اللہ تعالیٰ نے بنگلہ دیش کے نصیب میں ڈاکٹر پروفیسر محمد یونس کو لکھا، تو پاکستان کو ڈاکٹر امجد ثاقب سے نواز دیا۔ اول الذکر نے1976ء میں گرامین بنک (گائوں کا بنک) کی بنیاد ڈالی تو ثانی الذکر نے2001ء میں ’’اخوت‘‘ کی پہلی اینٹ رکھی۔ گرامین بنک اپنے وطن میں خط ِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والے دیہاتیوں کو چھوٹے قرضے فراہم کر کے، اُن کی زندگی بدلنے کے لئے کوشاں ہے، تو ’’اخوت‘‘ اپنے ہم وطنوں کی غربت دور کرنے کی سعی کر رہی ہے۔ دُنیا بھر میں گرامین اور اس کے بانی کا اعتراف کیا جاتا ہے۔ ان کو متعدد عالمی اعزازات پیش کئے جا چکے ہیں۔2006ء میں انہیں نوبل امن پرائز کا مستحق گردانا گیا کہ غربت کے خاتمے کی کوشش کسی بھی معاشرے میں امن قائم کرنے کی شرط اول ہے۔ ’’اخوت‘‘ اور اس کے بانی عالمی نقشے میں اُبھر کر اب سامنے آ رہے ہیں۔ گرامین کا سفر37سال پر محیط ہے، جبکہ اخوت نے ابھی بارہویں سال میں قدم رکھا ہے۔ گرامین، اخوت اور ان کے بانی ایک ہی منزل تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ دونوں کا ہدف غربت کا خاتمہ ہے، لیکن بظاہر ایک ہونے کے باوجود دونوں میں بعدالمشرقین ہے۔ دونوں کی سوچ الگ اور دونوں کا راستہ الگ ہے۔ گرامین کا خمیر مغربی معیشت کے مروجہ اصولوں سے اُٹھا ہے۔ ’’اخوت‘‘ کا شجرۂ نسب پندرہ سو سال پہلے آباد کی جانے والی بستی مدینہ اور اُس کے والیٔ مکرم و معظم سے جڑا ہوا ہے۔ گرامین بھاری شرح ِ سود پر قرض دیتا ہے۔ ’’اخوت‘‘ کا ایمان ہے کہ قرض بہر صورت ’’قرض ِ حسنہ‘‘ ہونا چاہیے۔ جتنی رقم ادا کی جائے اتنی ہی وصول کی جائے کہ اس میں کسی بھی طرح کا اضافہ، اس کی دانست میں اللہ اور اس کے رسول ؐ سے جنگ کرنے کے مترادف ہے۔ گرامین کی جدوجہد کو اگر غربت کے خلاف جنگ کا نام دیا جائے تو اخوت کی کاوش جہاد کہلائے گی۔ فی الدنیا حسنۃ و فی الآخرۃ حسنۃ۔ ’’اخوت‘‘ کا پروگرام جن کے دن بدلتا ہے، اللہ تعالیٰ کا کرم اُن کے دل بدل دیتا ہے۔ وہ ہنسی خوشی ’’اخوت‘‘ کی طاقت بن جاتے ہیں اور چراغ سے چراغ جل اٹھتا ہے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب اسی جذبۂ اخوت کو بیدار کر رہے ہیں جو پندرہ سو سال سے مسلمانوں کے خون میں تو موجود ہے، لیکن غفلت کی لپیٹ میں ہے۔ ان کا دائرہ مسلمانوں تک محدود نہیں۔ وہ اس نبی ٔ رحمت ؐ کے پیرو کار ہیں، جو رحمتہ اللعالمین ؐ ہیں۔ سو ’’اخوت‘‘ کی بانہیں ہر مذہب، رنگ، نسل اور علاقے کے پاکستانیوں کے لئے کھلی ہوئی ہیں۔ مسجدوں، مندروں، گرجا گھروں کے لئے ہوا اور سورج کی کرنوں کی طرح اخوت کی روشنی بھی یکساں ہے۔ شہر در شہر، بستی در بستی شاخیں کھلتی جا رہی ہیں۔ فرض شناس پاکستانی آگے بڑھ رہے ہیں۔ عطیات دے رہے ہیں، جائیدادیں وقف کر رہے ہیں۔ اہل اقتدار کو بھی تعاون کی سعادت نصیب ہو رہی ہے اور حزب اختلاف کی رونق بننے والے بھی اس طرف متوجہ ہو چکے ہیں۔ خالد مقبول، شہباز شریف اور عمران خان ایک ہی قطار میں کھڑے نظر آتے ہیں… تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب اور ’’اخوت‘‘ کی جسارت پر کچھ عالمی ادارے بھی چونک رہے ہیں۔ یہ دُنیا بھر میں اپنی نوعیت کا پہلا پروگرام ہے۔ بلا سود قرض کا پروگرام۔ چند ہزار روپے سے شروع ہو کر اس کا پھیلائو کئی ارب تک جا پہنچا ہے۔ اس کا مطالعہ کرنے اور اسے سمجھنے کی جستجو کی جا رہی ہے۔ اسی تجسّس نے کہ سود کے بغیر زر کا پھیلائو کس طرح ممکن ہے، ڈاکٹر امجد ثاقب کو دُنیا کی بہترین یونیورسٹی ہارورڈ میں مدعو کیا۔ یہ یونیورسٹی، ایک درس گاہ نہیں، ایک ریاست ہے۔ اس کا بجٹ دُنیا کے کئی درجن ممالک کے بجٹ سے زیادہ ہے۔ اس کے وسائل اور سرمایے سے پاکستان جیسے کئی ممالک کی معیشتوں میں توانائی کی لہر دوڑائی جا سکتی ہے۔ اس یونیورسٹی کی صورت گری میں مسیحی ’’مولویوں‘‘ (پادریوں) نے بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ اس نے امریکہ کو کئی صدر، مدبر، سائنس دان اور قائدین عطا کئے اور آج بھی اس سے نسبت پر فخر کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے ’’مولوی صاحبان‘‘ کے قائم کردہ مدرسے اور دارالعلوم دیکھئے اور پھر ہارورڈ اور اُس جیسی دوسری یونیورسٹیوں کو دیکھئے، ایک لمحے میں راز کھل جائے گا کہ ہم یہاں کیوں ہیں اور اغیار وہاں کیوں ہیں؟ ڈاکٹر امجد ثاقب کو ہارورڈ یونیورسٹی کے لاء سکول اور بزنس سکول میں الگ الگ خطاب کی دعوت ملی تھی۔ ایک جگہ موضوع اسلامی فنانس تھا تو دوسری جگہ مائیکرو فنانس کے ادارے۔ دونوں تقریبات کے درمیان دو ہفتوں کا فاصلہ تھا۔ ڈاکٹر امجد ثاقب نے اس دوران ایک ہزار امریکی پاکستانیوں سے رابطے کا پروگرام بنا لیا۔ وہ کئی شہروں میں پہنچے، کئی تقریبات سے خطاب کیا اور ’’اخوت‘‘ کی طاقت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ اس سفر کی کہانی انہوں نے خوب صورت نثر میں لکھی ہے۔ یہ ایک منفرد سفر نامہ ہے، ایک سفر میں کئی سفر۔ ایک رنگ میں کئی رنگ۔ ’’اخوت کا سفر‘‘ میں سب کچھ سمٹ آیا ہے، ماضی، حال اور مستقبل… گزشتہ بارہ سال نہیں، پندرہ سو سال کی کہانی اور آنے والے کئی سالوں کا منظر بھی۔ مدینہ سے لاہور، امریکہ اور پھر واپس لاہور سے مدینہ… مدینہ نقطۂ آغاز بھی ہے اور نقطہ ٔ اختتام بھی… یہ سفر جہاں سے شروع ہوا، اسے بالآخر وہیں ختم ہونا ہے، ہر گائوں، ہر بستی، ہر شہر میں مدینتہ النبی ؐ کا جذبہ اخوت بیدار ہو گا تو سود سے چھٹکارا ممکن ہو سکے گا۔ غربت ختم ہو سکے گی۔ ڈاکٹر امجد ثاقب کامیابی سے آگے بڑھ رہے ہیں، ہم سب کو مقدوربھر ان کا ساتھ دینا ہو گا۔ اس سفر کے وہ امام ہیں۔ آیئے ہم سب اُن کے مقتدی بن جائیں… آیئے، بآواز بلند کہیں، پیچھے اِس امام کے اللہ اکبر!! (یہ کالم روزنامہ ’’دنیا‘‘ اور روزنامہ ’’پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)