"MSC" (space) message & send to 7575

’’عزت اور وقار‘‘ کے ساتھ

آج سے چھ برس پہلے کوئی ایک شخص بھی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ پاکستان کے آئندہ صدرآصف علی زرداری ہوں گے۔جنرل پرویز مشرف نے جو طرح طرح کے جتن کرکے اور سوسو پاپڑ بیل کر ایوان صدارت پر ایک بار پھر ’’آئینی قبضہ‘‘ کیا تھا، اسے بآسانی چھڑالیا جائے گا، لیکن ایسا ہوا اور اپنے حلقہ انتخاب سے بہت بھاری تعداد میں ووٹ لے کر آصف صاحب وہاں براجمان ہوگئے، جہاں چند روز گزارنے کی خواہش نے مخدوم جاوید ہاشمی کو میاں محمد نوازشریف سے ہمیشہ کے لئے دور کر دینے کی بنیاد رکھ دی۔2008ء کے انتخابات سے پہلے اور بعد میں نوازشریف اور آصف علی زرداری میں گاڑھی چھنتی رہی،دونوں نے دوستانہ فضا میں الیکشن لڑا اور پھر دوستانہ فضا ہی میں حکومتیں بنا لیں۔محترمہ بے نظیر بھٹو دنیا سے رخصت ہوچکی تھیں اور کروڑوں پاکستانیوں کی طرح مسلم لیگ(ن) کے رہنما کو بھی مغموم کر گئی تھیں۔گیلپ سروے کے مطابق رائے دہندگان کی اکثریت یہ چاہتی تھی کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر آگے بڑھیں۔ مسلم لیگ (ن) پنجاب اسمبلی میں سب سے بڑی جماعت تھی اور پیپلزپارٹی مرکز میں یہی حیثیت رکھتی تھی۔خیبرپی کے (اس وقت کے صوبہ سرحد) میں اے این پی نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرلی تھیں، لیکن ان تینوں جماعتوں میں سے کسی کو بھی فیصلہ کن اکثریت حاصل نہیں ہوئی تھی۔اس وقت اگر مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی ایک دوسرے کے مقابل کھڑی ہو جاتیں تو مرکز میں پیپلزپارٹی کو اکثریت بنانے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا، مسلم لیگ (ن) اور (ق) مل کر اس سے کہیں آگے نکل جاتیں۔یہ بھی ممکن تھا کہ پنجاب مسلم لیگ(ن) کے قابو میں نہ آ سکتا کہ یہاں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ق) مل کر مسلم لیگ (ن) کے نمبر کم کر دیتی تھیں۔دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کے لئے راستہ چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا، مرکز میں مسلم لیگ(ن) پیپلزپارٹی کے پرچم تلے کابینہ میں جا بیٹھی اور پنجاب میں پیپلزپارٹی نے میاں شہبازشریف کو پارلیمانی لیڈرتسلیم کرلیا۔اقتدار دونوں کے لئے آسان ہوگیا۔ جنرل پرویز مشرف آئندہ پانچ سال کے لئے ایوان صدر میں رونق افروز ہونے کا تہیہ کئے ہوئے تھے اور اس کے لئے ’’جُبّہ، خرقہ‘ کرتا، ٹوپی‘‘ مستی میں انعام کر چکے تھے۔محترمہ بے نظیر بھٹو سے مفاہمت اور این آر او کا اجراء اسی کام کے لئے تو تھا۔اگر انہیں پتہ چل جاتا کہ سب کچھ کے باوجود ان کے ہاتھ میں کچھ نہیں رہنے والا تو وہ مرتے مر جاتے این آر او پر دستخط نہ کرتے۔اپنے مستقبل کوسنوارنے کے لئے انہوں نے محترمہ، ان کے شوہر اور ان کے ہمنوائوں کا حال اور مستقبل دونوں ’’محفوظ‘‘ بنا دیئے تھے۔ انتخابات کے بعد جب فیصلہ کن طاقت پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) کے ہاتھ میں آ گئی تو جنرل پرویز مشرف کا دھڑن تختہ ہوگیا۔پارلیمنٹ کی دو تہائی اکثریت ان کی نیندیں حرام کررہی تھی۔ان کا چین رخصت ہورہا تھا اور مسلم لیگ(ن) چین کی بانسری سے بے تکلف ہورہی تھی۔