ایس پی چودھری محمد اسلم خان کو پوری پاکستانی قوم یاد کررہی ہے، ان کی بہادری اور جی داری کو خراج عقیدت پیش کیا جا رہا ہے۔تیس سال پہلے اسسٹنٹ سب انسپکٹر کے طور پر کراچی پولیس میں بھرتی ہونے والے اس افسر نے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔وہ مانسہرہ سے کراچی پہنچے تھے، لیکن جس دھڑلّے سے زندگی گزارنے کے عادی تھے، اس نے انہیں چودھری بنا دیا۔کراچی والوں نے انہیں چودھری سمجھا اور سر پر بٹھا لیا۔چودھری اسلم کئی تھانوں میں ایس ایچ او رہے، سی آئی ڈی میں پہنچے ، اس کے انسدادِ دہشت گردی سیل کے انچارج بنا دیئے گئے۔ ہر آنے والا دن ان کی صلاحیتوں کو آشکار کرتا اور ان کی دھاک بٹھاتا چلا گیا۔جرم اور مجرم سے انہوں نے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ زیر زمین بسنے والوں کا تعاقب کیا، انہیں چن چن کر نشانہ بنایا اور قانون کے سپرد کردیا۔ماورائے عدالت اقدامات کا الزام بھی لگتا رہا، لیکن اسے ثابت نہ کیا جا سکا۔دہشت گردوں کے ساتھ ان کی ٹھنی ہوئی تھی۔ دونوں ایک دوسرے کے درپے تھے، ایک دوسرے کی تاک میں تھے۔ تفصیل میں جائیں تو چودھری اسلم کی فتوحات بہت ہیں۔کئی وارداتوں کو ناکام بنایا، کئی کا سراغ لگایا، ان کا دشمن بھی اپنے راستے کے اس کوہِ گراںکو ہٹانے میں لگا رہا۔کم و بیش 9بار وہ حملوں سے بچ نکلے۔ ان کے مکان کو نشانہ بنایا گیا، خودکش حملہ آور بارود سے بھری گاڑی اس سے ٹکرانے میں کامیاب ہوگیا، آٹھ بے گناہ افراد موت کے منہ میں چلے گئے، لیکن چودھری اسلم اور ان کے گھر والے بچ نکلے۔اس واردات کے بعد وہ ٹی وی کیمروں کے سامنے دندناتے ہوئے آئے اور علی الاعلان کہا، مَیں ان (حملہ آوروں) کے ساتھ وہ کروں گا جو ان کی نسلیں بھی یاد رکھیں گی۔انہوں نے تو ڈرنا نہیں سیکھا تھا، لیکن سننے والے ان کی باتوں سے ڈر جاتے تھے۔ وہ کوئی افسانوی کردار معلوم ہوتے تھے، ان کے لہجے میں سلطان راہی کو تلاش کیا جاسکتا تھا۔
چودھری اسلم کی جان ہر وقت ہتھیلی پر رہتی تھی۔ ان کی وصیت منظر عام پر آئی ہے تو پتہ چلا ہے کہ ان کو اچھی طرح اندازہ تھا کہ وہ کسی بھی وقت نشانہ بن سکتے ہیں، کسی بھی سڑک پر یا گلی میں ان کی جان جا سکتی ہے انہیں اس کی کوئی پرواہ نہیں تھی، لیکن یہ توقع ضرور تھی کہ ان کے بچوں کی ذمہ داری ریاست اٹھائے گی۔ان کی اہلیہ نورین کے بقول، ان کا کہنا تھا کہ ان کے بچوں کی زندگی کو خطرات لاحق رہیں گے، اس لئے انہیں تعلیم کے لئے بیرون ملک بھجوا دیا جائے۔ جب وہ تعلیم حاصل کرلیں تو پاکستان واپس لا کر انہیں پولیس میں بھرتی کیا جائے، تاکہ وہ ان کے نقشِ قدم پر چل کر دکھا سکیں۔
چودھری اسلم اپنی توقع کے مطابق، ایک خودکش حملے میں نشانہ بن گئے۔ان کے ساتھ تین اہل کار بھی جان کی بازی ہار گئے۔کراچی اپنے دبنگ محافظ اور پاکستان اپنے فرض شناس بیٹے سے محروم ہوگیا۔ان کی شہادت نے کئی سوالات پیدا کئے ہیں، جن میں سے بعض کا جواب تفتیش کرنے والوں کو دینا ہے، جبکہ کئی ارباب اختیار سے جواب مانگ رہے ہیں۔ لوگوں کو تحفظ کا احساس دینے والوں کے اپنے تحفظ کے انتظامات کیا ہیں،ان کے پاس افرادِ کار کتنے ہیں، ان کی تربیت کا معیار کیا ہے؟ ان کے پاس اسلحہ کیسا ہے اور اس کی مقدار کیا ہے؟ جیلوں اور عدالتوں میں ان کے مجرموں سے نمٹنے کے انتظامات کیا ہیں؟ اور پھر یہ کہ اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے والوں کے پسماندگان کی حفاظت کا فرض کس نے اور کس طرح ادا کرنا ہے؟
حکومت سندھ نے شہید کے ورثاء کے لئے دوکروڑ روپے کی امداد کا اعلان کیا ہے، ان کے ساتھ رخصت ہونے والے تین جانبازوں کے بچوں کے سر پر بھی ہاتھ رکھا ہے۔ اعلیٰ ترین اعزاز بھی ان کو عطا کردیا جائے گا، لیکن چودھری اسلم کے بچوں کو وہ ماحول کیسے فراہم کیا جائے گا،جس میں وہ سکون کے ساتھ اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں۔چودھری صاحب کی روح کو سکون دینے کے لئے اور ان کی طرح خطروں میں زندگی ڈھونڈنے والوں کو حوصلہ دینے کے لئے اس پر خصوصی توجہ ضروری ہے... جانے والے پولیس کے پہلے شہید تھے نہ آخری ہوں گے۔ ان سے پہلے بھی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے موجود تھے، ان کے بعد بھی یہ فریضہ ادا کیا جاتا رہے گا۔ یہ اور بات کہ چودھری اسلم ہر روز پیدا نہیں ہوتے، جس طرح ہر شہید عزیزبھٹی اور شبیر شریف نہیں ہو سکتا، اسی طرح ہر جانباز کا نام چودھری اسلم بھی نہیں رکھا جا سکتا۔لیکن پولیس کے تمام شہداء بلکہ دہشت گردی کا نشانہ بننے والے عام شہریوں کے اہل خانہ کی دست گیری کرنا حکومت پاکستان پر لازم ہے اور اہل پاکستان کی بھی ذمہ داری ہے۔ہر بیوہ اور ہر بچے کو بیرون ملک نہیں بھجوایا جا سکتا لیکن یہاں ان کے لئے خصوصی انتظامات تو کئے جاسکتے ہیں۔پاک فوج کے اقامتی تعلیمی اداروں میں ان کی جگہ بنائی جا سکتی ہے یا پھر ان کے لئے کوئی ایسی بستی بسائی جاسکتی ہے، جہاں اقامتی اور تعلیمی سہولتیں موجود ہوں اور سکیورٹی انتظامات بھی ایسے ہوں کہ نقب نہ لگائی جا سکے۔
چودھری اسلم شہید کے ساتھ ہنگو کے اس سولہ سالہ نوجوان اعتزاز حسن کو بھی سلام پیش کرنا ضروری ہے جس نے ایک خودکش حملہ آور کا راستہ روکتے ہوئے جان دے دی اور اپنے سکول کے سینکڑوں بچوں کی زندگیاں بچا لیں۔اعتزازحسن نے بھی پوری قوم کو حوصلۂ تازہ بخشا ہے۔الحمدللہ ہمارا سب کا سرفخر سے بلند کردیا ہے کہ ہمارے خاکستر میں ایسی چنگاریاں موجود ہیں، جو شعلہ بن کر ماحول کو روشن رکھ سکتی ہے۔اس نوجوان کے والدین کے لئے حکومت کو ہر وہ کام کر گزرنا چاہیے،جو اس کے بس میں ہے۔ اہل ِدرد اور اہلِ ثروت پر بھی لازم ہے کہ آگے بڑھ کر ان کے بڑھاپے کی لاٹھی بن جائیں اور ایک بار پھر ثابت کردیں کہ ہم زندہ قوم ہیں۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)