الیکشن کمیشن نے انتخابی عمل کے لیے جاری کیے جانے والے ضابطہ ٔ اخلاق میں اسلام کے نام پر ووٹ مانگنے کو ممنوع قرار دیا ہے۔ اِس پر بعض ’مولانا‘ دوستوں نے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اسے پاکستان کی تحریک اور اس کے نظریے کے منافی قرار دیا ہے۔ کہا گیا ہے کہ یہ پاکستان کو ’’سیکولر‘‘ بنانے کی سازش ہے۔ ایک دوست نے جو سینیٹر بھی ہیں، اس پر سینٹ میں شدید تنقید کی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ اس طرح کی پابندی ’جہالت‘ ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ الیکشن کمیشن آئینِ پاکستان کے تقاضوں سے نابلد ہے۔ یہ سب کچھ سن اور پڑھ کر وہ لوگ ضرور ہنس دیں گے، جو آئین پاکستان کی معمولی سی شُد بُد بھی رکھتے ہیں۔ فاضل علمائے کرام نے یہ بات نظر انداز فرما دی کہ اسلام پر عمل کرنے، اِس کی اقدار کی حفاظت کرنے، اِس پر جان و دل نثار کرنے سے کسی کو منع نہیں کیا گیا، نفی اگر کی گئی ہے، تو اسلام کے نام پر ووٹ مانگنے کی ہے۔ ووٹ مانگتے ہوئے کوئی شخص اپنے آپ کو ’’اسلام‘‘ کا اجارہ دار قرار نہیں دے سکتا کہ، اگر یہ اجازت دے دی جائے، تو اِس کا مطلب یہ ہو گا کہ اس کا مخالف امیدوار ’’اسلام‘‘ کا ماننے والا یا پیروکار نہیں ہے۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے، جس کی تخلیق کو 66سال گزرنے کے باوجود اِس بات پر بحث جاری رہتی ہے کہ اس کا نظام کیا ہونا چاہیے۔ کوئی سیکولرازم کا لبادہ اوڑھنا اور ’اوڑھانا‘ چاہتا ہے، تو کوئی اسلام کے نام پر سینکڑوں سال پرانی فقہی تشریحات و تعبیرات کو اس پر نافذ کرنا چاہتا ہے۔ کوئی مغربی بے راہ روی اور بداخلاقی کو پاکستان میں عام کرنا چاہتا ہے، تو کوئی عورتوں کو کال کوٹھڑی میں بند کر کے داد وصول کرنا چاہتا ہے۔ اس قماش کے حضرات سے کبھی ٹی وی سٹوڈیوز میں سابقہ پڑتا ہے، تو کبھی تعلیمی اداروں میں ٹاکرا ہو جاتا ہے۔ ان سے بار بار یہ عرض کیا گیاہے کہ اب پاکستان میں اِس طرح کی بحثوں کی کوئی گنجائش نہیں۔ برسوں پہلے ہمارا آئین بن چکا ہے، اس پر پوری قوم کا اتفاق ہے۔ قوم کے منتخب نمائندوں نے اسے ایک ساتھ مل کر بنایا تھا۔ پارلیمنٹ میں موجود کوئی ایک جماعت نہ اُس وقت اس کی انکاری تھی، جب43سال پہلے اسے مرتب کیا جا رہا تھا اور نہ آج اِس سے انکار کی جرأت رکھتی ہے۔ اپنی مدت پوری کر کے رخصت ہونے والی پاکستان کی تیرھویں قومی اسمبلی نے اتفاق رائے سے اس میں ترامیم کی ہیں، اس لحاظ سے اس پر ’’اجماعِ اُمت‘‘ ہے۔ اِس آئین نے وہ ساری بحثیں ختم (یا طے) کر دی ہیں، جو آئین سازی سے پہلے چھڑتی ہیں یا چھیڑی جا سکتی ہیں۔ اس کے مطابق پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ ہے، اس کا سرکاری مذہب اسلام ہے اور مسلمان ہی اس کا صدر اور وزیراعظم ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں قائم ہونے و الی ہر حکومت کی یہ آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کے رہنے والوں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر اسلامی اقدار کے مطابق زندگی گزارنے کے قابل بنائے۔ (غیر مسلموں کو اپنے عقیدے کے مطابق زندگی گزارنے کا حق بھی حاصل ہے اور کسی شخص کو اِس میں مداخلت کا کوئی اختیار نہیں ہے) ہماری ریاست جب کلمہ پڑھ چکی اور اپنے آپ کو اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کا پابند بنا چکی، تو اب کسی شخص، گروہ یا جماعت کو یہ حق کیسے پہنچتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو ’’مسلمان‘‘ قرار دے کر عملاً دوسروں کو ’’غیر مسلم‘‘ قرار دے لے۔ اب معاملہ پاکستان کے معاملات کو درست کرنے کا ہے۔ مختلف سیاسی جماعتوں کو جو انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں، یہ بتانا چاہیے کہ وہ نظام حکومت کو کس طرح چلائیں گی۔ ان کی خارجی اور داخلی پالیسیاں کیا ہوں گی، ترجیحات کس طرح متعین ہوں گی، نظام تعلیم کیا ہو گا، ادارے کس طرح قائم ہوں گے، کرپشن کا خاتمہ کیسے ہو گا، قوم کو قرض سے نجات کیسے ملے گی، کرپشن کے عفریت کا سر کیسے کچلا جائے گا۔ یاد رکھیے کرپشن اسلامی یا غیر اسلامی نہیں ہوتی۔ اگر مولوی کرپشن کرے، تو اسے دو گنا سزا ملنی چاہیے کہ اُس نے اپنے علم کو بھی داغ لگایا۔ اِسی طرح میٹرو بس، یا زیر ِ زمین ریلوے کو مسیحی، ہندو یا مسلمان میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ پولیس تھانے اور پٹوار خانے بھی مسلمان اور نامسلمان کی بنیاد پر الگ الگ نہیں کیے جا سکتے۔ ان کو درست کرنے کا طریقہ ہر ایک کا اپنا اپنا ہو سکتا ہے، معاشی اور دفاعی پالیسیوں پر ایک کی رائے دوسرے سے مختلف ہو سکتی ہے، سو اِس حوالے سے اپنی اپنی بات واضح کی جانی چاہیے۔ بہت سے لوگ یہ رائے رکھتے ہیں کہ علمائے کرام کو قومی سیاست میں فریق نہیں بننا چاہیے۔ ان کو اور اُن کی جماعتوں کو بُرائی کے خلاف جہاد کرنا چاہیے، وہ جس بھی جگہ ہو اور جس بھی شخص میں ہو۔ علمائے کرام کی بنیادی ذمہ داری دعوت اور اصلاح ہے۔ انسانی معاشرے تقسیم کار کی بدولت توانا ہوتے اور آگے بڑھتے ہیں۔ دین اور دُنیا کی یک جائی کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ہر دیندار لازماً سیاست دان بننے کی کوشش کرے اور اپنی جماعت بنا کر میدان میں اُتر آئے۔ علما ء انبیا ء کے وارث ہیں، انہیں اُن کے لائے ہوئے پیغام کو عام کرنے کے لیے زندگی وقف کر دینی چاہیے۔ دقیق علمی بحثوں اور مقالوں کو تو رکھیے ایک طرف کیا یہ حقیقت ہماری نگاہ سے اوجھل ہے کہ ایک بڑی تعداد کو کلمہ ٔ توحید بھی صحیح تلفظ کے ساتھ ادا کرنا نہیں آتا۔ ایک بڑے لیڈر نے جلسہ ٔ عام میں کلمۂ پڑھا تو زیر، زبر اپنی جگہ نہ رہ سکے۔ ہماری علمی سطح کا یہ عالم ہے کہ اسمبلیوں کی امیدواری کا شوق پالنے والوں میں سے بہت سوں کو بنیادی اسلامی تعلیمات ہی سے آگاہی نہ تھی۔ اس پر شرمندگی محسوس کرنے اور اپنی درس گاہوں کی فاتحہ پڑھنے کے بجائے ہمارے میڈیا اور سیاسی ایلیٹ نے ہنگامہ کھڑا کر دیا کہ ’’معززین‘‘ کی توہین کی جا رہی ہے۔ ان سے ایسے سوالات پوچھے جا رہے ہیں، جن کا جواب انہیں معلوم نہیں اور یوں اہل سیاست رسوا ہو رہے ہیں۔ اعلیٰ عدلیہ بھی اِس بھرّے میں آ گئی اور اہلیت کا پھاٹک کھول دیا گیا۔ کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ سے دو دو ہاتھ کرنے کے لیے بے چین مذہبی رہنما اور اُن کے لاکھوں مرید معاشرے کی تبدیلی کے لیے اپنا کردار ادا نہیں کر پا رہے۔ ان کو انتخابی چکا چوند تو اپنی طرف متوجہ کر رہی ہے، لیکن کردار سازی اُن کی نگاہوں سے اوجھل ہو چکی ہے۔ مَیں ان لوگوں میں سے ہوں، جو سیاست کا ذوق رکھنے والے علماء پر انتخابی عمل کے دروازے بند کرنے پر یقین نہیں رکھتے۔ کسی بھی شخص کو آئین کے دائرے میں رہ کر اپنے بنیادی حقوق طلب کرنے اور اُن کو استعمال کرنے کا حق حاصل ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اسلام دشمنی کے لیبل تقسیم کیے جائیں۔پیپلزپارٹی، مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف اگر ایک دوسرے کو ’’اسلام دشمن‘‘ قرار دیے بغیر یا اسلام کے نام پر ووٹ مانگے بغیر اپنا پروگرام ترتیب دے سکتی ہیں ، تو مذہبی جماعتیں ایسا کیوں نہیں کر سکتیں؟ وہ اپنے خیالات کو الفاظ کا جامہ پہنا کر لوگوں کے سامنے پیش کیوں نہیں کر سکتیں؟ مسلمانوں کے درمیان مسابقت اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کے حوالے سے ہونی چاہیے، اسلام کے نام پر ڈنڈا چلانے سے نہیں اور اسلام کے نام پر ووٹ مانگنے سے بھی نہیں۔ مذہب کیا، علاقے، رنگ، نسل اور زبان کی بنیاد پر ووٹ مانگنے پر بھی پابندی عائد ہونی چاہیے۔ ایک دوسرے کو کافر قرار دینے کی روش جمہوری تو کیا کوئی انسانی معاشرہ بھی برداشت نہیں کر سکتا۔ اِس لئے، پیارے دوستو، اپنی کارکردگی پر، اپنے کردار پر، اپنی منصوبہ سازی پر ووٹ مانگو… اسلام، ہم سب کا ہے، اسے سب ہی کا رہنے دو۔ (یہ کالم روزنامہ ’’دُنیا‘‘ اور روزنامہ ’’پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)