جسٹس طارق پرویز نے سپریم کورٹ سے اپنی ریٹائرمنٹ کے موقع پر، اپنے اعزاز میں منعقدہ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بات اِس شعر پر ختم کی تھی ؎ وابستہ میری یاد سے کچھ تلخیاں بھی تھیں اچھا کیا کہ تم نے فراموش کر دیا اب انہیں پتہ چل گیا ہو گا کہ ان کی یاد سے نہ تو کوئی تلخی وابستہ تھی اور نہ ہی ان کو فراموش کیا گیا۔ اس حقیقت کا اظہار یوں ہوا کہ ان کے صوبے کے وزیر اعلیٰ امیر حیدر خان ہوتی اور قائد حزبِ اختلاف اکرم خان درانی نے اتفاق رائے سے ان کا نام نگران وزیر اعلیٰ کے طور پر تجویز کرنے کا فیصلہ کیا۔ خیبر پختونخوا اسمبلی اپنی پانچ سالہ مدت پوری کر کے تحلیل ہو جائے گی تو طارق پرویز صاحب وہ منصب سنبھال لیں گے، جس کا مزہ امیر حیدر خان ہوتی اور اکرم خان درانی دونوں چکھ چکے ہیں اور جو ان دونوں کو بھی چکھ چکا ہے۔ پختونوں کو اپنی روایات پر بڑا ناز ہے۔ ان میں سے کئی انہیں پاکستان ہی نہیں دُنیا بھر میں ممتاز کرتی ہیں۔ ان کی معاملہ سازی اور معاملہ فہمی کی ایک دُنیا معترف ہے۔ اپنی بات پر ڈٹنا اُن کی سرشت میں ہے، لیکن افہام و تفہیم کا راستہ بھی بند نہیں ہونے دیتے۔ آنکھیں نکالتے ہیں تو گلے لگانے پر بھی تیار رہتے ہیں۔ ایک دوسرے کی طاقت اور صلاحیت کا ادراک بخوبی کر لیتے ہیں۔ حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے درمیان ’’پنجابی فاصلے‘‘ شاذ ہی پیدا ہوتے ہیں۔ اکرم خان درانی وزیر اعلیٰ تھے، تو سیاسی مخالفین کو ذاتی مخالفین قرار نہیں دیا جاتا تھا۔ امیر حیدر ہوتی نے منصب سنبھالا تو انہوں نے بھی اس روایت کی پاسداری کی۔ اکرم خان درانی جوانوں کی طرح اپنے فرائض بجا لاتے رہے تو ہوتی صاحب کی جوانی سے بزرگانہ ادائیں جھلکتی رہیں۔ انہوں نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں نگران وزیر اعلیٰ کے نام پر متفق ہونے کا اعلان کیا۔ امیر حیدر ہوتی نے نام کا انکشاف کرنے کے لیے مائیک درانی صاحب کے سامنے رکھا اور ان سے گزارش کی کہ وہ یہ شرف حاصل کریں۔ انہوں نے وزیر اعلیٰ سے جوابی گزارش کر کے یہ فریضہ اُنہی کو ادا کرنے پر مجبور کر دیا اور پاکستانی سیاست میں ایک نیا ورق لکھ دیا گیا۔ عمران خان کی تحریک انصاف اور اے این پی میں بعد المشرقین ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے فلسفے سے کوسوں دُور ہیں لیکن عمران نے پختونخوا میں بھی شوکت خانم کینسر ہسپتال بنانے کا فیصلہ کیا تو ایک بڑا قطعۂ زمین سرکاری طور پر اُن کی خدمت میں پیش کر دیا گیا۔ وزیر اعلیٰ نے اس کا سنگ بنیاد رکھا۔ وزیر اطلاعات افتخار حسین نے‘ جو اپنے اکلوتے بیٹے کی قربانی دے کر ’’زندہ شہید‘‘ بن چکے ہیں اور جن کا نام آتے ہی سر احترام سے جھک جاتے ہیں، احسان جتانے کے بجائے بس یہ کہا: ہم عمران خان کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے ہمارے صوبے میں ہسپتال بنانے کا فیصلہ کیا۔ عمران کا دل اے این پی کی اِس فراخدلی نے موہ لیا۔ بلوچستان میں تو اس وقت حکومت کا سر پیر نہیں ہے لیکن اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں بھی اسے ڈھونڈنا مشکل ہو رہا ہے۔ خط لکھے جا رہے، نام تجویز کیے جا رہے ہیں، بیانات داغے جا رہے ہیں۔ سندھ میں حزبِ اختلاف کی بنچوں پر ایم کیو ایم تازہ وارد ہوئی ہے۔ اس کی رابطہ کمیٹی نے مہاجر اور مقامی کا سوال پیدا کرنا ضروری سمجھتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ کسی مہاجر کا نام نگران وزیر اعلیٰ کے طور پر پسند نہیں کیا جا رہا۔ حزب اختلاف کے قائد (جو ایم کیو ایم کے سینئر رہنما ہیں) جو نام چاہے پیش کر سکتے ہیں، ان پر کوئی قدغن نہیں ہے، لیکن بیان یوں آیا جیسے ’’مہاجر‘‘ نام کی شے پر پاکستان کی زمین تنگ ہو چکی ہے۔ اُردو کی دہائی بھی دی گئی حالانکہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) دونوں جماعتوں نے جو نام پیش کئے ہیں، ان میں اُردو بولنے والے مہاجر (اگر وہ حضرات اپنے آپ کو اِس لاحقے سے یاد کرنے کی اجازت دیں تو) موجود ہیں۔ ڈاکٹر عشرت حسین اور جسٹس ناصر اسلم زاہد کے نام نہ صرف تجویز کئے گئے ہیں بلکہ سرفہرست ہیں۔ کسی جماعت نے پنجاب یا پختونخوا سے کسی کا نام تجویز نہیں کیا۔ اس پر ان صوبوں میں سے کسی نے کوئی مخالفانہ بیان داغنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ ایم کیو ایم اسلام آباد میں بھی اپوزیشن کا روپ دھار چکی ہے۔ چودھری نثار علی خان اس پر سٹپٹا رہے ہیں۔ انہوں نے دھمکی دی ہے کہ وہ ایم کیو ایم کا کوئی رکن پارلیمانی کمیٹی میں نامزد نہیں کریں گے، سینیٹر فروغ نسیم نے اس کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کی جوابی دھمکی دے ڈالی ہے۔ اگر وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف اور قائد حزب اختلاف چودھری نثار علی خان میں نگران وزیر اعظم کے نام پر اتفاق نہیں ہوتا، اور دونوں کی طرف سے ایک دوسرے کے تجویز کردہ ناموں کو مسترد کرنا جرأت کی دلیل سمجھا جاتا ہے تو یہ معاملہ ایک آٹھ رکنی پارلیمانی کمیٹی کے سپرد ہو گا جو قومی اسمبلی کی میعاد ختم ہونے کے تین دن کے اندر اندر قائم کرنا ہو گی۔ رخصت ہونے والی اسمبلی، نہ رخصت ہونے والی سینیٹ یا دونوں میں سے لیے جانے والے چار چار ارکان وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف نامزد کریں گے۔ مسلم لیگ(ن) کے ساتھ حزب اختلاف کے بنچوں پر مولانا فضل الرحمٰن کی جمعیت العلمائے اسلام اور ایم کیو ایم بھی پائی جا رہی ہیں۔ ان میں سے اگر ایک ایک رکن لیا گیا تو مسلم لیگ(ن) کے پاس کمیٹی کے دو ارکان رہ جائیں گے اور کھیل چودھری صاحب کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ جمعیت تو مسلم لیگ(ن) کی ہم جولی بن چکی ہے لیکن ایم کیو ایم بڑے فاصلے پر ہے۔ اسی لیے چودھری صاحب دھمکی دے گزرے ہیں کہ وہ ایم کیو ایم کا کوئی رکن حزب اختلاف کی طرف سے نامزد نہیں کریں گے۔ شیخ رشید نے یہ کہہ کر انہیں کمک فراہم کر دی ہے کہ ابھی تو ایم کیو ایم نے عدّت کے دن بھی پورے نہیں کئے، گویا اسے ’’نکاح ثانی‘‘ کرنے کے لیے انتظار کرنا چاہیے۔ جناب شیخ کا نقش قدم یہاں ہو یا وہاں دستور نے ایسی کوئی شرط عائد نہیں کی کہ سیاسی نکاح کی عدت ہونی چاہئے، یہ تو من کا سودا ہوتا ہے، کسی وقت اور کسی بھی حال میں طے پا سکتا ہے۔ چودھری صاحب اگر ایم کیو ایم سے محفوظ رہنا چاہتے ہیں تو پھر اُنہیں اپنی چودھراہٹ سے تھوڑا سا دستبردار ہونا ہو گا۔ اکرم خان درانی کی طرح اپنے قائد ایوان کے ساتھ بیٹھ کر ایک نام پر اتفاق کر لیں گے تو نہ معاملہ پارلیمانی کمیٹی میں جائے گا، نہ ایم کیو ایم سے پالا پڑے گا۔ اگر ایسا نہیںہو گا تو ایم کیو ایم تو ہو گی ؎ کہا ہم اونٹ پہ بیٹھیں‘ کہا تم اونٹ پہ بیٹھو کہا کوہان کا ڈر ہے‘ کہا کوہان تو ہوگا بہرحال خیبر پختونخوا میں نگاہِ انتخاب جس شخصیت پر ٹھہری ہے، اس کے بارے میں دو رائے موجود نہیں ہیں۔ جسٹس طارق پرویز نے پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر عدلیہ بحالی تحریک میں بھرپور حصہ لیا، سپریم کورٹ میں پہنچے تو وہاں بھی انصاف کا پرچم بلند رکھا۔ این آر او کے خلاف فیصلہ کرنے والے بنچ کا وہ بھی حصہ تھے۔ ریٹائرمنٹ کے وقت فیض کے یہ الفاظ ان کی زبان پر تھے ؎ یہی تو ہم سے رفیقانِ شب کو شکوہ ہے کہ ہم نے صبح کے رستے میں خود کو ڈال لیا نہ ڈگمگائے کبھی ہم وفا کے رستے میں چراغ ہم نے جلائے ہوا کے راستے میں اس دعوے پر وقت نے مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔ (یہ کالم روزنامہ ’’دُنیا‘‘ اور روزنامہ ’’پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)