بلوچستان میں بم دھماکے بھی ہو رہے ہیں،لوگوں کو چُن چُن کر نشانہ بھی بنایا جارہا ہے۔ سیاسی رہنمائوں پر حملے بھی ہو رہے ہیں۔تنصیبات کو نقصان بھی پہنچایا جارہا ہے،عام انتخابات کے پُرامن انعقاد سے متعلق خدشات بھی ظاہر کئے جارہے ہیں، اغوا برائے تاوان کی وارداتیں بھی ہورہی ہیں، غیر ملکی ایجنسیاں بھی اپنی کارستانیوں میں مصروف ہیں، سرحد پار سے اسلحہ بھی آ رہا ہے ، علیحدگی پسندوں کی پیٹھ بھی تھپکی جا رہی ہے، کئی مقامات پر جنگجو عناصر قومی اخبارات بھی تقسیم نہیں ہونے دیتے، کیبل آپریٹرز کو دھمکا کر الیکٹرانک میڈیا کی نشریات بھی رکوا دیتے ہیں…غرض وہ سب بڑے دھڑلے سے ہورہا ہے جس کی تفصیل قومی اور بین الاقوامی میڈیا میں آتی رہتی ہے۔ جہاں یہ سب کچھ ہورہا ہے، وہاں کچھ اور بھی ہورہا ہے،وہ کچھ جو نگاہوں سے اوجھل رہتا ہے یا جس پر توجہ نہیں دی جاتی یا جس میں خبریت تلاش نہیں کی جا سکتی۔ اسے دیکھنے کے لئے بلوچستان جانا پڑتا ہے، واقعات کا کھوج لگانا پڑتا ہے اور کسی ایک شہر، ایک علاقے یا ایک قبیلے کی عینک اُتارنا پڑتی ہے۔ وہ جو کہتے ہیں کہ دُور کے ڈھول سہانے، بلوچستان کے حوالے سے یہ محاورہ بالکل اُلٹ ہوگیا ہے۔یہاں ’’دُور کے ڈھول ڈرائونے‘‘ کہے جا سکتے ہیں۔ جوں جوں قریب آتے جائیں، معاملہ تبدیل ہوتا جاتا ہے۔ ڈھول کی آواز بدلتی جاتی ہے، اسے سہانا نہ کہہ سکیں تو بھی اتنا ڈرائونا سنائی نہیں دیتا جو لاہور یا اسلام آباد میں بیٹھ کر سننے کو ملتا ہے۔ الطاف حسن قریشی صاحب ایک مایہ ناز ایڈیٹر، دانشور اور کالم نگار تو ہیں ہی، پاکستان انسٹیٹیوٹ آف نیشنل افیئرز(پائنا) کے سربراہ بھی ہیں۔اِس حوالے سے مختلف مذاکروں اور مجلسوں کا اہتمام کرتے رہتے ہیں۔برسوں پہلے جب سندھ میں ایم آر ڈی کی تحریک زوروں پر تھی اور مارشل لا کے خلاف لاوا اُبل رہا تھا، انہوں نے یکجہتی سیمینار کا انعقاد کیا تھا اور کوشش کی تھی کہ مسائل کی نشاندہی کرکے جذبات کو آسودہ کیا جائے۔ ان کے اِس سیمینار میں ڈاکٹر حمیدہ کھوڑو نے مطالبہ کیا تھا کہ پنجاب ایک خالی چیک پر دستخط کر کے ہمیں دے دے، ہم اپنی مرضی کے ہندسے اس پر لکھ لیں گے، یعنی اپنی شرائط پر وفاق کا حصہ رہیں گے… پنجاب ان کے راستے کی دیوار بننے کو تیار نہیں تھا، لیکن اہل دانش کا خیال تھا کہ مطالبہ سندھ کے منتخب نمائندوں کو پنجاب کے منتخب نمائندوں سے کرنا چاہئے۔ بعد کے واقعات نے ثابت کیا کہ یہی طریقہ درست اور قابل ِ عمل ہے۔ دونوں صوبوں کے منتخب نمائندوں کے ہاتھ میں معاملات واپس آئے تو جذبات کا رُخ بھی تبدیل ہوتا گیا۔ آج سندھ اور پنجاب کے درمیان معاملے بدل چکے ہیں، سیاسی عمل نے انہیں ہم سفر بنا دیا ہے۔ ’’پائنا‘‘ نے چند ماہ بیشتر لاہور میں بلوچستان کے مسئلے پر بھی ایک رجحان ساز مذاکرے کا اہتمام کیا۔ اہل فکر و نظر مل بیٹھے اور بلوچستان کے مسئلے کو سمجھنے کی کوشش کرتے رہے۔ ایک صاحب غوث بخش باروزئی بھی سبّی سے تشریف لائے تھے۔ انہوں نے تقریر شروع کی تو سینکڑوں سامعین کو یوں سمجھئے کہ اپنا قیدی بنا لیا۔ اُن کی باتوں میں انفرادیت تھی اور لہجے میں بھی۔ انہوں نے ڈنکے کی چوٹ کہا کہ بلوچستان کو سمجھے بغیر بلوچستان کے بارے میں لفظوں کے پہاڑ کھڑے کئے جا رہے ہیں۔ یہ کسی ایک شخص، ایک جماعت یا ایک قبیلے کا نام نہیں ہے۔ اس کی تاریخ ،جغرافیے اور سماج کا ادراک کیجئے تو پھر خیالات کے زاویے تبدیل ہو جائیں گے اور معاملات کو سنبھالنا ممکن ہو سکے گا۔ غوث بخش باروزئی سے بعد میں تفصیلی ملاقات ہوئی تو پتہ چلا کہ وہ ایک سابق وزیراعلیٰ اور سابق سپیکر نواب محمد خان باروزئی کے فرزند ارجمندہیں۔ اپنے قبیلے کے سردار ہیں، سیاست کی بجائے انہوں نے طب کی دُنیا میں قدم رکھا، ڈائو میڈیکل کالج کراچی سے ایم بی بی ایس کا امتحان پاس کر کے محکمہ ٔ صحت سے وابستہ رہے۔ اب آزاد ہیں اور غورو خوض کے لئے وقف۔ ان سے دوبارہ ملنے کی خواہش شدت سے موجود تھی کہ بلوچستان میں اُن کو نگران وزیراعلیٰ بنانے پر اتفاق ہو گیا۔ انہوں نے منصب سنبھالا تو کوئٹہ آنے کی دعوت بھجوا دی اور اِس پر اصرار بھی جاری رکھا۔ الطاف حسن قریشی صاحب نے لاہوری میڈیا میں موجود اپنے چند حلقہ بگوشوں کا وفد بنا کر کوئٹے کا عزم باندھ لیا۔ دو روز کوئٹہ میں گزارنے کے بعد یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ مطالعے کا حق ادا ہو گیا، لیکن یہ بہرحال کہا جا سکتا ہے کہ بہت کچھ ایسا دیکھنے اور سننے کو مل گیا جو لاہور میں بیٹھ کر دیکھا یا سنا نہیں جا سکتا۔ کوئٹہ پریس کلب میں بھڑاس نکالنے کا مقابلہ ہوا۔ داخلہ،خزانہ اور اطلاعات کے صاحبان کی بریفنگ سے استفادہ کیا۔ آئی جی ،ایف سی میجر جنرل عبیداللہ سے تفصیلی تبادلہ ٔ خیال ممکن ہوا، سدرن کمان کے قائم مقام کمانڈر کے خیالات سنے، انوار الحق کاکڑ کے عشایئے پر قریباً تمام سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ ہزارہ قبیلے کے نمایاں افراد سے معانقہ ہوا اور اپنے میزبان غوث بخش باروزئی سے وزیراعلیٰ ہائوس میں گفتگو رہی۔ وہ تیرہ زبانیں بول سکتے ہیں، لیکن اُن کی اصل زبان محبت کی ہے، اِس پر اُن کو تیرہ سے زیادہ قدرت حاصل ہے۔ اس سب کا نتیجہ یہی تھا کہ بہت سی خرابیوں کے باوجود الیکشن کی تیاریاں زوروں پر ہیں۔ تمام سیاسی جماعتوں کے رہنما ان میں شریک ہونے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ جمہوری عمل کے ذریعے مطالبات منوانے اور مسائل حل کرنے کی تحریک توانا ہے۔ بندوق اُٹھانے والے(ایک حد تک) طاقت تو رکھتے ہیں، لیکن فیصلہ کن کردار ادا نہیں کر سکتے۔ ان کا مقابلہ کرنے اور انہیں شکست دینے کا عزم ہر جگہ اور ہر سطح پر توانا ہے۔ وقت اُن کے ساتھ نہیں ہے، پاکستان کی طاقت ہی بلوچستان کی طاقت ہے۔ (یہ کالم روزنامہ ’’دُنیا‘‘ اور روزنامہ ’’پاکستان‘‘ میں بیک شائع ہوتا ہے)