2013ء کے انتخابات میں تبدیلی کا نعرہ بہت گونجا ہے۔عمران خان کو ان کے حامیوں نے ’’تبدیلی کا نشان‘‘ قرار دے دیا۔ان کے نوجوانوں سے جب اور جہاں بات ہوتی وہ دوسری سیاسی جماعتوں کو ’’سٹیٹس کو‘‘ کی پیداوار( اور اسی کی علمبردار) قرار دیتے۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) کو ایک ہی ڈنڈے سے ہانکنے کی کوشش کرتے اور دونوں کو رجعت پسند ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگادیتے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ پیپلزپارٹی نے چھیالیس سال پہلے جب اسی شہر لاہور میں جنم لیا تھا تو جنم جنم کے انقلابی بھی اس میں آن موجود ہوئے تھے۔بھٹو صاحب کے سائے میں ان کے نعروں نے خوب پرورش پائی اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار’’سوشلزم ہماری معیشت ہے‘‘ کا غلغلہ بلند ہوا۔بھٹو صاحب تبدیلی کا نشان بن گئے اور گائوں گائوں یہ سوچاجانے لگا کہ جاگیرداروں اور بڑے زمینداروں کی شامت آ گئی ہے۔زرعی اصلاحات ہوں گی اور بے زمین کاشتکاروں کو ان کی زمینیں تقسیم کردی جائیں گی۔ پنجاب کے دیہات میں لوگ بھٹو صاحب کے دیوانے تھے، مزارعین بے خوف ہوگئے اور زمینداروں کی ٹانگیں تھر تھر کانپنے لگیں۔بھٹو صاحب نے نیا پاکستان بنا لیا، حالات نے ایسا رُخ اختیار کیا کہ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی وردی پہن کر سیاہ و سفید کے مالک بن بیٹھے۔ بے پناہ اختیارات سے کام لے کر انہوں نے صنعتوں اور بنکوں کو قومیا لیا،لیکن بڑے زمینداروں کو بہت کم نقصان پہنچا۔زرعی اصلاحات نیم دلی سے کی گئیں، ’’انقلاب‘‘ نے اپنا منہ دیہات سے موڑ لیا۔ بھٹو صاحب اقتدار سے اس طرح رخصت ہوئے کہ اپنے کارکنوں سے فاصلہ پیدا ہوچکا تھا اور جن وڈیروں کے خلاف حرکت میں آنے کا وعدہ کرکے انہوں نے ووٹ حاصل کئے تھے، وہ ان کے حلیف بن گئے تھے۔1977ء میں انہوں نے ٹکٹ دیتے وقت ’’سماجی حقیقتوں‘‘ کے ہاتھ پر بیعت کرلی اور بالآخر وہ ہوگیا جس کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا تھا۔پیپلزپاٹی اب بھی اپنے آپ کو انقلابی قرار دیتی ہے لیکن اس کی سیاست کو دیکھ کر اس کے اس دعوے پر کوئی کم ہی یقین کرنے کو تیار ہے۔ مسلم لیگ(ن) کے قائد میاں نوازشریف ’’شرافت کی سیاست‘‘ کے علمبردار بن کر میدان میں اترے تھے اور صنعتی انقلاب کا مژدہ سنایا تھا۔انہیں بڑے زیرو بم سے پالا پڑ گیا۔ اقتدار تو درکنار جمہوریت کا تسلسل برقرار نہ رہا۔مارشل لا کی بھٹی سے گزرنا پڑاجس نے منظر بدل دیا۔بہت سوں کی رائے ہے کہ وہ کندن بن کر نکلے ہیں اور اگر ان کو پھر موقع مل گیا تو اپنے نامکمل ایجنڈے کی تکمیل کرسکیں گے۔ان کے بھائی شہبازشریف ان کی طاقت بنے ہوئے ہیں اور ان کی سردی میں اپنی گرمی ملاتے رہتے ہیں۔وہ جوش و جذبے سے بھرپور ہیں اور جولکیرنوازشریف اپنے سامنے کھینچتے ہیں، اسے بآسانی عبور کرلیتے ہیں۔کوئی جو کہے کہ مسلم لیگ(ن) کوکریڈیبیلٹی کے اس بحران میں مبتلا نہیں کیا جا سکا جو اس کے دیرینہ حریفوں کے حصے میں آ رہا ہے تو یہ بات بلا خوفِ تردیدکہی جا سکتی ہے کہ نوازشریف اگر اقتدار سنبھالیں گے تو حالات جُوں کے تُوں نہیں رہیں گے۔ وہ خود اور ان کے حامی بھی ان کے تجربے کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔وہ تین دہائی سے زیادہ کوچۂ سیاست میں گزار چکے ہیں، ان کو اپنے اہداف کا علم ہے اور اس کے لئے راستے کا تعین بھی وہ کرچکے ہیں۔تبدیلی کا نعرہ انہوں نے بھی اپنالیا ہے۔ عمران خان اپنی دھن میں مگن ہیں۔ان کی ترجیحات مسلم لیگ(ن) سے مختلف ہیں، لیکن اہداف مختلف نہیں ہیں۔انہوں نے جو طوفانی مہم چلائی ہے، اس نے بڑے بڑوں کو انگلی دانتوں تلے دبانے پر مجبور کردیا ہے۔گزشتہ سترہ سال کے دوران مسلسل محنت نے ان کے فین کلب کو بہت وسعت دے دی ہے۔ان پر قربان ہونے والے نوجوان دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔آنے والے انتخابات سے ان کی بڑی توقعات وابستہ ہیں اور ان کے حامی شدید جوش و جذبے میں ہیں۔وہ بے خوف اپنی وابستگی کا اظہار کرتے اور ملک کی تقدیر کو اپنی مٹھی میں بند کرنے کے لئے بے تاب نظر آتے ہیں۔ 2013ء کی انتخابی مہم ان تینوں جماعتوں کے گرد ہی گھومتی رہی ہے۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ دوسری جماعتوں کا کردار اہم نہیں ہے۔ سندھ، خیبر پی کے اور بلوچستان میں سرگرم سیاسی جماعتیں خاص اہمیت کی حامل ہیں۔انتخاب کے بعد ان میں سے کئی ایک کی اہمیت میں اضافہ ہوجائے گا۔سیاسی پنڈت آئندہ وفاقی اور صوبائی سطحوں پر مخلوط حکومتوں کی پیش گوئیاں کر رہے ہیں، ان کا خیال ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت فیصلہ کن اکثریت حاصل نہیں کرے گی، ایسا ہوا تو چھوٹی جماعتوں کی طرف بھی نظریں لگ جائیں گی۔ 11مئی کانتیجہ جو کچھ بھی ہو‘ پاکستان کی تین بڑی جماعتوں میں سے کون اول آئے اور کس کا شمار تیسرے نمبر پر ہو، اس سے قطع نظر‘ حقیقت یہ ہے کہ 11مئی کے بعد کی سیاست بھی ان تین جماعتوں کے گرد چکر کھاتی نظر آتی ہے۔پیپلزپارٹی کے بارے میں یہ بات کہی جارہی ہے کہ سندھ میں وہ اپنی حیثیت برقرار رکھنے میں کامیاب ہو جائے گی،ووٹ اور نشستیں کچھ کم ہو جائیں تو بھی وہ وہاں کی بڑی جماعت ہو گی۔ پنجاب کے حوالے سے مسلم لیگ(ن) کے اثرو رسوخ کا اعتراف کیا جارہا ہے اور کئی زائچہ نویس اس کے مطابق پیش گوئیاں کررہے ہیں۔خیبر پی کے میں تحریک انصاف کے حوالے سے بہت بلند توقعات قائم کی جارہی ہیں۔کہا جارہا ہے کہ مرکزمیں مخلوط حکومت قائم ہوگی۔اگر یہ اندازے درست ثابت نہ ہوئے اور پانی پت کی لڑائی کسی ایک فریق نے جیت لی تو پھر بات اور ہے۔وگرنہ دروازے سختی سے بند نہیں کئے جا سکیں گے۔ انتخابی مہم جہاں تحریک انصاف اور مسلم لیگ(ن) نے دو بڑے حریفوں کے طور پر لڑی ہے، وہاں پیپلزپارٹی نے بھی جارحانہ اشتہاری مہم چلائی ہے۔اپنے خلاف لگائے جانے والے الزامات اور ناقص کارکردگی کے طعنوں کو مسلم لیگ(ن) کی قیادت پر اُلٹانے کی تندو تیز کوشش کی ہے۔اس کا جواب بھی دیا گیا ہے اور دبی ہوئی تلخی ایک بار پھر فضا کو گردآلود کر گئی ہے۔اہل سیاست کا نیا امتحان نتیجہ سامنے آنے کے بعد شروع ہوگا، یاد رکھا جائے کہ کھانا پکاتے ہوئے جو آگ جلائی جاتی ہے، کھانا کھاتے ہوئے اس پر تیل نہیں ڈالا جاتا۔ (یہ کالم روزنامہ ’’دنیا‘‘ اور روزنامہ ’’پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)