"MSC" (space) message & send to 7575

’’برخوردار‘‘ قاسمی کے بہتّر سال

انسداد دہشت گردی فورس کے اولین دستے کی پاسنگ آئوٹ تقریب میں شرکت کے بعد وزیراعظم نوازشریف میڈیا کے دوستوں سے ملاقات کے لئے مختص خیمے میں آئے تو میں اور عطاء الحق قاسمی ''محمود و ایاز‘‘ کی طرح ایک ہی صف میں کھڑے تھے۔ وزیراعظم کے چہرے پر اطمینان اور اعتماد کی جھلک دیکھ کر میں نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ قاسمی صاحب آج بہتر برس کے ہو گئے ہیں۔ انہیں مبارکباد دے دیجئے۔ بہتر کے ہندسے نے ایسا مغالطہ پیدا کیا کہ وہ اسے مذاق سمجھ کر بولے: تسی وی تے گھٹ نہیں او... یعنی آپ بھی کم نہیں ہیں، وہ بہترے ہو چکے ہیں تو آپ کا شمار بھی اسی قبیل میں کیا جانا چاہیے۔ اس الزام کا جواب دینے کا موقع نہ مل سکا کہ وزیراعظم نے فوراً ہی پٹرول کی قیمتوں میں کمی کی تفصیل بتانا شروع کر دی۔ جس طرح ابھی تک تیل بحران کے (تمام) ذمہ داروں کا پتہ نہیں چلایا جا سکا، اسی طرح بابا عطاء الحق قاسمی کی سالگرہ کے بارے میں بھی حقائق واضح نہ ہو سکے؛ حالانکہ عطا نے پوری سنجیدگی سے یہ بات پورے شہر بلکہ ملک کو بتا رکھی تھی کہ وہ بہتر سال پہلے امرتسر میں وارد ہوئے تھے‘ اب انہیں بابا کہا جا سکتا ہے‘ یہ اور بات کہ ان کی حرکات و سکنات کو بابگی چھو کر بھی نہیں گزری، اس اعتبار سے انہیں برخوردار کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ ویسے لگتا ہے عالمِ ارواح سے ہم دونوں اکٹھے روانہ ہوئے تھے، امرتسر ہوشیار پور سے پہلے آگیا، سو، مجھے اپنی منزل تک پہنچنے کے لئے دو اڑھائی سال کا فاصلہ مزید طے کرنا پڑا۔ یوں میں وزیراعظم کی توقع پر پورا نہیں اتر سکا۔یہ شرف عطا ہی کو بلا شرکتِ غیرے حاصل رہا: ویسے عطا اور وزیراعظم کا معاملہ یک طرفہ نہیں ہے۔ دونوں ایک دوسرے کی توقعات پر پورا اترے ہیں یا یہ کہیے کہ اترنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ جہاں توقعات آگے بڑھ جاتی یا پیچھے رہ جاتی ہیں، وہاں عطا کا قلم عوام کی توقعات پر پورا اترنے سے باز نہیں آتا اور خلاف توقع بہت کچھ کہہ گزرتا ہے۔ یہ اور بات کہ وزیراعظم سے عطا کے تعلق کی وجہ اقتدار نہیں بلکہ اقتدار کو اس تعلق کا نتیجہ قرار دیا جا سکتاہے کہ انتخابی مہم کے سمندر میں عطا اپنی کشتیاں جلا کر اترے تھے اور مسلم لیگ (ن) کے مخالفوں سے الزام و دشنام میں حصہ بقدر جثہ وصول کیاتھا۔ 
عطا کالم نگار ہیں، سفارت کار ہیں، شاعر ہیں،''شوقِ آوارگی‘‘ میں مبتلا رہے ہیں، سیاحت کی تفصیل لکھ کر ہنگامہ اٹھا چکے ہیں۔ پیرزادہ ہونے کے باوجود مزاح ان کے گھر کی لونڈی ہے اور شگفتگی ان کے حرم میں باقاعدہ داخل ہے۔ انہیں سیاسی تجزیہ کاری کا شوق ہے نہ یہ ان کا میدان ہے، لیکن جب جب انہوں نے یہاں قدم رکھا ہے، کشتوں کے پشتے لگا دیئے ہیں ۔ نوازشریف وزیراعظم نہ رہیں تو عطا اور اقتدار میں فاصلہ پیدا ہو جاتا ہے۔ انہیں وہ کرسی پسند ہی نہیں آتی جس پر نوازشریف یا کم سے کم شہبازشریف یا وہ خود نہ بیٹھے ہوں۔ وہ وزارتِ عظمیٰ یا اعلیٰ سے متاثر نہیں ہوتے، ہاں مسماۃ عظمیٰ یا اعلیٰ بلکہ ادنیٰ سے بھی متاثر ہو سکتے ہیں: 
خریدیں نہ ہم جس کو اپنے لہو سے
مسلماں کو ہے ننگ وہ پادشاہی
عطا ایسے اخباری کالم نگار ہیں جن کے کالم اخبار کے ساتھ ردی نہیں ہوتے۔ جب تک سماج سو فیصد تبدیل نہیں ہو جاتا، ان کے موضوعات کا مزہ برقرار رہے گا ۔برسوں پہلے ان کے لکھے ہوئے اکثر کالم آج بھی جوں کے توں ہیں، انہیں آج بھی شوق کی نگاہوں سے پڑھا جا تا ہے۔ اردو کالم نگاری کے وہ امام ہیں۔ ان کا معاملہ مرتضی برلاس جیسا نہیں کہ ؎
دوستوں کے حلقے میں ہم وہ کج مقدر ہیں
افسروں میں شاعر ہیں شاعروں میں افسر ہیں
عطاادیبوں میں اخبار نویس اور اخبار نویسوں میں ادیب نہیں بلکہ ادیبوں میں ادیب اور اخبار نویسوں میں اخبار نویس نہ صرف مانے جاتے ہیں، بلکہ ان جیسا دوسرا تلاش کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ انہوں نے اخباری کالم نگاری کو آب حیات پلا دیا ہے، اسے نئی وسعتیں اور جہتیں عطا کی ہیںاور زندہ رہنے کا فن سکھا دیا ہے۔
عطا کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ مولانا بہائو الحق قاسمی کے بیٹے ہیں۔آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس میں ان کا کوئی کمال نہیں، یہ کمال اگر ہے تو حضرت مولانا کا ہے، لیکن خوبی بہرحال خوبی ہے،خواہ اس کا ذمہ دار کوئی بھی ہو۔دوسری خوبی یہ ہے کہ وہ تین ہونہار بیٹوں کے باپ ہیں۔ یاسر پیرزادہ اپنی طرز کے کالم نگار ہیں، اپنی عمر سے کہیں بڑے ، سوچ سمجھ کر لکھنے والے اور بلا سوچے سمجھے دل میں اُتر جانے والے، علی کا شمار بھی دانشوروں میں ہوتا ہے۔عمر البتہ کسٹم کے محکمے میں دل اٹکائے ہوئے ہیں: بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں۔
باپ اور بیٹے، یعنی بیج اور پھل دونوں کا ڈی این اے ایک ہو تو درخت کی نجابت سے انکار کون کر سکتا ہے۔اس درخت کی آبیاری میں ہماری بھابھی یعنی ان کی زوجہ محترمہ کا حصہ اگر زیادہ نہیں ہے تو کم بھی نہیں ہے۔ عطا کی بے صبری مشہور ہے جبکہ محترمہ کو صبر کا پھل ملا ہے، فرائض زوجیت و ولدیت انہوں نے پوری ذمہ داری سے ادا کئے ہیں۔ اپنی چار دیواری میں چادر کی خوب حفاظت کی ہے، دوسروں کی چار دیواریوں اور چادروں کا معاملہ دوسروں کے سپرد ہے کہ ہر کسی نے ہر کسی کا ٹھیکہ تو نہیں لے رکھا۔عطا کے والد نے انہیں غریبی میں امیری کی لذت عطا کی تو عطا نے اپنے بچوں کو امیری میں فقیری کی نعمت سے روشناس کرایا ہے۔دستر خوان اور دل کے ساتھ ہاتھ بھی کھلا رکھتے ہیں، اندھیرے اجالے چوک تو جاتے ہوں گے احتیاطاً خلاف شرع تھوکتے بھی رہتے ہیں۔ پیسہ عطا کے لئے کوئی مسئلہ نہیں رہا۔ وہ کبھی اس کے پیچھے بھاگتے ہوئے نہیں پائے گئے، یہ بھاگ بھاگ کر ان کا پیچھا کرتا ہے۔ ان پر رزق کے جو بھی دروازے کھلے، وہ رازق نے پورے اہتمام سے کھولے، انہوں نے انہیں کھٹکھٹایا تو ضرور‘ چوپٹ کھولنے کی کوشش نہیں کی۔
مولانا بہائو الحق قاسمی ماڈل ٹائون کی جامعہ مسجد کے خطیب تھے، شریف صاحبان لڑکپن میں ان کی اقتداء میں نماز ادا کرتے رہے۔ اظہار عقیدت کے لئے ان کی خدمت میں ایک کنال کا پلاٹ پیش کیا تو انہوں نے شکریے کے ساتھ اس پیش کش کو رد کر دیا، اس لئے کہ کہیں یہ نہ سمجھا جائے کہ عطاء الحق قاسمی کے والد کو پلاٹ الاٹ کر دیا گیا ہے۔ عطا نے آج تک کوئی پلاٹ الاٹ کرایا نہ کسی منصب کے لئے درخواست دی۔ جب ناروے کی سفارت ان کے گھر آ رہی تھی تو وہ پریشان ہو ہو جاتے تھے۔ حلقہ احباب میں ایسے ایسے موجود تھے جو انہیں اسے ٹھکرا دینے کی ترغیب دیتے اور اس میں عظمت تلاش کرتے تھے، وہ ہر روز نہیں تو دوسرے تیسرے دن مجھے ملتے اور انکار سفارت کے تازہ دلائل سے مطلع کرتے۔ میں چونکہ شرعی امور میں ان کا مشیر بن جاتا ہوں، اس لئے انہیں ڈٹ جانے پر قائل کرتا، وہ مطمئن ہو کر رخصت ہوتے، لیکن اگلے ہی روز پھر بے اطمینانی سر اٹھا لیتی۔ الحمدللہ کہ وہ سفیر بنے اور ان کی یا سفارت کاری کی عزت میں اضافے کا سامان ہو گیا۔
باباعطاء الحق قاسمی کے 72سالوں میں کم و بیش پچاس سال ایسے ہیں جو قلم کی صحبت میں گزرے ہیں۔ گواہی دی جا سکتی ہے کہ انہوں نے (بحیثیت مجموعی) اس کی حرمت کا خیال رکھا ہے، اور اس نے ان کو وہ ''قلم رو‘‘ عطا کر دی ہے، جہاں ان کا سکہ چلتا ہے اورچلتا رہے گا۔ لکھنے والے بہت ہوئے، بہت ہوں گے، لیکن عطاء الحق قاسمی نہ گزشتہ 72سال میں کوئی دوسرا پیدا ہوا ، نہ آئندہ بہتر سال اور اس کے بعد کے بہتر سال اور اس کے بعد کے بہتر سالوں میں کوئی دوسرا پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ پاکستان اور اس کے نظریے سے ان کی روشن خیال کمٹ منٹ (کہ وہ مولوی زادہ ہونے کے باوجود مولوی زدہ نہیں ہیں)انہیں ہمیشہ زندہ رکھے گی ؎
سرکارِ دو جہاں کا بنا کر مجھے غلام
میرا بھی نام تابہ ابد زندہ کر دیا
(عطاء الحق قاسمی کی 72ویں سالگرہ کے موقع پر منعقد ہونے والی تقریب تہنیت میں پڑھا گیا) 
یہ کالم روزنامہ 'دنیا'‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں