تیسری کل جماعتی کانفرنس نے اعلان کر دیا کہ فوجی عدالتیں قائم ہوں گی۔ آرمی ایکٹ میں ترمیم کی جائے گی اور دستور میں بھی۔21واں آئینی ترمیمی بل قومی اسمبلی میں پیش کیا جا چکا ہے۔ امکان غالب یہی ہے کہ کسی بھی بحث کے بغیر اسے منظور کر لیا جائے گا اور چند ہی روز میں سینیٹ سے ووٹ لے کر یہ (صدر پاکستان کے دستخطوں سے) آئین کا باقاعدہ حصہ بن جائے گا۔ وزیراعظم نوازشریف نے 16دسمبر کو سانحہ پشاور کے بعد جس برق رفتاری اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا ہے، چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے جس یکسوئی کے ساتھ اپنے موقف کو زبان دی ہے اور مختلف الخیال سیاسی جماعتوں نے کھلے دل کے ساتھ جس طرح قومی اتفاق رائے کو پیدا کرنے میں معاونت کی ہے، اس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ قوم میں نیا اعتماد پیدا ہوا ہے۔ حوصلوں کو نئی توانائی ملی ہے۔یہ کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا کہ انہیں ٹوٹنے سے بچا لیا گیا ہے۔
گزشتہ دو ہفتے پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ ایک سو سے زائد معصوم بچوں کو نشانہ بنا کر دہشت گردوں نے پاکستانی قوم کے اعصاب پر جو شدید ترین حملہ کیا تھا، اسے اس طرح ناکام بنایا گیا کہ پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادتیں ایک نئے عزم کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لئے چوکس ہو گئیں۔ سولہ دن کے اندر تیسری بار ایک چھت کے نیچے جمع ہو کر نئی تاریخ رقم کر دی گئی۔پشاور میں منعقدہ پہلے اجلاس میں جس 20نکاتی ایکشن پلان کو آخری شکل دی گئی تھی، اس میں فوجی عدالتوں کا قیام خصوصی توجہ کا مرکز بن گیا تھا۔ ملک بھر میں اس پر بحث کا بازار گرم رہا۔ قانون دانوں، تجزیہ نگاروں، اداریہ نویسوں اور سول سوسائٹی کے ترجمانوں کے ایک حلقے نے اسے مارشل لا کی تمہید قرار دینا شروع کر دیا۔ ماضی کے واقعات میں مستقبل کی جھلک (دیکھنے اور) دکھانے لگے۔ ان کا خیال تھا کہ اس سے سول انتظامیہ کی بالادستی دم توڑ جائے گی۔ فوجی اونٹ خیمے میں اس طرح داخل ہو گا کہ ''سیاسی بدّو‘‘ کے لئے کوئی جگہ باقی نہیں رہے گی، لیکن وزیراعظم نوازشریف نے لغزش نہیں دکھائی۔ آرمی چیف نے بھی غیر معمولی حالات میں غیر معمولی اقدامات کی افادیت پر زور دیا اور یوں ساری سیاسی قیادت نے قدم بڑھا لئے۔
2جنوری کو سات گھنٹے سے زائد جاری رہنے والی کل جماعتی کانفرنس میں وکلاء نے اپنے اپنے موقف کے حق میں پوری شدت سے دلائل دیئے۔ اعتزازاحسن اور فاروق نائیک کا کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ میں ترمیم کرکے فوجی عدالتوں کے دائرہ کار میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ اس سے آئین میں ترمیم کے بغیر مطلوبہ مقاصد حاصل ہو جائیں گے، جبکہ اٹارنی جنرل سلمان بٹ اور بیرسٹر فروغ نسیم کی رائے تھی کہ آئین میں ترمیم کرکے ان اقدامات کو تحفظ دینا ضروری ہوگا وگرنہ یہ بآسانی عدالتی نظرثانی کی نذر ہو سکیں گے۔ بحث طویل تھی لیکن سینیٹر مشاہد حسین نے یہ کہہ کر کڑاکے نکال دیئے کہ معلوم ہوتا ہے ، یہ سیاسی رہنمائوں کا اجلاس نہیں، کورٹ روم ہے۔ انہوں نے سیاستدانوں کو للکار کر قائدانہ کردار ادا کرنے کے لئے کہا۔ چودھری شجاعت حسین کی جذباتی مداخلت نے ماحول کا رنگ مزید بدلا۔ شہید ہونے والے بچوں کا ذکر ان کی زبان پر اس طرح آیا کہ آنکھیں بھیگ گئیں۔ (سابق) صدر آصف علی زرداری نے آگے بڑھ کر اپنی ہی جماعت کے وکلاء کے موقف کو رد کردیا اور واضح کیا کہ وہ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔ ان کے الفاظ فیصلہ کن ثابت ہوئے، عمران خان بھی جو آئینی ترمیم کے بغیر قانونی اقدامات پر زور دے رہے تھے، اپنے آپ کو اتفاق رائے سے الگ نہ رکھ سکے۔
کل جماعتی کانفرنس میں شریک ہونے والے قانون دانوں کی طرح معاشرے کے مختلف طبقات میں بھی مختلف آراء کا اظہار ہوتا رہا ہے اور ہوتا رہے گا۔ ''پلڈاٹ‘‘ نے ایک خصوصی نشست میں ایس ایم ظفر، حامد خان، احمر بلال صوفی، اعظم تارڑ ، سلمان راجہ اور عائشہ حامد صاحبان کو مدعو کیا تو ان میں بھی یہ اختلاف موجود تھا۔ فوجی عدالتوں کے قیام کی یکسر مخالفت بھی کی جا رہی تھی۔ لیکن بنیادی نکتہ یہ تھا (جو احمر بلال صوفی نے پوری شدت سے اٹھایا) کہ ہم زمانہ ء امن میں ہیں، یا حالت جنگ میں۔ اگر تو ہم جنگ کا آغاز کر چکے ہیں یا جنگ ہم پر ٹھونس دی گئی ہے تو پھر ہم ان قوانین کے کنویں میں نہیں ڈوب سکتے جو امن کی حالت میں لاگو ہوتے ہیں۔ حالات غیر معمولی ہوں گے تو اقدامات بھی غیر معمولی کرنا ہوں گے۔ دنیا کا کوئی آئین اور کوئی عدالت اس سے آنکھیں بند نہیں کر سکتے۔ برطانیہ کی پریوی کونسل کے فیصلے موجود ہیں اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کی عدالتوں سے بھی نظیریں تلاش کی جا سکتی ہیں۔ اسلامی فقہی اصولوں کے مطابق بھی حالات بدلنے سے احکامات بدل جاتے ہیں۔ جان بچانے کے لئے وہ اشیاء کھائی جا سکتی ہیں، عام حالات میں جنہیں چھونابھی گناہ کبیرہ سمجھا جاتا ہے۔
یہ درست ہے کہ ہمارے عدالتی نظام کو کسی بھی طرح کے حالات میں اپنا کردار ادا کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔ سویلینز کی سربراہی میں قائم کی جانے والی خصوصی عدالتوں کو مستحکم کیا جانا چاہیے۔ تفتیش کرنے والوں اور پراسیکیوٹ کرنے والوں کی تربیت کی طرف توجہ ہونی چاہیے۔ قانون شہادت میں ضروری تبدیلیاں کی جانی چاہئیں،مقدموں کو لٹکانے کے وکیلانہ حربوں کا سدباب کیا جانا چاہیے، لیکن یہ سارے کام راتوں رات نہیں ہو سکتے، ان کے لئے وقت اور توجہ درکار ہے۔ تازہ ترین اقدامات مستقل نہیں ہیں، ان کو دو سال کے عرصے تک محدود کر دیا گیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان دو سال کے اندر اندر وہ سب کچھ کر لیا جائے جو سول انتظامیہ، پولیس اور عدالتی نظام کو موثر تر بنا سکے۔دہشت گرد ہمیں کوئی مہلت دینے پر تیار نہیں ہیں، ہمیں بھی انہیں کوئی مہلت نہیں دینی چاہیے۔ ساری توجہ اور توانائی ان کے عزائم کو چکنا چور کرنے پر لگا دینا ہی آج کا تقاضہ ہے۔ ایک انگریزی اخبار نے21ویں آئینی ترمیم پر سیاستدانوں کی شکست بلکہ ''سرنڈر‘‘ کی پھبتی کسی ہے۔ فاضل اداریہ نویس کو معلوم ہونا چاہیے کہ بنیادی حقوق زندہ انسانوں اور زندہ معاشروں کے ہوتے ہیں۔ قبرستانوں میں ان کا بول بالا نہیں کیا جا سکتا۔ گلی گلی میں جنازے اٹھانے اور پچاس ہزار افراد قربان کر دینے کے بعد بھی اگر فرقہ باز مولویوں کی طرح ہم مناظروں میں لگے رہیں گے تو پھر ہمارے ساتھ وہی ہوگا جو تاتاریوں کی فوج نے بغداد کے ساتھ کیا تھا۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)