پرویز مشرف رخصت ہوئے تو زرداری صاحب نے اپنے پتے شو کئے اور صدارت کا ہار اپنے گلے میں ڈالنے کا اعلان کر دیا۔ مسلم لیگ(ن) کی قیادت اس گمان میں تھی کہ اس کی مشاورت سے نئے صدر کا انتخاب ہوگا، لیکن ایسا نہ ہو سکا۔مخدوم جاوید ہاشمی پرویز مشرف کی جیل کاٹ کر اپنی عزت میں بہت اضافہ کر چکے تھے اور ایوان صدارت کی طرف متوجہ تھے۔ان کا خیال تھا کہ یہ ان کا حق ہے اور مزید یہ کہ مسلم لیگ(ق)، اے این پی اور کئی آزادسیاسی رہنما ان کے پلڑے میں وزن ڈال کر انہیں وہاں پہنچا دیں گے، جہاں پہنچے ہوئے نے انہیں جیل اور میاں صاحبان کو جدہ پہنچایا تھا۔نوازشریف اس خوش گمانی سے متفق نہ ہوئے، انہوں نے جسٹس سعید الزمان صدیقی کو اپنا امیدوار بنا لیا۔چودھری شجاعت حسین نے سید مشاہد حسین کو میدان میں لا اتارا۔ پیپلزپارٹی کے امیدوار کے خلاف مشترکہ محاذ قائم نہ ہو سکا، یوں سمجھئے کہ زرداری صاحب کا راستہ صاف ہوگیا۔ زرداری صاحب ایوان صدارت میں پہنچے تو بہت سوں کے سینے پر سانپ لوٹنے لگے۔شورِ قیامت اٹھا اور اٹھتا ہی چلا گیا، لیکن قیامت برپا نہیں ہوئی۔یہ رائے عام تھی کہ یہ حضرت ایوان صدر میں پہنچ تو گئے ہیں، یہاں ٹک نہیں پائیں گے اور انہیں کسی نہ کسی طور یہاں سے نکال باہر کیا جائے گا۔فوجی قیادت سے امیدیں باندھی گئیں، عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹائے گئے، لیکن کچھ کام نہ آ سکا۔زرداری صاحب جوں کے توں رہے۔ مسلم لیگ(ن) سے راستے الگ ہوئے، عدلیہ بحال ہوئی، گویا انہوں نے راستہ چھوڑ دیا، لیکن اسے بند نہ ہونے دیا۔انہیں نکالنے کے لئے پارلیمنٹ کی دوتہائی اکثریت درکار تھی، جو پیپلزپارٹی کے مخالفین کے پاس نہیں تھی۔نوازشریف کسی غیر آئینی طریقے کی حمایت کرکے اپنے مستقبل سے کھیلنے کے لئے تیار نہ ہو پائے کہ وہ اپنی باری کھیلنا چاہتے تھے۔ صدر آصف علی زرداری پیپلزپارٹی کے رہنما کے طور پر بھی سرگرم ہوئے، لیکن انہیں یہ راستہ بھی چھوڑنا پڑا۔عدالت نے ان کی سیاست کے پر کاٹ کر رکھ دیئے۔ان پانچ سالوں میں بہت کچھ ہوا،کوئی ایسا لفظ نہیں ہے، جو ان کی مخالفت میں استعمال نہ ہوا ہو، میڈیا اور سیاست میں ان کے ناقد آگ بگولہ رہے، لیکن زرداری کا آشیاں محفوظ رہا۔ انہوں نے اپوزیشن کے ساتھ اتفاق رائے کے ذریعے آئین میں بہت سی ترامیم کی منظوری دی۔ صدر کے اختیارات کم کئے، متفقہ الیکشن کمیشن کا قیام ممکن بنایا۔الیکشن کے لئے نگران حکومتوں کی تشکیل میں حزب اختلاف کی مشاورت کو لازم قرار دلوایا۔دستِ تعاون کو مسلسل دراز رکھا اور اپنے مخالفوں کو کشتی کھیلنے کا موقع نہ دیا،کبڈی البتہ کھیلتے رہے۔یہاں تک کہ عام انتخابات میں پیپلزپارٹی کی شکست کو قبول کرکے ایوان صدارت سے رخصت ہوگئے ہیں۔وزیراعظم نوازشریف نے ان کے اعزاز میں باقاعدہ ظہرانہ دیا، ان کو زبردست الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے اعتراف کرلیا کہ وہ وقار اور عزت کے ساتھ سبکدوش ہورہے ہیں۔زرداری صاحب دوبارہ کوچۂ سیاست میں قدم رکھ رہے ہیں، ’’عزت اور وقار‘‘ ان کے ہمراہ ہیں، دیکھتے ہیں یہ کہاں تک ان کا ساتھ دیتے ہیں۔ (یہ کالم روزنامہ ’’دنیا‘‘ اور روزنامہ ’’پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں