوگوں سے بھی مخاطب تھے اور عالمی طاقتوں سے بھی۔ میزبان کا حقہ پانی تو انہوں نے بند کر ہی رکھا ہے، مہمان بھی خدشات سے ناواقف نہیں تھے۔ احمدی نژاد کا کہنا تھا کہ گیس سے ایٹم بم تیار نہیں ہوتا، (اِس لیے اس کی طرف بُری نظروں سے نہ دیکھا جائے) جبکہ آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ پاکستانی معیشت کو توانائی درکار ہے۔ یہ گیس پائپ لائن ہماری ’’لائف لائن‘‘ ہے، اِس کا احساس کیا جائے۔ تقریب ختم ہوئی تو دونوں صدور نے اپنے اپنے مہمانوں سے مصافحہ کیا۔ کہتے ہیں شاہِ ایران رضا شاہ پہلوی ہر شخص سے ہاتھ ملانا آداب شاہی کے خلاف سمجھتے تھے۔ سعودی عرب کے شاہ فیصل ایران کے دورے پر آئے تو سعودی سفارت خانے میں میزبان بادشاہ کے اعزاز میں ایک استقبالیے کا اہتمام کیا گیا۔ مہمانوں کی رخصتی کا وقت آیا تو شاہ فیصل مہمانوں کو الوداع کہنے کے لیے دروازے کے پاس کھڑے ہو گئے کہ عرب روایت میں مہمانوں کا یہ اکرام لازم ہے۔ شاہِ ایران کو بھی مجبوراً اپنی ’’رعایا‘‘ سے ہاتھ ملانا پڑا۔ یہ شاہِ ایران کی زندگی کا پہلا ایسا تجربہ تھا، خدا معلوم اِس کے بعد اِس ہاتھ کو کس کس طرح دھویا گیا ہو گا۔ انقلابی ایران میں حاکم اور محکوم کا تصور ختم ہے، یہاں خادم اور مخدوم ہاتھ میں ہاتھ ڈالے کھڑے ہیں۔ نظر بد دور!!! ایران آئندہ چھ ماہ میں اس پائپ لائن کو گوادر پہنچائے گا جہاں سے پاکستان نے اسے نواب شاہ لے کر جانا ہے۔ اِس سے (بالآخر) چار ہزار میگاواٹ بجلی پیدا ہو سکے گی اور فرنس آئل سے پیدا ہونے والی انتہائی مہنگی بجلی سے کسی حد تک نجات مل جائے گی۔ پیداوار میں اضافہ تو ہو گا ہی، قیمت بھی کم ہو گی۔ اپٹما کے متحرک رہنما گوہر اعجاز ایک روز پہلے ڈاکٹر عاصم کے ساتھ چابہار آئے تھے۔ وہ بتا رہے تھے کہ پاکستان کو اپنے حصے کی پائپ لائن 2014ء تک مکمل کرنی ہے۔ جنوری 2015ء سے جرمانہ شروع ہو جائے گا۔ گیس نہ لینے کی صورت میں ایک لاکھ ڈالر روزانہ ادا کرنا ہو گا، چھ ماہ مزید تاخیر ہوئی تو جرمانے کی مقدار تین لاکھ ڈالر روزانہ ہو جائے گی۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ اِس وقت توانائی ہماری شدید ترین ضرورت ہے، لیکن اِس میں بھی کوئی شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ امریکہ اور یورپ کے دانت تیز ہیں۔ ڈالر اور یورو کے ’’مالکان‘‘ ایران کے ایٹمی پروگرام کو کسی طور برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ وہ ایران کا ناطقہ بند کرتے چلے جا رہے ہیں۔ اس وقت ترکی، ایرانی گیس کا سب سے بڑا گاہک ہے۔ برآمد کی جانے والی90فیصد گیس وہی صرف (کنزیوم) کرتا ہے۔ چین، جاپان اور بھارت ایرانی تیل کے خریدار ہیں لیکن ان سب نے یقین دِلا رکھا ہے کہ وہ بتدریج خریداری کم کرتے چلے جائیں گے۔ یہ سب ممالک اپنی اپنی کرنسی میں ایران کو ادائیگی کرتے ہیں۔ ترکی بھی ایران کو لیرا میں قیمت ادا کرتا ہے۔ یہ لیرے ایک ترک بنک میں ایران کے اکائونٹ میں جمع ہو جاتے ہیں۔ ایران اس رقم سے (زیادہ تر) سونا خریدتا تھا اُسے کسی نہ کسی طور متحدہ عرب امارات لے جا کر وہاں فروخت کر دیا جاتا تھا۔ اس طرح ڈالر حاصل ہو جاتے تھے لیکن امریکہ نے قانون میں تبدیلی کر کے ممنوعہ اشیا کی فہرست میں ’’قیمتی دھاتوں‘‘ کو بھی شامل کر لیا ہے، گویا ایران کو سونے کی فروخت ناممکن بنانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ ترکی سے گزشتہ ایک سال کے دوران 14 ارب ڈالر کے قریب سونا ’’برآمد‘‘ ہوا۔ اب ایران ترکی سے بحری جہاز اور کشتیاں حاصل کرنے کی طرف متوجہ ہوا ہے تاکہ لیرا کسی کام تو آئے۔ پاکستان نے پُل صراط پر سفر کرنے والوں کی فہرست میں اپنا نام لکھوا لیا ہے۔ دیکھتے ہیں کہ ہماری پُرکاری کیا رنگ لاتی ہے۔ امریکہ اور نیٹو کی فوجوں اور اسلحہ نے ہماری سرزمین سے گزر کر ہی واپس جانا ہے۔ گویا پتّے ہمارے پاس بھی موجود ہیں، ترپ کا پتہ ہو یا نہ ہو۔ زداری صاحب نے بازی بہرحال لگا دی ہے۔ پیپلز پارٹی انتخابی مہم کے دوران اس سے فائدہ اٹھائے گی۔ اس کے بڑوں کا خیال ہے کہ اب کسی بھی سیاسی رہنما کا قلا بازی کھانا ممکن نہیں ہو گا۔ اس زرداری بازی میں فی الحال ہار نہیں ہے: جب حشر کا دن آئے گا، اُس وقت دیکھا جائے گا۔ (یہ کالم روزنامہ ’’دُنیا‘‘ اور روزنامہ ’’پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں