"MSC" (space) message & send to 7575

وزیراعظم کے سامنے

جنابِ محمد نواز شریف
وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان
مَیں اپنی طرف سے اور سی پی این ای کے تمام عہدیداران اور ارکان کی طرف سے جنابِ وزیراعظم کا تہہ دل سے شکرگزار ہوں کہ انہوں نے ہماری دعوت کو شرفِ قبولیت بخشا۔ یہ تقریب اس لحاظ سے بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ2013ء کے عام انتخابات کے بعد قومی اخبارات کے مدیران کرام کو جنابِ وزیراعظم سے پہلی بار تبادلہ ٔ خیال کا موقع مل رہا ہے۔
جناب والا! اس بارے میں کوئی دو آرا نہیں ہو سکتیں کہ قومی سیاست اور صحافت کا حال اور مستقبل ایک دوسرے سے وابستہ ہے۔ ان دونوں پہیوںکے بغیر جمہوریت کی گاڑی نہیں چل سکتی۔ پاکستان جمہوریت کے ذریعے وجود میں آیا اور صحت مند جمہوری عمل ہی اس کی ترقی اور خوشحالی نہیں، اس کے وجود کی بھی ضمانت ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ دستور کے مطابق اپنی اجتماعی زندگی کی تشکیل نہ کر پانا ہے۔ ہمارے ہاں اس بنیادی دستاویز کی تقدیس سے انکار کیا جاتا رہا ہے۔ اسے کاغذکا ایک مجموعہ سمجھ کر طاقتوروں نے جب چاہا اور جہاں سے بھی چاہا پھاڑ ڈالا۔ شاید ہمارا دستور دنیا کا واحد دستورہے، جس کے ایک ایک صفحے پر من مانی اور یک طرفہ ترامیم کے اثرات موجود ہیں۔پاکستان آج جس دہشت گردی اور فرقہ پرستی، بدنظمی، معاشی کم نصیبی، سماجی افراتفری میں مبتلا ہے، اس کی بنیادی وجہ پاکستان کے دستورسے کھلواڑ ہے۔ اسے بازیچۂ اطفال بنایا گیا، تو وہ بھوت پیدا ہوئے جنہوں نے مختلف مقامات پر ہمیں یرغمال بنا رکھا ہے۔
جناب ِ وزیراعظم!
صرف محاورۃً نہیں، بلکہ حقیقتاً بھی یہ بات تسلیم کی جانی چاہئے کہ آج کل آپ کو جو مسائل درپیش ہیں، وہ آپ کے پیدا کردہ نہیں ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ انہیں چٹکی بجاتے حل نہیں کیا جا سکتا، لیکن یہ بھی درست ہے کہ ان کا سامنا کرنے والے عوام میں جھنجھلاہٹ، اکتاہٹ،غصہ یا اشتعال پیدا ہونا بھی غیر فطری نہیںہے۔ ہم اہل ِ صحافت بھی بعض اوقات اپنے آپ پر قابو نہیں رکھ پاتے ؎
گفتار کے اسلوب پہ قابو نہیں رہتا
جب روح کے اندر متلاطم ہوں خیالات
قوم کی توقعات اور حکومتی اقدامات کے درمیان فاصلہ بڑھتا، گھٹتا رہتا ہے، لیکن اسے ختم کرنا آسان نہیں ہے۔ جناب ِ وزیراعظم یہی آپ کا امتحان ہے۔
یہ بات یاد رہنی چاہئے کہ ہر مسئلہ ایک چیلنج بھی لے کر آتا ہے یا یہ کہیے کہ امتحان کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ ہر امتحان آگے بڑھنے کا موقع فراہم کرتا ہے، اس میں کامیابی نئی رفعت کا سبب بن جاتی ہے۔ اگر اقتدار اور عوام کے درمیان،اگر حکومت اور صحافت کے درمیان اعتماد کا رشتہ قائم ہے، سفر جاری ہے، صرف گفتار ہی نہیں رفتار سے بھی اس کی شہادت ملتی ہے،تو پھر اندھیروں سے گزرنا بھی آسان ہو جاتا ہے:
شاہیں کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا
لیکن اگر سفر کا احساس ہو، نہ زادِ راہ نظر آئے، نہ قافلۂ سالار تک رسائی ممکن ہو تو دن کی روشنی میں بھی تارے نظر آنے لگتے ہیں۔ ایک قدم اٹھانا بھی دوبھر ہو جاتا ہے۔ مسائل کو حل کرنے کی کوشش سے عوام کو آگاہ رکھنا صحافت کے ذریعے ممکن ہو پاتا ہے اور اگر اس سے رابطہ ٹوٹ جائے تو سمجھئے عوام سے رابطہ ٹوٹ گیا۔ یہ وہ رسک ہے جو کوئی جمہوری حکومت نہیں لے سکتی۔ جنابِ وزیراعظم، سیاست میں حقائق سے زیادہ پرسیپشن(Perception) اہم ہو جاتی ہے۔ حقیقت وہ نہیں ہوتی جو فائلوں میں دبی ہوتی ہے، وہ ہوتی ہے جو دکھائی جا رہی ہوتی ہے۔ سیاست میں دو+دو ہر وقت چار نہیں رہتے، کبھی تین ہو جاتے ہیں،کبھی پانچ بھی ہو سکتے ہیں۔ میڈیا پرسیپشنز کو تخلیق نہ کرے تو بھی اس کے ذریعے یہ نمایاں ضرور ہو جاتی ہیں۔ اہل ِ سیاست اس کی بدولت زیر و زبر ہوتے چلے جاتے ہیں۔
جناب ِ وزیراعظم!
برملا اعتراف کیا جانا چاہئے کہ گزشتہ دو سال میں آپ نے میڈیا کو زنجیروں میں جکڑنے کی کوئی کوشش نہیںکی۔ اِکا دُکا شکایات کے باوجود اشتہارات کو میڈیا کے خلاف دبائو بڑھانے کے لئے استعمال نہیںکیا۔ آپ کے عہد میں ضربِ عضب کا آغاز کیا گیا، آپ یقینا دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن جنگ لڑ رہے ہیں۔ ہماری مسلح افواج نے اپنے عزم اور قربانیوں سے ہمیں نئی توانائی بخشی، ہمارا سر فخر سے بلند کیا اور ہمارے مستقبل کو محفوظ تر بنایاہے۔ کراچی کو اس کی روشنیاں لوٹانے کے لئے بھی آپ نے اقتدار سنبھالتے ہی قدم اٹھایا ہے۔معیشت کی بحالی کے لئے آپ کی کوششوں کا بین الاقوامی سطح پر اعتراف کیا گیا ہے۔ توانائی کے شعبے سے بھی غفلت نہیں برتی جا رہی۔ خسارے میںچلنے والے قومی اداروں کو بچانے کی کوششیں بھی شروع ہیں، اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے آپ کو غیبی امداد تیل کی قیمتوں میں ناقابل تصور کمی سے ملی ہے، چنیوