پیپلزپارٹی نے اپنی شہید چیئرپرسن محترمہ بے نظیر بھٹو کی ساٹھویں سالگرہ جوش و خروش سے منائی۔ اُن کے شوہر اور صدرِ پاکستان آصف علی زرداری اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ اُن کی قبر پر گئے، فاتحہ پڑھی، پھول چڑھائے اور بعد میں خون کا عطیہ دیا۔ محاورے کے مطابق وہ لہو لگا کر شہیدوں میں شامل تو نہیں ہو گئے، لیکن خون دینے والوں میں اُن کا شمار بہرحال ہو گیا۔ یہ بوتل کسی ضرورت مند کی رگوں میں مطلوبہ خون دوڑا سکے گی اور یوں اُس کے لئے حیات تازہ کا ذریعہ بن جائے گی۔ مرحومین کو ایصالِ ثواب کا یہ ایک غیر روایتی طریقہ ہے، جس کی افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ پیپلزپارٹی کے ایک یادگاری اجتماع میں کارکن اپنے لیڈروں سے اُلجھ پڑے اور اُنہیں حالیہ انتخابات کے نتائج کا ذمہ دار قرار دیا۔ لیڈر اپنی صفائیاں پیش کرتے رہے اور بعد میں قمر زمان کائرہ اِس پر یہ کہہ کر اترائے کہ لیڈروں نے پورے صبرو سکون سے شکایات سنیں اور یوں گویا کارکنوں کو اُن کی اہمیت کا احساس دلا دیا۔ محترمہ کی روح کو ایصالِ ثواب کا یہ ایک اور طریقہ تھا، اس پر ان کی روح کتنی آسودہ ہوئی ہو گی، اِس بارے میں فی الحال کچھ کہنا مشکل ہے۔ یہ بات البتہ وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ محترمہ ہمارے درمیان ہوتیں تو حالات وہ نہ ہوتے، جو پیپلزپارٹی کے جیالوں کو گھیرے میں لئے ہوئے ہیں۔ بے نظیر بھٹو 21 جون 1953ء کو کراچی میں پیدا ہوئی تھیں۔ اُن کی جان پر چھ سال پہلے کیا جانے والا حملہ کامیاب نہ ہوتا تو وہ آج 60 سال کی ہوتیں۔ اِس وقت میاں نوازشریف اور عمران خان کی سیاست چمک رہی ہے اور وہ دونوں60سے اُوپر نکل چکے ہیں، محترمہ اِن کے مقابلے میں کم عمر ہوتیں۔ حالیہ انتخابی مہم میں مذکورہ دونوں حضرات نے بھرپور حصہ لیا اور تھکن کا احساس تک نہیں ہونے دیا۔ عمران اور میاں صاحب کے درمیان کوئی دو سال کا فاصلہ ہو گا، لیکن ایک ایک دن میں پانچ پانچ، چھ چھ جلسوں سے خطاب کر کے انہوں نے اپنی ’’جوانی‘‘ کا خوب مظاہرہ کیا۔ لفٹر سے گر کر بستر سے لگے تو بھی خود پر بڑھاپا طاری نہیں ہونے دیا، تین ہفتوں میں اُٹھ بیٹھے ہیں اور دوبارہ سرگرم ہونے کی تیاریوں میں ہیں۔ میاں نواز شریف پر ذمہ داریوں کا بوجھ لد چکا ہے، وہ سنجیدہ تو بہت ہیں، لیکن تھکے ہوئے نہیں۔ پوری قوت کے ساتھ مسائل سے نبرد آزما ہیں۔ محترمہ کی صحت بھی قابل ِ رشک تھی، وہ انتخابات میں اپنے دونوں حریفوں کا اچھی طرح مقابلہ کر سکتی تھیں۔ دیوانگی اور مردانگی میں کسی سے پیچھے نہیں تھیں۔ مہم جوئی اُن کے مزاج کا حصہ تھی، لوگوں کو اُبھار سکتیں اور اُن کو اپنے ساتھ چلنے پر مجبور کر سکتی تھیں۔ جنرل پرویز مشرف کے ساتھ این آر او پر دستخط کر کے انہوں نے وطن واپسی کا فیصلہ کیا، تو اُن کی پارٹی کے کئی بڑے دل برداشتہ تھے۔ خیال تھا کہ مفاہمانہ دستاویز نے بی بی کا امیج خراب کر دیا ہے اور اب وہ لوگوں کو اپنے ساتھ چلنے پر آمادہ نہیں کر سکیں گی۔ کئی حضرات راستہ الگ کرنے کے بارے میں سوچ رہے تھے کہ پیپلزپارٹی کی سیاست (اُن کے بقول) ختم ہو گئی تھی، اس پر بٹہّ لگ چکا تھا اور یوں بھٹہ بیٹھ گیا تھا، لیکن محترمہ نے کراچی کے ہوئی اڈے پر قدم رکھا تو حدنظر تک سر ہی سر تھے۔ اُن کے حق میں نعرے آسمان میں شگاف کر رہے تھے۔ ملک بھر سے لاکھوں افراد نے اکٹھے ہو کر اُن کے فیصلے پر مہر توثیق ثبت کر دی تھی۔ استعفے جیبوں میں دھرے رہ گئے اور قافلہ رواں دواں ہو گیا۔ استقبالی جلوس پر حملے میں مرنے اور زخمی ہونے والوں کے انبار لگ گئے، محترمہ خود بال بال بچیں، لیکن انہوں نے دَبک کر بیٹھنے سے انکار کر دیا۔ اُن کو خطرات کا پتہ تھا اور کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ خون میں وضو کرنے ہی کے لئے واپس آئی تھیں۔ موت اُن کے تعاقب میں تھی، لیکن وہ اُن کو خوفزدہ کرنے میں ناکام تھی۔ دہشت گردی کے خلاف اُن کے دو ٹوک اور واضح موقف نے سوچ کی ایک نئی لہر اُبھار دی تھی۔ انہوں نے اپنی پارٹی میں نئی روح دوڑا دی، لیکن اُس کی کامیابی دیکھنا اُن کے نصیب میں نہیں تھا۔ راولپنڈی کے لیاقت باغ میں دن دہاڑے اُنہیں شہید کر دیا گیا۔ اُن کے خون کا حساب تو ابھی تک نہیں لیا جا سکا، لیکن انہوں نے جان کے بدلے اپنے ورثا کو اقتدار خرید کر دے دیا: خریدیں نہ ہم جس کو اپنے لہو سے، مسلماں کو ہے ننگ وہ پادشاہی۔ پیپلزپارٹی ایک بار پھر اقتدار میں تو آ گئی، لیکن یہ اقتدار اب اُس کے پائوں کی بیڑی بن چکا ہے۔ جس انداز میں معاملات چلائے گئے، اس کا نتیجہ ہے کہ پیپلزپارٹی سندھ میں جیتنے کے باوجود ہار چکی ہے اور اُس کی اِس ہار پر خود اس کے اپنے جیالے بھی آنسو نہیں بہا رہے۔ وہ اسے اپنی نہیں، اُن کی ہار قرار دے رہے ہیں، جو کرسی نشین تھے اور جنہوں نے خاک نشینوں کو اُن کے حال پر چھوڑ دیا تھا۔2013ء کا انتخاب اس جماعت نے اس طرح لڑا کہ قیادت نام کی کوئی شے اُسے میسر نہیں تھی۔ میدان خالی تھا، دہشت گردوں کی دھمکیوں سے خوفزدہ لوگ، سینہ تان کر باہر نکلنے سے انکاری تھے۔ انہیں اپنی جان عزیز تھی، لیکن وہ ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی جان کا صدقہ طلب کر رہے تھے، اُن کے خون کی دہائی دے کر اپنے بلڈ بنک کو بھرنا چاہ رہے تھے، تاکہ بعد میں مرضی کے دام وصول کر سکیں، جبکہ لوگوں کو اُن کے ہاتھوں پر اپنا خون صاف نظر آ رہا تھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی سیاست نشیب و فراز سے عبارت تھی، انہوں نے اقتدار چھینا بھی اور اسے اُن سے بھی چھینا گیا۔ جیت کر بھی دکھایا اور شکست کا مزہ بھی چکھنا پڑا۔ اُن پر الزامات بھی لگے، مقدمات بھی چلے، لیکن عوام سے اُن کا رشتہ ٹوٹ نہیں پایا، وہ اُن کی زبان بولتیں اور اُن کو زبان دیتی رہیں۔ وہ اپنے حریفوں کو للکارتیں یا اُن سے مصافحہ کرتیں، اُن سے الجھتیں یا اُن کو طرح دے جاتیں، اُن کا بانکپن اپنا تھا۔ وہ پوری دُنیا میں پاکستان کا تعارف تھیں، عالم اسلام نے اُن کی شکل میں پہلی بار ایک خاتون وزیراعظم کا تجربہ کیا تھا۔ وہ مغرب کو متاثر کر سکتی تھیں اور مشرق کی نبض پر بھی اُن کا ہاتھ رہتا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد اپنی والدہ کے ساتھ مل کر انہوں نے پیپلزپارٹی کو دہشت گردوں کے ہتھے چڑھنے سے بچایا تھا۔ سیاست کے راستے پر قدم رکھا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو خوش قسمت تھے کہ اُن کی جانشینی بے نظیر بھٹو کے ہاتھ آئی۔ بے نظیر بھٹو کے خلا سے نبٹنے کا معاملہ تو بعد کا ہے، اُن کی جانشینی کا معاملہ طے ہو کر بھی طے نہیں ہو پایا۔ زرداری نے خود کو ایوانِ صدر میں قید کر لیا، بلاول لندن میں محصور ہو گئے۔ وہ گزشتہ پانچ سال کا بوجھ اٹھانے سے انکاری تھے۔ زرداری صاحب کا خیال ہے وہ ایوانِ صدر سے رہائی پا کر سیاست کے سرکش گھوڑے پر کاٹھی ڈال لیں گے، لیکن بہت سوں کی نگاہ بلاول پر جا کر ٹھہرتی ہے۔ وہ اُن میں بے نظیر بھٹو کو ڈھونڈ رہے ہیں۔ دیکھئے بالآخر کس کے ہاتھ میں کیا آتا ہے اور کون کون ہاتھ ملتا رہ جاتا ہے۔ (یہ کالم روزنامہ ’’دُنیا‘‘ اور روزنامہ ’’پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)