"MSC" (space) message & send to 7575

تاریخ کی دلدل

ایبٹ آباد کمشن کی رپورٹ ’’الجزیرہ‘‘ کے رپورٹر نے اڑا لی اور وہ 336صفحات جنہیں پاکستانیوں کی نظر سے چھپا چھپا کر رکھا گیا تھا، انہیں قطر پہنچا کر پوری دُنیا کو دکھا دیا۔ اس پر پاکستانی میڈیا اب تک سر پیٹ رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ کسی سرکاری افسر نے چند ہزار ڈالر لے کر یہ ’’راز‘‘ بیچ ڈالا… دوڑیو، بھاگیو، پکڑیو کے آوازے لگائے گئے لیکن ابھی تک نہ کوئی بھاگتا دکھائی دیا نہ پکڑتا۔ اس سے پہلے حمود الرحمن کمشن کی رپورٹ جنرل پرویز مشرف کے عہد میں بھارت پہنچا دی گئی تھی، جب ہنگامہ اُٹھا تو پاکستان میں بھی اسے ریلیز کر دیا گیا۔ پاکستانی تاریخ کے بہت بڑے سانحے کی رپورٹ نے بھارت جا کر سورج کی کرن دیکھی تو ایک دوسرے بڑے حادثے کی عدالتی تحقیقات نے قطر میں جا کر چہرہ دکھایا۔ اس کی داد ’’غیروں‘‘ کی چابکدستی کو دی جائے یا اپنوں کی کم ہمتی کو۔ اس کا فیصلہ ہر شخص خود کر سکتا ہے۔ یہ بات البتہ سامنے رہنی چاہیے کہ میڈیا اور انتظامیہ میں چَھپنے اور چُھپنے کے حوالے سے کشمکش جاری رہتی ہے۔ میڈیا کا کوئی کارندہ اگر انتظامیہ میں نقب لگا لیتا ہے تو اس کے اپنے ضابطۂ کار کے حوالے سے اس کی بہرحال تحسین کی جانی چاہیے۔ ایبٹ آباد کمشن کی رپورٹ کو ہمارے جس بھائی بند نے بھی اڑایا ہے، اس کی مذمت پر آمادگی ممکن نہیں ہے۔ اس نے اپنا پیشہ ورانہ فرض نبھایا اور اپنے تئیں ایوارڈ کا حق دار ٹھہرا۔ اس رپورٹ پر بحث جاری ہے۔ بعض دوستوں کی طرف سے کہا گیا کہ یہ ابتدائی مسودہ ہے‘ حتمی رپورٹ اس سے مختلف تھی۔ یہ بھی سننے میں آیا کہ سیکرٹری دفاع کے بقول ’’ اصلی تے وڈی رپورٹ‘‘ ان کے سیف میں محفوظ ہے۔ تبصرہ کرنے سے اس لئے بھی گریز کیا گیا کہ جب تک حکومت اس کی توثیق نہ کر دے اس پر حرفاً حرفاً اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ حکومت نے ابھی تک منہ میں گھنگھنیاں ڈالی ہوئی ہیں۔ کمشن کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال نے البتہ منظر عام پر آنے والی رپورٹ سے بریت کا اعلان نہیں کیا‘ وہ الیکٹرانک میڈیا کی چکا چوند میں اپنے کمالات کی تفصیل بیان کرنے سے گریز نہیں کر پا رہے۔ اس رپورٹ میں مختلف گواہوں نے جو جو کچھ کہا، اس کو حرفِ آخر نہیں سمجھا جا سکتا۔ ذمہ داری یا غیر ذمہ داری سے ہر ایک نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کر دیا۔ کمشن نے اس پر اپنا ردّہ چڑھا دیا۔ سو باتوں کی ایک بات یہ ہے کہ پاکستانی ریاست کے مختلف اداروں کے درمیان ہم آہنگی کا فقدان ہے۔ اس کی وجوہات بہت بیان کی جا سکتی ہیں اور ان کے ذریعے معاملات کو مزید الجھایا جا سکتا ہے۔ تاریخ کی دلدل میں جتنے اُتریں گے، اُتنے ہی لت پت ہوتے جائیں گے۔ پاکستانی ریاست کی کامیابیاں اور ناکامیاں، طاقتیں اور کمزوریاں سب اپنی جگہ ہیں‘ اس حوالے سے مختلف توضیحات پیش کی جا سکتی ہیں۔ پاکستان کوئی انوکھی ریاست نہیں ہے۔ درجنوں ممالک دُنیا کے نقشے پر موجود ہیں اور کسی ایک کے حوالے سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہاں سب اچھا ہے۔ امریکہ ،بھارت اور چین سے لے کر مصر اور تیونس تک غلطیوں کے انبار لگے ہیں۔ جو ملک بھول بھلیوں میں پھنس جاتا ہے اور اپنے مُنہ کو تھپڑ مار مار کر لال کرنے کو کمال سمجھ بیٹھتا ہے، وہ زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتا ہے۔ جو اپنی غلطیوں کو دہرانے سے رک جاتا ہے وہ سرپٹ دوڑنے لگتا ہے۔ نائن الیون امریکہ میں ہوا تھا اور اس کا ارتکاب کرنے والے وہیں موجود تھے۔ امریکہ کے خفیہ اداروں کو ان کے ارادوں کی پیشگی بھنک نہیں پڑ سکی، تو کیا امریکہ میں ان اداروں کی مٹی پلید کر دی گئی یا غلطیوں کا جائزہ لے کر انہیں دُور کرنے کی سعی کی گئی؟ اُسامہ بن لادن اور ان کے اہل خانہ پاکستان میں کیونکر مقیم رہے؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ ان کے خلاف امریکی آپریشن ایک دوسرا بڑا سوال ہے۔ یہ دونوں سوالات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، ان کی بنیاد پر جو بھی للکارے مارے جائیں اور جس کسی کو بھی چاروں شانے چت گرانے کی کوشش کی جائے محض پہلوانی کا شوق پالنے سے مستقبل کی صورت گری ممکن نہیں ہو گی۔ سیاسی اور عسکری اداروں کو ایک دوسرے کے ساتھ مل کر حالات کی اصلاح کرنا ہوگی، ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ کی مسجدوںکی تعمیر کا شوق پالنے سے گریز کرنا ہو گا۔ خفیہ اداروں کی تو بات ہی چھوڑیں، پٹواری ، تحصیلدار اور تھانیدار قابو میں نہیں آ رہے۔ان کے معاملے میں تو اختیارات کا کوئی جھگڑا ہے نہ ان کی اصلاح کے لئے اتفاق رائے مفقود ہے۔ اس کے باوجود مطلوب تبدیلی نہیں آ پا رہی۔ تمام تر دعوئوں اور وعدوں کے باوجود حکومت ان پر قابو پانے میں کامیاب نہیں ہو رہی۔ کھلی سڑکوں پر دن رات حادثات ہو رہے ہیں۔ بسوں اور ٹرکوں کے ڈرائیور دہشت گردوں کی طرح گھر اجاڑ رہے ہیں۔ ہر سال سینکڑوں افراد لقمہ ٔ اجل بنتے اور ہزاروں اپاہج یا بے سہارا ہو جاتے ہیں، لیکن ٹریفک رولز نافذ نہیں کئے جاتے۔ اس پرجتنے سیمینار چاہے منعقد کرا لیں، جتنے مقالے لکھوالیں، جتنے اشتہارات چھپوا لیں، جتنے کمشن چاہے قائم کر لیں، نتیجہ یہی ہو گا کہ کچھ بھی نہیں ہو گا۔ خفیہ اور عسکری اداروں کو رکھیے ایک طرف‘ یہ کھلے معاملات کیوں ہاتھ سے نکل چکے ہیں؟ امریکہ میں نائن الیون کے بعد اس طرح کی کوئی واردات نہیں کی جاسکی۔ کوئی کوشش ہوئی تو ملزم کو دھر لیا گیا۔ برطانیہ میں بھی انتظامیہ کی گرفت ڈھیلی نہیں ہونے پائی۔ دہشت گردی تو رہی ایک طرف، ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی واردات نے معاملہ کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے۔ ڈاکٹر عمران برطانیہ میں نووارد تھے اور وہاں کے سسٹم میں ان کی کوئی توانا شخصیت نہیں تھی‘ اس کے باوجود قاتلوں کا تعاقب جاری رہا اور بات جناب الطاف حسین سے تفتیش تک جا پہنچی۔ لاکھوں پاؤنڈ برآمد ہوئے اور اب منی لانڈرنگ کے الزامات کی تحقیق کی جا رہی ہے۔ گویا، خون کا ایک قطرہ بھی رائیگاں نہیں جانے دیا گیا۔ پاکستان میں لاشیں گرانا بعض سیاسی اور غیر سیاسی عناصر کا کاروبار بن چکا ہے۔ قاتل دندناتے پھرتے ہیں۔ رنگ، نسل، علاقے اور فرقے کے نام پر خون بہایا جا رہا ہے، ملزم اولاً تو گرفتار نہیں ہوتے، گرفتار ہو جائیں تو تفتیش نہیں ہوتی، تفتیش ہو جائے تو مقدمہ نہیں چلتا، مقدمہ چل جائے تو سزا نہیں ہوتی۔ پاکستان نے اگر بحیثیت ریاست اپنا نقش جمانا اور تشخص قائم رکھنا ہے تو اس کے اداروں کو اختلافی نکتوں میں اُلجھ کر ایک دوسرے کی صلاحیتوں کو کمزور کرنے کے بجائے کمزوریوں کو دور کرنا ہو گا۔ ڈرائیونگ سیٹ پر پہنچنے والوں کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا ہوگا۔ ان کی کریڈیبلیٹی ہی پر ان کی صلاحیت کا انحصار ہے۔ (یہ کالم روزنامہ ’’دنیا‘‘ اور روزنامہ ’’پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں