ایک زمانہ تھا کہ پاکستان اور ہندوستان کی سیاست وکیلوں کے ہاتھ میں تھی۔ قائد اعظم محمد علی جناح وکیل تھے اور مہاتما گاندھی بھی۔ علامہ اقبال نے اپنا رزق اِسی پیشے سے وابستہ کر لیا تھا، لیاقت علی خان بھی لندن سے بیرسٹر بن کر لوٹے تھے۔ حسین شہید سُہروردی، عبدالرب نشتر، ممتاز محمد خان دولتانہ، عبدالقیوم خان سب وکیل تھے۔ پنڈت جواہر لال نہرو نے بھی قانون پڑھ رکھا تھا اور اُن کے والد موتی لال نہرو تو ممتاز ترین وکلا میں سے تھے۔ اُن کی دولت کا راز اُن کی وکالت ہی میں تھا۔ کئی وکیلوں نے سیاست کو اوڑھنا بچھونا بنا لیا، کئی کوچہ ٔ سیاست کو خیرباد کہہ گئے اور کئی نظریۂ ضرورت کے تابع رہے۔ ضرورت پڑی تو کالا کوٹ پہن لیا، پوری ہوئی تو سر پر ٹوپی رکھ لی۔ جناح کیپ ہو یا گاندھی ٹوپی، اسلم رئیسانی صاحب کے محاورے میں ٹوپی تو ٹوپی ہوتی ہے۔ ایس ایم ظفر بھی ماشاء اللہ وکیل اور سیاست دان دونوں ہیں۔ وکالت اُن کا پیشہ ہے اور سیاست مشغلہ۔ وکیل کے طور پر انہوں نے بڑا نام پایا اور بہت کچھ کمایا ہے لیکن سیاست دان کے طور پر گنوایا بھی کچھ نہیں۔ وکالت سے جو عزت کمائی، اُن کی سیاست اسے کم نہیں کر پائی۔ ہرچند کہ اُن کے کئی فیصلوں سے شدید اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کی کابینہ کو تو چھوڑیئے کہ اس وقت وہ نوجوان تھے، غلام مصطفیٰ جتوئی کی جماعت میں شمولیت اور پھر مسلم لیگ(ق) سے تعلق کوئی ایسا معاملہ نہیں کہ جسے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر لیا جائے، لیکن جو لوگ حقائق سے باخبر ہیں، اُن کو ماننا پڑتا ہے کہ وہ بازار سے گزرے تو ہیں، جنسِ بازار نہیں ہیں۔ انہوں نے قیمتیں لگتے دیکھی ہیں اور شاید لگائی بھی ہوں، لیکن اپنی قدروقیمت کا احساس ان کے اپنے دل میں موجود رہا ہے۔ ایس ایم ظفر جیسے رہے، جہاں رہے، قرینے اور سلیقے سے رہے۔ بدسلیقگی اور بدذوقی کو پاس پھٹکنے نہیں دیا۔ ایوب خان کے آخری دنوں میں ازحد کوشش کی کہ قومی اسمبلی کے ذریعے 1962ء کے دستور میں ترامیم ہو جائیں۔ منظور قادر مرحوم سے آئینی بل بھی تیار کرا لیا، لیکن جو لوگ جمہوریت کے نام پر اودھم مچائے ہوئے تھے، انہوں نے مارشل لا لگوا کر دم لیا۔ اگر 1962ء کے دستور کو 1956ء کے منسوخ شدہ دستور کے قالب میں ڈھال دیا جاتا تو جو کچھ بعد میں پیش آیا، آنکھوں کو اسے دیکھنے کا عذاب نہ جھیلنا پڑتا۔ جنرل ضیاء الحق کے عہد کا بڑا حصہ تو انہوں نے پیر صاحب پگاڑا کی بیعت میں گزار دیا۔ جنرل ضیاء الحق غیرجماعتی انتخابات کرانے میں کامیاب ہو گئے۔ یوں اُن کے رخصت ہونے کے بعد مارشل لاء کو آنے کا حوصلہ نہیں ہوا اور جمہوریت کی گاڑی کسی نہ کسی طور چلتی رہی۔ جنرل پرویز مشرف کی ’’جمہوریت‘‘ میں ظفر صاحب سینیٹ میں پہنچے اور اُن کی ذہانت کئی گتھیاں سلجھاتی رہی۔ سینٹ کے نو سال کی کہانی انہوں نے کتابی صورت میں لکھ ڈالی ہے۔ ’’سینیٹر ایس ایم ظفر کی کہانی، اُن کی اپنی زبانی‘‘ میں نو سال کے تفصیلی تذکرے کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔ مسلم لیگ کی تاریخ اور پاکستان میں جاری رہنے والی اتحادی سیاست کے کئی گوشے سامنے آ گئے ہیں۔ جو کچھ لکھا گیا ہے، اس سے اتفاق نہ کرنے والے بھی اس کی اہمیت سے انکار نہیں کر سکتے کہ ایک بڑے پہلوان کے دائو پیچ دلچسپی کا اپنا سامان رکھتے ہیں۔ ظفر صاحب کی وکالت کو اس لیے داد دینا پڑے گی کہ انہوں نے چیف جسٹس ارشاد حسن کی سپریم کورٹ کے ذریعے جنرل پرویز مشرف کی خواہشات کے سمندر کو تین سال کے کوزے میں بند کرا دیا۔ جنرل پرویز مشرف کے مارشل لاء کو جواز بخشتے ہوئے سپریم کورٹ نے اسے تین سال کے اندر انتخابات کرانے کا پابند کر دیا تھا۔ عدالتی معاون کے طور پر دلائل دیتے ہوئے یہ تجویز ظفر صاحب کے زرخیز ذہن ہی نے پیش کی تھی۔ بعد میں آنے والے چیف جسٹس ریاض احمد شیخ نے اگرچہ آئی ایس آئی کے سربراہ سے رَسی دراز کرنے کا وعدہ کر لیا تھا، لیکن جنرل پرویز مشرف اس پر آمادہ نہ ہوئے اور سپریم کورٹ کا بھرم رہنے دیا۔ 2002ء کے انتخابات کے بعد جنرل پرویز مشرف کے ریفرنڈم کو ایم ایم اے سے صدارتی انتخاب کا نیم متبادل منوانا ہمارے ظفر صاحب ہی کا کارنامہ تھا۔ سترہویں آئینی ترمیم کو پارلیمنٹ کی دو تہائی اکثریت اسی طور مل پائی۔ جنرل پرویز مشرف نے2004ء میں وردی اُتارنے کا وعدہ ہی نہیں ٹیلی ویژن پر آ کر باقاعدہ اعلان کیا تھا، لیکن بعد میں مکر گئے۔ اُن کی یہی عہد شکنی ان کے زوال کا سبب بنی۔ ظفر صاحب کی داد دینی چاہیے کہ انہوں نے علی الاعلان ایم ایم اے کے نقطہ نظر کی تائید کی اور جنرل پرویز مشرف کے انکار کو معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیا۔ جنرل پرویز مشرف 2004ء میں وردی اُتار دیتے تو 2007ء میں صدارتی انتخاب کے لیے اُن کی اہلیت سپریم کورٹ کے رحم و کرم پر نہ ہوتی، انہیں اپنا مستقبل محفوظ بنانے کے لیے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے خلاف کارروائی کرنا نہ پڑتی اور بعد میں سپریم کورٹ کے ججوں کو سبکدوش کرنے کے لیے نام نہاد ایمرجنسی کا سہارا بھی لینا نہ پڑتا۔ نومبر 2007ء کے اس اقدام کی ضرورت ہی پیش نہ آتی جو آج موصوف کے سر پر دفعہ 6 کی تلوار لٹکائے ہوئے ہے۔ ایس ایم ظفر سے نیازمندی کا سلسلہ تو دور تک جاتا ہے، لیکن ’پلڈاٹ‘ کے ساتھ تعلق نے اسے نئی گہرائی بخش دی۔ پاکستان کا یہ باوقار غیرسرکاری ادارہ انجینئر احمد بلال محبوب کی تخلیق ہے، پارلیمنٹرینز کی معاونت اور ہمارے جمہوری نظام میں شفافیت کے لیے اس نے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ اسی کے زیر اہتمام 8 جولائی 2006ء کو جنرل پرویز مشرف کے نام18 معروف پاکستانیوں نے ایک کھلا خط لکھ کر مطالبہ کیا تھا کہ صدر اور چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے الگ الگ کیے جائیں، یعنی وردی اُتار دی جائے۔ یہ بھی واضح کیا گیا تھا کہ2007ء کے انتخابات کو قابل اعتبار بنانے کے لیے مرکز اور صوبوں میں غیرجانبدار نگران حکومتوں کا قیام عمل میں لانا ہو گا۔ نیز یہ کہ چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کو ٹھوس اور حقیقی اختیارات منتقل کرنا لازم ہوں گے۔ ایس ایم ظفر پلڈاٹ کے مشاورتی بورڈ کے صدر ہیں اور مَیں ایک ادنیٰ رکن۔ طویل صلاح مشورے کے بعد اس کے مسودے کو جاوید جبار اور ڈاکٹر حسن عسکری رضوی صاحبان نے آخری شکل دی۔ ظفر صاحب نے بخوشی اِس پر دستخط ثت کر دیئے۔ جنرل پرویز مشرف کے ساتھ خصوصی مراسم رکھنے والے جنرل تنویر نقوی اور جنرل معین الدین حیدر بھی اس مشاورت میں شریک تھے۔ میری طرح ان کے دستخط بھی ثبت ہو گئے۔ یہ خط ایٹمی دھماکہ ثابت ہوا۔ جنرل پرویز مشرف شدید نفسیاتی ہزیمت کا شکار ہو گئے۔ ایس ایم ظفر برسر اقتدار جماعت کے سینیٹر تھے، جنرل تنویر نقوی جنرل پرویز مشرف کے ’’سیاسی اتالیق‘‘ سمجھے جاتے تھے۔ جنرل معین الدین حیدر ان کے چہیتے وزیر داخلہ رہ چکے تھے۔ اُن کی طرف سے وردی اُتارنے کے مطالبے کی ہم نوائی نے دور و نزدیک یہ پیغام پہنچا دیا کہ پرویز مشرف کے ساتھی اُن کو چھوڑ چکے ہیں۔ وہ گرتی ہوئی دیوار ہیں، ان کو صرف ایک دھکے کی ضرورت ہے۔ اس خط نے میڈیا کی شہ سرخیوں میں جگہ پائی اور جنرل موصوف آگ بگولہ ہو گئے۔ جنرل تنویر نقوی اور جنرل معین الدین حیدر کو دیئے جانے والے پروٹوکول (اور سکیورٹی) کا خاتمہ ہو گیا ان کی پذیرائی بند کر دی گئی اور دفاعی اداروں کے لیے وہ ناپسندیدہ شخصیت بن گئے۔ ایس ایم ظفر کی ’’کانسٹی ٹیونسی‘‘ یعنی پنجاب حکومت اپنا سر پیٹ رہی تھی۔ عالمِ بالا سے میری مُشکیں کسنے کے احکامات بھی جاری ہوئے۔ اخبار کے اشتہارات پر دبائو پڑا، چودھری پرویز الٰہی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ اس بھنور سے کیسے نکلیں۔ ایک طرف ’’اعلیٰ حکام‘‘ دوسری طرف برسوں کا تعلق، تیمور عظمت عثمان اور شعیب بن عزیز غم و غصے کے پیغامبر تھے، مَیں اپنی جگہ پر تھا۔ بہرحال چودھری پرویز الٰہی نے خاندانی روایات کی آبرو رکھی اور آسمانی بجلی فضا میں کڑک کر رہ گئی۔ جنرل پرویز مشرف کی رخصتی کے بعد ظفر صاحب نے مسلم لیگیوں کو یکجا کرنے کی کوشش کی لیکن اس میں کامیابی نہیں ہو سکی۔ اس کی وجہ انہوں نے خود ہی میاں ممتاز محمد خان دولتانہ کی زبان سے بیان کر دی ہے: مسلم لیگ کی سرشت میں تقسیم کے جراثیم اس لیے موجود رہیں گے کہ یہ نام ایک سیاسی برانڈ ہے جو عوام میں قابل فروخت ہے۔ اکثر طالع آزما اس نام سے اپنا سودا سیاست کے بازار میں بیچنے کی کوشش کرتے رہے ہیں اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔ (یہ کالم روزنامہ ’’دُنیا‘‘ اور روزنامہ ’’پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)