"MSC" (space) message & send to 7575

کمان کی تبدیلی

29نومبر کو راولپنڈی میں جی ایچ کیو کے قریب واقع سپورٹس سٹیڈیم میں ہزاروں باوردی اور بے وردی افراد کی موجودگی میں جنرل اشفاق پرویز کیانی نے وہ ''جادو کی چھڑی‘‘ (MALACCA CANE)جنرل راحیل شریف کے حوالے کر دی، جسے فوجی ہائی کمان کی علامت سمجھا جاتا ہے اور جس کی ایک جنبش پر پاکستان کی 6 لاکھ بری فوج حرکت میں آ سکتی ہے۔ جنرل کیانی نے ٹھیک 6 سال پہلے اسی مہینے میں اسی جگہ ایک ایسی ہی تقریب میں یہ چھڑی (جو انڈونیشیا اور ملائیشیا میں پائے جانے والے ایک خاص طرح کے پام درخت کی ٹہنی سے تیار ہوتی ہے) جنرل پرویز مشرف سے وصول کی تھی۔ اس وقت وہ وائس چیف آف آرمی سٹاف تھے اور جنرل پرویز نے بڑے بوجھل دل کے ساتھ اپنا منصب ان کو منتقل کیا تھا۔ وہ فوجی وردی کو اپنی کھال قرار دیتے تھے، لیکن صدارت کا حلف اٹھانے کے لئے انہیں کھال سے باہر آنا پڑا کہ سپریم کورٹ نے اسے کھینچنے کا حکم دے دیا تھا۔ جنرل موصوف نے ایم ایم اے سے مذاکرات کے نتیجے میں (آئین کی 17ویں ترمیم کے ذریعے) 12 اکتوبر 1999ء کے غیر آئینی اقدام کے لئے آئینی تحفظ حاصل کیا تو قول دیا تھا کہ وہ دسمبر 2004ء میں وردی اتاردیں گے۔ بنفس نفیس ٹیلی ویژن پر آ کر اس کا باقاعدہ اعلان بھی کیا، لیکن پھر انکاری ہو گئے۔ اگر وہ یہ وعدہ خلافی نہ کرتے تو آج ملک کی تاریخ مختلف ہوتی۔ نہ 2007ء میں ان کے امیدوارصدارت بننے پر اعتراض کیا جا سکتا، نہ سپریم کورٹ میں کھینچاتانی ہوتی اور نہ انہیں 2007ء میں آئین شکنی کا ارتکاب کرنا پڑتا۔ ان کے خلاف دستورکی دفعہ 6 بھی حرکت میں نہ آتی اور وہ حوالۂ زنداں بھی نہ ہوتے۔ ممکن تھا وہ ایک بار پھر صدر منتخب ہو جاتے۔ ایسا نہ ہوتا تو بھی ایک سیاستدان کے طور پر اپنا کردار ادا کرنے کے قابل رہتے۔
جنرل کیانی نے ایک بجھے ہوئے شخص سے چھڑی وصول کی تھی، لیکن چھ سال بعد وہ بہت مختلف حالات میں اپنے جانشین کے ساتھ کھڑے تھے۔ ان کے چہرے پر ملال کے بجائے تشکر اور اعتماد تھا کہ انہوں نے ایک پوری ٹرم کی توسیع بھی حاصل کر لی تھی۔ یوں ان کے تین سال چھ کو محیط ہو گئے تھے۔کچھ عرصہ پہلے تک یہ چہ میگوئیاں جاری تھیں کہ ان کو ایک سال کی مزید توسیع مل سکتی ہے، لیکن انہوں نے یہ اعلان کرکے اپنی شخصیت کو سنبھال لیا کہ وہ وقت مقررہ پر ریٹائر ہو جائیں گے۔
جنرل کیانی نے گزشتہ ڈیڑھ عشرے میں فوج کے انتہائی اہم عہدوں پر خدمات انجام دیں۔ جنرل پرویز مشرف کا اعتماد ان کو حاصل رہا، لیکن دونوں کے مزاج اور اسلوب میں بعدالمشرقین تھا۔ پیشہ ورانہ مہارت ان کو آگے بڑھاتی رہی یا زبان نہ کھولنے کی عادت، اس بارے میں آراء مختلف ہو سکتی ہیں لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ دونوں کی سماجی اور ثقافتی مصروفیات مختلف تھیں۔ خلوت‘ کیانی کے لئے بہت بڑی نعمت تھی، مطالعے اور غوروفکر کی انگلی پکڑ کر وہ اپنے راستے پر چلتے رہے۔ وہ سوچ سمجھ کر رائے قائم کرتے اور پھر سوچ سمجھ کر اس کا اظہار کرتے تھے۔بعض اوقات ملاقاتیوں کے ساتھ گھنٹوں تبادلۂ خیال کرتے، مشکل ترین سوالات بھی ان سے پوچھے جا سکتے تھے، اوران کی پیشانی بَل سے محروم رہتی تھی۔
جنرل کیانی کے کئی اقدامات پر تنقید کی جا سکتی ہے، لیکن جنرل پرویز مشرف کی نفسانی خواہشات کے نیچے دبی ہوئی فوج کو انہوں نے بہرحال سربلند کیا۔2002ء میں منصفانہ انتخابات کو یقینی بنایا۔ جمہوریت کے ساتھ اپنی کمٹ منٹ کا مسلسل اظہار کرتے رہے۔ حالات اور واقعات پر ان کا دبائو تو محسوس ہوتا رہا، لیکن ایک مقررہ حد سے آگے نہ بڑھے۔ سوات آپریشن ان کا بڑا کارنامہ سمجھا جاتا ہے لیکن فوجی مہم سے پہلے انہوں نے جس طرح پاکستانی دانش کو اعتماد میں لیا اور یکسو کیا، یہ ان کی غیر معمولی صلاحیت کا اظہار تھا۔ پیپلزپارٹی کی حکومت اس میدان میں بے یارومددگار کھڑی تھی کہ نہ اس کو کسی پر اعتماد تھا اور نہ وہ کسی پر اعتماد کرنے کو تیار تھی۔جنرل کیانی نے آگے بڑھ کر فکری محاذ کی کمان بھی اپنے ہاتھ میں لے لی۔
اسامہ بن لادن کو ایبٹ آباد سے بازیاب کیا گیا۔امریکی سیلز رات کی تاریکی میں آئے اور کام دکھا گئے۔سلالہ چیک پوسٹ پر حملے میں کئی جوان شہید ہوئے۔جی ایچ کیو پر بھی دہشت گرد حملہ آور ہوئے۔ ان حوالوں سے جو جو سوالات اٹھے ان میں سے اکثر اب بھی جواب طلب ہیں، لیکن جنرل کیانی اپنے آپ کو بچا لے گئے۔ میڈیا کے ساتھ ان کے براہ راست تبادلۂ خیال نے غم و غصے کا رخ موڑنے میں کامیابی حاصل کرلی۔
جنرل کیانی کو مشکل حالات ورثے میں ملے تھے، ان کے جانشین کے لئے بھی مشکلات موجود ہیں۔ راستے کے سارے کانٹے چنے نہیں جا سکے، لیکن عوام اور فوج کے درمیان پُرجوش اعتماد کا رشتہ بہرحال بحال ہے، جنرل راحیل شریف اس کو بآسانی بہتر بنا سکتے ہیں۔
باوقار اور شاندار تقریب میں، جو عین وقت پر شروع ہوئی اور لمحہ بہ لمحہ طے شدہ پروگرام کے مطابق آگے بڑھی، جنرل راحیل شریف کے ساتھ کام کرنے والے درجنوں ریٹائرڈ فوجی افسر بھی موجود تھے۔ ان میں سے کئی پہچان کر پاس آئے اور نئے سالار کے لئے رطب اللسان ہو گئے۔ان کا کہنا تھا کہ جنرل راحیل بے حد حلیم اور عاجز شخص ہیں۔وہ آج بھی ویسے ہی ہیں جس طرح برسوں پہلے تھے، اپنے پرانے رفقاء کو پہچانتے، تباک سے ملتے اور ان کی عزت کرتے ہیں۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا، جنرل ضیاء کی طرح ؟ اس پر ایک آواز آئی، آپ جنرل ضیاء کو جانتے ہیں( اس لئے کچھ بھی کہہ سکتے ہیں)لیکن جنرل راحیل کو (آپ سے )زیادہ ہم جانتے ہیں۔یہ بات درست تھی، لیکن یہ تو ہر پاکستانی جانتا ہے کہ جنرل راحیل ایک سکہ بند فوجی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، ان کے والد محمد شریف فوجی افسر تھے۔بھائی شبیر شہید نشانِ حیدر کا اعزاز حاصل کر چکے ہیں۔ جس گھر میں شہادت کی خوشبو رچی بسی ہو، اس میں پرورش پانے والا انسان کسی پاکستانی کے لئے نامانوس تو نہیں ہو سکتا۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘میں بیک وقت شائع ہوتا ہے) 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں