"MSC" (space) message & send to 7575

جنابِ صدر کے ساتھ

73سالہ ممنون حسین اسلامی جمہوریہ پاکستان کے 12ویں صدر ہیں۔ ان کا اعزاز یہ ہے کہ ایک باقاعدہ منتخب صدر کی موجودگی میں ان کا انتخاب ہوا۔ وہ بھاری اکثریت سے جیت کر اس منصب پر فائز ہوئے۔ان کی تقریب حلف برداری میں سبکدوش ہونے والے صدر، آصف علی زرداری نے بھی شرکت کی۔اس سے پہلے یہ منظر دیکھنے میں نہیں آیا تھا کہ ایک صدر ایوانِ صدارت میں پہنچا ہو تو پیش رو اسے الوداع کہنے کے لئے بھی موجود ہو۔پاکستان کا یہ سب سے بڑا منصب عجب حالات سے دوچار رہا ہے۔میجر جنرل سکندر مرزا پاکستان کے پہلے باقاعدہ صدر تھے۔مجلسِ دستور ساز نے پہلا دستور 1956ء میں منظور کیا تو اس وقت کے گورنر جنرل سکندر مرزا کو بھی بلا مقابلہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا پہلا صدر چُن لیا۔کہا جاتا ہے کہ اس وقت کے وزیراعظم چودھری محمدعلی اور ان کے بعض رفقاء شیر بنگال مولوی اے کے فضل الحق کو صدر بنانا چاہتے تھے، لیکن فیڈرل کورٹ نے ان کے پائوں میں زنجیر ڈال دی تھی ، ان کی آزادیٔ عمل کو محدود کر دیا گیا تھا، اس لئے وہ سکندر مرزا کو منصبِ صدارت پیش کرنے پر مجبور ہو گئے۔تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ دستور ساز اسمبلی دستور سازی میں آزاد اور خود مختار ہوتی ہے، اس کے منظور کردہ دستور کو کسی کے توثیقی دستخطوں کی ضرورت نہیں ہوتی، لیکن چیف جسٹس محمد منیر کی قیادت میں پاکستان کی سب سے بڑی عدالت نے یہ فیصلہ صادر فرما دیا تھا کہ اسمبلی کے منظور کردہ کسی بھی بل پر جب تک گورنر جنرل کے دستخط نہیں ہوں گے، اسے قانونی نہیں سمجھا جائے گا۔گورنر جنرل کی تقرری کابینہ کی سفارش پر تاجِ برطانیہ کی طرف سے کی جاتی تھی، یوں اس کی حیثیت رسمی اور علامتی تھی۔ قائداعظم محمد علی جناح کا معاملہ الگ تھا کہ ان کی طاقت کا سرچشمہ عوام تھے، ان کا قد کسی سرکاری منصب سے ماپا جا سکتا تھا، نہ متعین کیا جا سکتا تھا۔اپنی بالا ترین شخصیت کے باوجود قائداعظم نے بطور گورنر جنرل دستور ساز اسمبلی کے منظور کردہ کسی بل پر اپنے توثیقی دستخطوں کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی، لیکن پاکستان کی اعلیٰ ترین عدلیہ کے اعلیٰ ترین مناصب پر فائز ہونے والے جج برطانوی آقائوں کی غلامی سے خود کو نفسیاتی طور پر آزاد قرار دینے پر تیار نہ ہوئے اور انہوں نے پاکستان ہی نہیں دنیا بھر کی دستوری تاریخ کا یہ انوکھا( اور سیاہ) فیصلہ دیا کہ دستور سازی اسمبلی کے منظورکردہ بل گورنر جنرل کے دستخطوں کے بعد ہی قانونی سمجھے جا سکیں گے۔نتیجتاً وزیراعظم اور ان کے رفقاء گورنر جنرل کے انگوٹھے کے نیچے آ گئے۔ انہیں خدشہ لاحق ہوگیا (یا کردیا گیا) کہ اگر آخری گورنر جنرل کو پہلا صدر نہ بنایا تو وہ توثیقی دستخط فرمانے سے انکار کرکے بحران پیدا کردیں گے۔عہدئہ صدارت سکندر مرزا کی خدمت میں پیش کرنا پڑا اور یوں اسلامی جمہوریہ پاکستان کا پہلا صدر وہ شخص بن گیا،جو نہ جمہوریت پر یقین رکھتا تھا ،نہ عوام کے شعور پر۔اس کا یہی خبط بعدازاں فوجی قیادت سے ساز باز کرکے مارشل لاء نافذ کرنے کا سبب بنا۔اس کا خیال تھا کہ وہ فوجی طاقت کے ذریعے بلا شرکت غیرے اقتدار پر قابض رہے گا اور اپنے تصورات کے مطابق ریاست کی صورت گری کر سکے گا، لیکن چند ہی روز میں یہ خام خیالی واضح ہوگئی۔اپنی طاقت کے سرچشمے... دستور... کے خاتمے کے بعد وہ کٹی پتنگ کی طرح زمین پر آ رہا اور فوج کی طاقت انہی ہاتھوں کی تقویت کا سامان کر گئی، جن میں وہ مرکوز تھی۔
سکندر مرزا سے (پنجابی محاورے کے مطابق) ہونے والی اس ''بوہنی‘‘ نے ہماری تاریخ کو مسلسل اپنے سائے میں لئے رکھا۔باقاعدہ منتخب ہونے والے صدور کے مقابلے میں بے قاعدہ منصب حاصل کرنے والوں کا عرصۂ اقتدار کہیں زیادہ رہا۔اختیارات نے بھی کئی روز و شب دیکھے۔کبھی صدر لائل پورکا گھنٹہ گھر بن گیا کہ اختیار کی ہر شاہراہ وہیں سے شروع ہوتی اور وہیں ختم ہوتی تھی، تو کبھی صدر کے دستخط اس وقت تک کوئی حیثیت نہیں رکھتے تھے، جب تک اس پر وزیراعظم کی مہرِ توثیق ثبت نہ ہو چکی ہو۔ایوب خان سے ہوتا ہوا فضل الٰہی اور پھر ضیاء الحق سے ممنون حسین تک کا یہ سفر ناہموار بھی ہے، اور حیرت انگیز بھی۔ آصف علی زرداری البتہ ایک مختلف طرح کے صدر تھے۔ آئینی طور پر تو انہوں نے اپنے آپ کو فضل الٰہی چودھری بنا لیا تھا اور اپنے اختیارات کم کرا دیئے تھے، لیکن پیپلزپارٹی کے قائد کے طور پروہ طاقت کا سرچشمہ تھے۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سب کچھ اپنی مرضی سے کر گزرنے کی خواہش کے باوجود بہت کچھ کر نہیں پاتے تھے۔
وزیراعظم نوازشریف کی نگاہِ انتخاب اپنے ثابت قدم ساتھی ممنون حسین پر پڑی تو کئی صحافتی اور سیاسی حلقوں میں کہرام برپا ہوگیا۔فقرے باز حرکت میں آ گئے،ہر وہ شخص غصے میں تھا، جس کا ممدوحِ نظرالتفات سے محروم رہا تھا۔فی سبیل اللہ برس پڑنے والے بھی موجود تھے۔ نوازشریف کی طرح ممنون بھی خوش خوراک ہیں، لذیذ کھانا دونوں کی کمزوری ہے، لیکن یہی کمزوری طاقت بن گئی تھی۔ ایوانِ صدر میں پانی کے بتاشوں کا ذکر اس طرح رہا کہ منہ میں پانی بھر بھر گیا، ہم پنجابی انہیں گول گپا کہتے ہیں، لیکن نام میں کیا رکھا ہے۔
صدر ممنون کراچی کے عالمی شہرت یافتہ تعلیمی ادارے انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) کے اولین گریجوایٹس میں سے ہیں۔مادرِ علمی کی رفعت اور وسعت کے لئے کام کرتے رہنا ان کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ ان کے والد وسیع کاروبار کے مالک تھے، اطمینان اور مسرت کی زندگی گزاری، سعادت مند بیٹے نے یہ نعمتیں وراثت میں حاصل کرلیں۔ مسلم لیگ سے تعلق قائم ہوئے چار دہائیوں سے اوپر ہی گزر گئے ہوں گے، اس سے ناتہ جوڑا تو پھر اِدھر اُدھر نہیں دیکھا۔جنرل پرویز مشرف نے بغاوت کی تو ممنون سندھ کے گورنر تھے، جنرل موصوف سے معانقہ تو کیا مصافحہ بھی ان کو قبول نہیں تھا۔گورنر ہائوس سے رخصت ہوئے تو مسلم لیگ(ن) کے ساتھ اپنے تعلق پر آنچ نہیں آنے دی۔وہ ایک سنجیدہ وشستہ بزرگ ہیں۔اپنا مزاج اور تشخص رکھتے ہیں، اسے تبدیل کر سکتے ہیں نہ کرنا چاہتے ہیں۔گزشتہ روز ظہرانے پر یاد فرمایا، تو یہ ایک دیرینہ نیازمند کے ساتھ ساتھ سی پی این ای کے صدر کی عزت افزائی بھی تھی۔جناب عمرشامی اور جناب حبیب اکرم کی موجودگی میں ان کے ساتھ چند لمحے گزارنے کا موقع ملا تو انہیں ایک نئے جذبے سے سرشار پایا۔چند روز پہلے انہوں نے ایوانِ صدر کی تاریخ میں پہلی بار یہاں قائداعظم کی سالگرہ بڑے اہتمام سے منائی تھی۔ایک سو سینتیس پائونڈ وزنی کیک کاٹا اور نوجوانوں کے ایک بڑے اجتماع میں تقسیم کیا۔اگلے روز منتخب مسیحی رہنمائوں کو کرسمس کا کیک کاٹنے کے لئے مدعو کیا، اور یہ تقریب بھی پہلی بار یہاں منائی گئی۔یہ اقدام مسیحی بھائیوں کو ایک نئی مسرت سے ہمکنار کر گیا۔ممنون حسین انہی خطوط پر آگے بڑھتے ہوئے ایوانِ صدر کو ثقافتی اور تعلیمی سرگرمیوں کا مرکز بنانا چاہتے ہیں، دل کے بہلانے کو غالب ؔ یہ خیال اچھا ہی نہیں بہت اچھا ہے۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے۔)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں