نگران وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ اپنی کرسیاں سنبھال چکے ہیں۔ ان میں سے کوئی کسی کو پسند ہو یا ناپسند، اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یہ سب آئین کے تحت وجود میں آئے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی کسی ایک شخص یا لابی کی بدولت موجودہ منصب تک نہیں پہنچا۔ کسی پر سیاسی جماعتوں کا اتفاق ہُوا ہو یا نہ، تقرر آئین میں دئیے گئے طریقے کے تحت ہی عمل میں آیا ہے۔ یہی وہ بات ہے جس نے موجودہ نگرانوں کو گزشتہ نگرانوں سے بہت مختلف بنا دیا ہے۔ وزیراعظم میر ہزار خان کھوسو اپنی رہائش گاہ میں پوتوں، نواسوں کے ساتھ کھیلنے میں مصروف تھے کہ اسلام آباد سے ’’سنائونی‘‘ آگئی۔ اتفاق رائے سے بنائے گئے الیکشن کمیشن نے انہیں کثرتِ رائے سے وزیراعظم بنا ڈالا۔ چار ارکان ان کے حق میں تھے تو ایک مخالف۔ چار کو ایک طرف دیکھ کر بھی جسٹس (ر) ریاض کیانی نے اپنا اختلاف برقرار رکھنے کا فیصلہ کیوں کیا، یہ سمجھ میں نہیں آ رہا… لیکن یہ ضروری تو نہیں ہے کہ ہر بات ہر شخص کی سمجھ میں آجائے۔ کیانی صاحب اپنی مرضی کے مالک ہیں، سو انہوں نے اپنی ڈیڑھ اینٹ الگ رکھ لی۔ کھوسو صاحب بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہے۔ سپریم کورٹ میں چند روز پڑاؤ ڈالا۔ وفاقی شرعی عدالت کی سربراہی کی، بلوچستان کی گورنری بھی چند روز ان کے ’’عقد‘‘ میں رہی، لیکن ان کی طرف کسی نے انگلی نہیں اٹھائی۔ خاموشی سے ریٹائر ہوئے اور اپنے ہی گھر کے ہو رہے… بلوچستان سے تعلق نے ان کے اعتبار میں اضافہ کر دیا۔ سیاست سے ان کو کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اس لیے گورنروں اور وزرائے اعلیٰ کے نام جاننے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی۔ اب ان سے توقع ہے کہ انتخابات کی نگرانی کریں گے اور اپنی عزت میں اضافہ کر گزریں گے۔ ان کی عمر 84 سال ہے، لیکن چیف الیکشن کمشنر سے پھر بھی چھوٹے ہیں۔ ویسے بھی عمر میں کیا رکھا ہے۔ مادرِ وطن کو اس حال تک کسی چوراسی سال والے نے تو پہنچایا نہیں، جوانوں ہی نے اس کے ذریعے ارمان نکالے ہیں۔ خیبر پی کے کے سیاستدانوں نے ایک ہی ملاقات میں اپنا وزیراعلیٰ چن لیا اور پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس طارق پرویز کو مسند پر لا بٹھایا۔ انہوں نے اپنی کابینہ بھی بنا ڈالی ہے، سندھ میں بھی ایک سابق جج (قربان علوی) کے نام قرعہ نکلا۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے اتفاق کر کے دکھا دیا۔ ان کے حریف اسے مُک مُکا بھی کہتے ہیں، لیکن حریفوں کا کیا ہے، وہ تو کچھ نہ کچھ کہتے ہی رہتے ہیں۔ داد تو ان کو دی جانی چاہیے جنہوں نے ہاتھ اس طرح دکھائے ہیں۔ دستور کی تمام شرائط بھی پوری ہوگئیں اور کسی تیسرے کے ہاتھ بھی کچھ نہیں آیا۔ پیر پگاڑا ہاتھ ملتے رہ گئے ۔ اب جسٹس صاحب کابینہ کی تلاش میں ہیں اور سنا ہے کہ آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں جبکہ آسمان ان کی طرف دیکھ رہا ہے۔ بلوچستان کی حکمرانی نے غوث بخش باروزئی کے گھر دستک دی، وہ ہڑبڑا کر اٹھے اور دروازہ کھول دیا۔ گزشتہ دنوں لاہور آئے تھے تو ان سے خوب باتیں ہوئی تھیں۔ الطاف حسن قریشی صاحب کے بلوچستان سیمینار میں انہوں نے سننے والوں کو بہت چونکایا تھا۔ ان کے والد بلوچستان کے وزیراعلیٰ رہے اور اسمبلی کے سپیکر بھی۔ غوث بخش ڈاکٹر ہیں لیکن زمینداری میں مگن رہتے ہیں۔ دانشور سمجھے جاتے اور اپنی سی کہہ گزرتے ہیں۔ بلوچستان نے ان کی آمد پر اطمینان کا سانس لیا ہے۔ شاید اس کی وجہ آنے والے سے زیادہ جانے والا ہو… بلوچستان ایک ایسا خطہ ہے کہ جس کی ’’ب‘‘ کو سمجھنے کے لیے بھی بہت کچھ سمجھنا پڑتا ہے، لیکن جو بکری کی ’’ب‘‘ نہیں سمجھتے وہ اس پر قدرت کا دعویٰ کرتے رہتے ہیں۔ابھی تک کوئی وزیر غوث بخش کے ہاتھ نہیں لگ سکا۔ دیکھیے صحرا سے وہ کس طرح کی مچھلیاں پکڑتے ہیں۔ پنجاب میں ہمارے ’’میڈیا بھائی‘‘ نجم سیٹھی نے بذریعہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) کے دل میں نقب لگائی اور اتفاق رائے سے وزارت اعلیٰ ان کے سپرد کر دی گئی۔ مسلم لیگ (ن) کے جیالے چیختے چنگھاڑتے رہ گئے اور کئی اب بھی کسمسا رہے ہیں لیکن نواز شریف نے اپنی جیب سے ہُما نکال کر ان کے سر پر بٹھا دیا۔ نجم سیٹھی کے بارے میں بہت کچھ کہا جاسکتا ہے لیکن فی الحال اس کی ضرورت نہیں۔ وہ ایک تجربہ کار، تجزیہ کار ہیں۔ قلم اور زبان کے دھنی… پڑھے لکھے، غور و فکر کرنے اور راستہ بنانے والے۔جوانی میں انقلاب کا بھوت سوار ہوا تھا، اب وہ ہوا ہو چکا۔ نواز شریف نے اپنے دورِ اقتدار میں ان کو جیل میں ڈالا تھا، اب اس کا کفارہ ادا کر دیا ہے۔ نجم سے اچھی توقعات لگائی جا سکتی ہیں۔ ان کی تقریب حلف برداری میں ہمارے لبرل، سیکولر بھائی بہت خوش تھے کہ پہلی بار پنجاب کی عارضی وزارت اعلیٰ ان کے کسی ساتھی کے ہاتھ آگئی ہے۔ ان کے کھلے ہوئے چہروں کے درمیان گورنر پنجاب نے نجم عزیز سیٹھی سے حلف لینا شروع کر دیا، جب وہ اس فقرے پر پہنچے : اسلامی نظریے کی پاسداری کروں گا جوکہ تخلیق پاکستان کی بنیاد ہے تو دیکھنے والوں کی حالت دیدنی تھی۔ بہرحال، ان بحثوں میں خود کو اُلجھانے کی ضرورت نہیں۔ نگران وزیراعلیٰ کو دعاؤں کی ضرورت ہے اور یہ تحفہ ان کو پیش کیا جانا چاہیے… نگران حکمرانوں کو یہ یاد کرانا البتہ غلط نہیں ہوگا کہ ان کی نگرانی بھی کی جا رہی ہے، آنکھیں ان پر لگی ہوئی ہیں۔ (یہ کالم روزنامہ ’’دنیا‘‘ اور روزنامہ ’’پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)