ڈاکٹر عاطف گوہیر کو اس دنیا سے رخصت ہوئے، ایک سال بیت گیا۔ گزشتہ سال، اسی سرد دسمبر کی ایک صبح کو وہ اچانک ہمیں الوداع کہہ گئے تھے۔ وہ مجھ سے کئی سال چھوٹے تھے اور یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ مجھے ان کے جنازے کو کندھا دینا پڑے گا۔ ان کی زندگی میں رفتہ رفتہ ڈھیروں تبدیلی آ چکی تھی۔ وہ فقیری میں امیری اور امیری میں فقیری کی لذت سے آشنا ہو کر مرجعء خلائق بنتے جا رہے تھے۔ ان سے مل کر، ان سے تبادلۂ خیال کرکے آسودگی ملتی۔ وہ اپنے دوستوں کو پکڑ پکڑ کر سپرد خدا کرنے میں لگے رہتے تھے۔ آغا جی کی بیعت نے ان کی دنیا بدل ڈالی تھی۔چہرے پر سجی داڑھی پر سفیدی غالب آ رہی تھی، یوں لگتا تھا وہ پچپن کو چھونے سے پہلے ہی اسے عبورکر گئے ہیں۔ کوئی تیس سال پہلے انگلینڈ سے واپس آئے تو شیخ زائد ہسپتال ٹھکانہ بنا۔بچوں کے سرجن کے طور پر ان کی شہرت پھیلنے لگی۔ والد انجینئر محمد رفیق گوہیر سعودی عرب سے واپس آ چکے تھے اور اپنی والدہ کے نام پر ماڈل ٹائون توسیعی سکیم میں ایک بڑے ہسپتال کی تعمیر کا ارادہ باندھ رہے تھے۔ وہ بھی اپنی مثال آپ تھے۔ 1949ء میں لاہور کے انجینئرنگ کالج(اب یونیورسٹی) سے فارغ التحصیل ہوئے اور تعمیر وطن میں جثے سے بڑھ کر حصہ ڈالنے لگے۔ سرکاری ملازمت کاآغاز کیا، لیکن ملازمت برائے ملازمت کے قائل نہیں تھے۔ انہوں نے اور ان کے ساتھیوں نے انجینئرنگ کے شعبے میں کارہائے نمایاں انجام دیئے۔ ان کی نگرانی میں بنائے جانے والے پل اور عمارتیں آج بھی پورے قد سے کھڑی ہیں۔جب غیر ملکی ڈیزائن اور ماہرین کی یلغار ہوگئی تو ان کا دل بیٹھ سا گیا، اپنے ملک میں اپنے لوگ اجنبی بنا ڈالے گئے تو انہوں نے سعودی عرب کا رُخ کر لیا۔ ان کا تعلق ایک کھاتے پیتے گھرانے سے تھا، والد شرف الدین گوہیر آسودہ حال کاشتکار تھے۔ سعودی عرب میں ایک بڑی تعمیراتی کمپنی کے چیف انجینئر کے طور پر ذمہ داریاں سنبھالیں تو گویا ہُن برسنے لگا۔
بارہ سال وہاں رہے، دیانت اور محنت کے بل پر دونوں ہاتھوں سے ریال سمیٹے، لیکن اپنے وسائل کو کبھی اپنی ذات کے لئے مختص نہیں سمجھا۔ پس انداز کیا، مستقبل کو سنوارا، لیکن محروموں اور سائلوں کے لئے بھی کشادہ دل رہے۔ سعودی عرب ہی میں تھے کہ اپنی والدہ کے نام پر ایک بڑے ہسپتال کا خواب دیکھا، اس کے لئے ٹرسٹ قائم کیا تو میرا نام بھی ٹرسٹیوں میں شامل کرنے کے لئے اجازت کے طلب گار ہوئے۔ نیکی اور پوچھ پوچھ کے مصداق میں نے فوراًہامی بھر لی۔ برادرم محمد صلاح الدین شہید سے ان کا تعلق پہلے سے تھا شاید ان ہی کی تجویز پر ان کی نگاہ انتخاب مجھ پر ٹھہری۔ ہفت روزہ تکبیرکا اجراء ہوا تو صلاح الدین صاحب کے ساتھ تعاون کرنے والوں میں پیش پیش تھے، دلچسپ بات یہ ہے کہ جب حمید نظامی ''نوائے وقت‘‘ کے اجراء کا منصوبہ بنا رہے تھے تو شاہ کوٹ کے رہنے والے شرف الدین گوہیر کے احاطے میں اس کا ابتدائی خاکہ تیار ہوا تھا۔ گوہیر مشرقی پنجاب میں جالندھر کے قریب ایک گائوں ہے،اسی نسبت سے یہ خاندان گوہیر کہلاتا ہے۔بعدازاں یہ ''شاہ کوٹی‘‘ ہو گئے لیکن نام میں لاحقہ گوہیر ہی کا رہا۔ ان دنوں سی آر اسلم حمید نظامی کے رفیق کار تھے اور شرف الدین کی ہمسائیگی میں رہتے تھے، اسی تعلق کی بدولت حمید نظامی کا تعارف گوہیر خاندان سے ہوا۔ باپ کی روایت بیٹے کو یوں منتقل ہوئی کہ ہفت روزہ تکبیر کی بنیاد رکھنے والوں میں اس نے آگے بڑھ کر اپنا نام لکھوا لیا۔
ادارہ ترقیات لاہور سے ریزروپرائس پر زمین کا حصول ممکن ہوگیا تو ہسپتال کی تعمیر کاآغاز ہوا۔اس کے لئے کبھی چندے کی اپیل کی نہ کسی کے سامنے دست سوال دراز کیا۔ کسی نے تعاون کرنا چاہا تو اس کا ہاتھ نہیں جھٹکا لیکن اللہ تعالیٰ کے بعد ان کا بھروسہ تھا تو اپنی ذات پر اور انہوں نے اپنے وسائل ہی کے سہارے ایک عظیم الشان ہسپتال قائم کر دیا۔ شیخوپورہ میں اپنے والد کے نام پر ایک بڑے سکول کے قیام کا شرف بھی ان کے لئے خاص ہو چکا تھا۔ وہ ادارے قائم کررہے تھے لیکن اپنے حلقہ تعارف کی ذاتی ضرورتوں پر بھی نظر رکھتے تھے۔ملت اسلامیہ سے تعلق انہیں بنگلہ دیش اور نیپال تک کے بے نوائوں کا سہارا بننے پر بھی مجبور کر رہا تھا۔ ان کے عطیات ان گنت زندگیوں میں خوشیاں بھرتے رہے، یہی خوشیاں انہیں خوش رکھے ہوئے تھیں۔ہر وقت ان کے چہرے پر مسکراہٹ چھائی رہتی تھی۔
ہسپتال کی عمارت تو کھڑی کرلی گئی، لیکن پھر پتہ چلا کہ ہسپتال بنانے سے کٹھن مرحلہ اسے چلانے کا ہے۔ یہیں ان کی نظر اپنے اکلوتے سرجن بیٹے پر پڑی اور انہوں نے اس سرمائے کو بھی اللہ کی راہ میں وقف کر دیا۔فرمانبردار بیٹے نے اپنے کیریئر کو خیرباد کہا، لاکھوں کیا کروڑوں میں کھیلنے کے خواب دکھانے والوں سے ناتہ توڑا اور سائرہ میموریل ٹرسٹ ہسپتال کو اپنی دنیا بنا لیا کہ اس کے ساتھ آخرت بھی جڑی ہوئی تھی۔ان کی ہونہار بہن ڈاکٹرنائلہ ان کا ہاتھ بٹانے میں لگ گئیں۔
آج رفیق گوہیر صاحب کے قائم کردہ ادارے خدمت کی مثال بنے ہوئے ہیں۔وہ 84سال کی عمر پا کر اس دنیا سے رخصت ہوئے، یعنی رات بہت تھے جاگے، صبح ہوئی آرام کیا۔ ان کے انتقال سے نو دن پہلے ان کے چھوٹے بھائی الوداع کہہ گئے تھے، بڑے بھائی نے چھوٹے کی تنہائی کو دور کرنے کے لئے جلد ہی رخت سفر باندھا تو چند ہی ہفتوں بعد ان کی اہلیہ ان کے پاس جا پہنچیں۔وہ ولی کامل جلال الدین اکبر کی صاحبزادی تھیں، جو علامہ اقبال کے حلقہ بگوش اور باکمال شاعر تھے۔ ان کا ایک شعر سنتے جایئے ؎
ایک آنسو میں کہہ دیا غمِ دل
کس قدر ہم نے اختصار کیا
گوہیر خاندان نے زیر زمین بستی دیکھتے ہی دیکھتے بسا لی۔ ایک سال بھی پورا نہیں ہوا تھا کہ جواں سال عاطف اپنے والدین کے قدموں میں جا لیٹے۔ اکلوتے بیٹے کا دل والدین کے بغیر اس دنیا میں نہ لگ پایا۔ اس دنیا میں گوہیر بستی سج گئی۔گویا، گوہیر خاندان کا چراغ دونوں دنیائوں میں روشن ہوگیا۔
اب عاطف کی اہلیہ عالیہ اور جواں سال اکوس ان کے لئے صدقہء جاریہ بنے ہوئے ہیں۔باہمت عاطف کو خدا جانے ذیابیطس کا عارضہ کیسے لاحق ہو گیا۔ وہ خوش خوراک تو تھے لیکن پُرخورنہیں تھے۔ ہاتھ روک کر کھاتے، سفر کو وسیلہ ظفر سمجھتے اور اس سے ہرگز نہ گھبراتے۔ بلا سوچے سمجھے زبان کھولتے، نہ قدم اٹھاتے تھے۔ وہ جلد باز نہیں تھے، ہر فیصلہ سوچ، سمجھ کر کرتے تھے لیکن اس دنیا سے رخصت ہونے میں جلدی کا شدید مظاہرہ کیا۔ ان کی یہ حرکت عجیب تھی، ناقابل تصور، ناقابل معافی، لیکن پھر یہ سوچ کر کچھ کہنے کایارا نہیں رہتا کہ یہ فیصلہ ان کا اپنا تو نہیں تھا ؎
لائی حیات آئے، قضا لے چلی چلے
اپنی خوشی نہ آئے، نہ اپنی خوشی چلے
(یہ کالم روزنامہ '' دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)