"MSC" (space) message & send to 7575

سیاست میں ’’ٹائمنگ‘‘

یہ تو درست ہے کہ جنرل(ر) پرویز مشرف نے دوبار آئین توڑا اور بحیثیت چیف آف آرمی سٹاف، اپنے منصب کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کیا۔اس آئین شکنی پر ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ ہوتا رہا ہے کہ آئین ہی کی دفعہ 6نے اسے ’’انتہائی غداری‘‘ قرار دیا ہے، لیکن یہ بھی اتنا ہی درست ہے کہ پیپلزپارٹی کی حکومت ان کے خلاف کسی کارروائی میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی تھی۔اس کے نزدیک ان کے لئے یہی سزا کافی تھی کہ (بزعم خود) صدارتی انتخاب میں کامیابی حاصل کرکے پانچ سال تک ایوان صدر پر قبضہ برقرار رکھنے کے لئے ان کا بنایا گیا منصوبہ ناکام ہوچکا تھا۔ 2008ء کے انتخابات کے نتیجے میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) کو مل کر پارلیمنٹ کی دوتہائی اکثریت کی حمایت حاصل تھی اور وہ صدر کا مواخذہ کرنے کی پوزیشن میں تھیں۔اس یک جائی کا ہّوا دکھا کر صدر پرویز مشرف کو مستعفی ہونے پر مجبور کردیا گیا۔جرنیلی سے وہ صدارت کی خاطر پہلے ہی دستبردار ہو چکے تھے، سو، نئی فوجی قیادت ان کو الوداعی ’’گارڈ آف آنر‘‘ پیش کرنے کے علاوہ کچھ کرنے پر تیار (یا قادر) نہیں ہو سکتی تھی۔انہیں طوعاً و کرہاً اپنا ایوان خالی کرنا پڑا، اور چند روز میں وہ ’’باعزت‘‘ طور پر بیرون ملک روانہ ہوگئے۔اہل سیاست کی بڑی تعداد نے اس پر سکھ کا سانس لیا کہ ’’خس کم جہاں پاک‘‘۔ مسلم لیگ(ن) نے ’’پکڑیو، جانے نہ دیجیو‘‘ کا فلک شگاف نعرہ بلند کرنے سے گریز کیا۔صدر آصف علی زرداری نے بڑے میاں صاحب کو واضح الفاظ میں بتا دیا تھا کہ ’’سٹیک ہولڈرز‘‘ ناراض ہو جائیں گے، اس لئے وہ پرویز مشرف کے خلاف آئین کی دفعہ 6کو حرکت میں نہیں لا سکتے۔ ’’سٹیک ہولڈرز‘‘ کی وضاحت طلب کی گئی تو معلوم ہوا کہ فوجی قیادت کے علاوہ وہ دوست ممالک بھی ان میں شامل ہیں، جنہوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی کا راستہ کشادہ کرنے میں کردار ادا کیا تھا۔نوازشریف اس پر تعجب کا اظہارکرتے رہے، لیکن قومی اسمبلی میں جب (سابق) وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کسی کارروائی سے انکار کے بعد مسلم لیگ(ن)کو باقاعدہ تحریک پیش کرنے کی دعوت دی تو اس نے اسے قبول نہیں کیا۔اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ پیپلزپارٹی اگر حمایت نہ کرتی تو یہ قرارداد کیسے منظور ہو سکتی تھی، یوں پرویز مشرف کو تحفظ مل سکتا تھا۔جوابی دلیل یہ لائی جا سکتی ہے کہ پیپلزپارٹی اس قرارداد کی حمایت کرنے پر اسی طرح مجبور ہو سکتی تھی،جس طرح سپریم کورٹ کے استفسار پر مسلم لیگ(ن) کی حکومت پرویز مشرف کے خلاف فوری کارروائی پر مجبور ہوئی ہے۔ پرویز مشرف بیرون ملک جانے میں کامیاب ہوگئے تھے تو ان کے لئے یہی مناسب تھا کہ وہاں سکون کے سانس لیتے رہتے،لیکن ’’فیس بک‘‘ پر ان کے حمایتیوں نے انہیں یقین دلا دیا کہ پاکستان کے عوام ان کے راستے میں آنکھیں بچھانے کے لئے بے تاب ہیں، انہیں انتخابات میں حصہ لے کر اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔وہ ایک ’’مقبول قیادت‘‘ کے طور پر ابھر آئیں گے۔مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف دونوں کے سر پر ان کی تلوار لٹک جائے گی… وہ بھاگم بھاگ پاکستان پہنچے، یہاں ان کے ساتھ وہ ہوا، جو ہونا ہی تھا۔ کسی ٹی وی پروگرام یا مذاکرے میں جب بھی مجھ سے سوال کیا گیا کہ موصوف کے ساتھ واپسی کے بعد کیا ہوگا تو یہی عرض کیا کہ جیل کا دروازہ کھل جائے گا، مقدمات منہ پھاڑے ان کا انتظار کررہے ہیں۔وہ پیشیاں بھگتتے بھگتتے اور حوالات کی ہوا کھاتے کھاتے ریٹائرڈ جرنیل سے ’’حوالدار‘‘ ہو جائیں گے۔اس کے بعد یہ پوچھا جاتا کہ پھر وہ واپس کیوں آ رہے ہیں؟ تو عرض کیا جاتا کہ اللہ کی پکڑ ان کو واپس لا رہی ہے، کئے دھرے کا کچھ نہ کچھ حساب ان سے یہیں لینا مطلوب ہوا، تو ان کی آنکھوں پر پٹی بندھ جائے گی۔سو وہ آنکھیں بند کرکے اندھیرے میں کود پڑے۔یہاں جو کچھ پیش آیا، اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔بات یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ وفاقی حکومت دفعہ 6کے تحت ان کے خلاف کارروائی پر کمر باندھ چکی ہے۔سپریم کورٹ نے نظام الاوقات اس پر ’’نافذ‘‘ کردیا ہے، اور وہ کورنش بجا لا رہی ہے۔ ان حضرت کے سیاسی ساتھیوں کی بھاری تعداد انہیں ’’عاق‘‘ کر چکی۔ بہت سوں نے نوازشریف صاحب کے ہاتھ پر بیعت کرلی ہے، کئی ایک عمران خان کو اپنا آپ سونپ چکے ہیں۔مسلم لیگ (ق) بھی اپنی تمام تر لاغری کے باوجود ان کو طاقت کا سرچشمہ نہیں سمجھ رہی۔ایم کیو ایم ان کا بھرپور دفاع کرنے سے انکاری ہے۔ چند آوازیں البتہ ان کے حق میں ابھر رہی ہیں، ان میں ایک تو ان کے وکیل احمد رضا قصوری کی ہے اور دوسرے مولانا طاہر اشرفی کی۔کئی سنجیدہ حضرات بھی ’’فوج کے خلاف کارروائی‘‘ کا نعرہ لگا کر توجہ اپنی طرف مبذول کرا رہے ہیں۔شیخ رشید احمد اور اعجاز الحق، فنی نکات اٹھا رہے ہیں، لیکن مجموعی طور پر پرویز مشرف کے خلاف اقدام پر کوئی غم و غصہ دیکھنے میں نہیں آیا… ہاں، یہ بات ضرور ہے کہ تیزقدمی نے ایک نیا موضوع دے دیا ہے اور دوسرے موضوعات اس کے مقابلے میں پھیکے پڑ رہے ہیں۔اسے حکومت کے لئے مفید بھی قرار دیا جا سکتا ہے اور نقصان دہ بھی…مفید تو اس لئے کہ دوسرے مسائل سے لوگوں کی توجہ ہٹ گئی ہے اور نقصان دہ اس لئے کہ حکومت کی توجہ بھی بٹ سکتی ہے۔ ابھی یہ دھینگا مشتی جاری تھی کہ سوئس مقدمات کا ہنگامہ اٹھ کھڑا ہوا ۔ پہلے سوئس حکام کے حوالے سے خبر آئی کہ پاکستانی حکومت کی طرف سے یکے بعد دیگرے دو خط لکھے گئے تھے، ایک سپریم کورٹ کی ہدایت پر، دوسرا اس کے بعد… یہ بھی بتایا گیا کہ صدر زرداری کے خلاف مقدمات کا باب بند ہو چکا ہے، جو دوبارہ نہیں کھل سکتا۔ اس کے بعد اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ میں ایک سابق سیکرٹری وزارت قانون کے خط کے مندرجات پیش کئے اور کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے نوٹس میں لائے بغیر یہ خط لکھ کر پہلے خط پر پانی پھیرا جا چکا ہے۔ ان سے معلوم ہوا کہ وفاقی حکومت نے سوئٹزر لینڈ میں وکیل کی خدمات حاصل کر لی ہیں جو عدالتی کارروائی کو از سر نو زندہ کرنے کی کوشش کرے گا۔ پیپلز پارٹی نے دہائی دی کہ سیکرٹری قانون نے تو اپنے وکیل کو خط لکھا تھا،سوئس حکام کو نہیں۔ یہ خط اٹارنی جنرل عدالت میں پیش نہیں کر سکتے تھے۔ اس کے ساتھ ظلم و ستم کی دہائی شروع کر دی گئی۔ مطالبہ کیا جانے لگا کہ شریف برادران کے خلاف مقدمات بھی کھولے جائیں۔ زرداری صاحب کا معاملہ ایک بار پھر سپریم کورٹ میں ہے، اس لئے اس کی ہدایات کے تحت آگے بڑھے گا۔ حکومت اپنا جوش و جذبہ اس میں شامل کرتی جائے گی تو منظر تبدیل ہوتا جائے گا۔ مذکورہ بالا دونوں معاملات کے متعلق جو بھی رائے ظاہر کی جائے، ان کے بارے میں کسی بھی طرف سے اور کسی بھی طرح ایڑی چوٹی کا زور لگایا جائے، اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ نواز حکومت کی ترجیحات ان سے ضرور متاثر ہوئی ہیں۔ پاکستان کے بنیادی مسائل کی طرف توجہ اور ان کے حل کی کوششوں کے حوالے سے خاصی یکسوئی پائی جاتی تھی۔ بحیثیت مجموعی توقعات کا اظہار کیا جا رہا تھا اور تعاون کی یقین دہانیاں کرائی جا رہی تھیں ،آصف علی زرداری سے لے کر عمران خان اور خورشید شاہ سے لے کر جاوید ہاشمی اور شاہ محمود قریشی تک زیتون کی شاخیں لہرائی جا رہی تھیں۔ غور طلب بات یہ ہے کہ پرویز مشرف اور پھر سوئس مقدمات کا معاملہ جس طرح اٹھا ہے، کیا یہ محض قدرت کا کام ہے، یا اس کے پیچھے کسی اور کا اکرام بھی شامل ہے؟ سیاست میں ترتیب(TIMING) کی اہمیت اپنی ہے۔ کوئی کام، کس وقت اور کس انداز میں کیا جائے۔ اسے کئی بار کام کی نوعیت پر فوقیت حاصل ہو جاتی ہے کہ روزے کے دوران طیب غذا کا استعمال بھی گناہ قرار پاتا ہے۔ (یہ کالم روزنامہ ’’دنیا‘‘ اور روزنامہ ’’پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے۔)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں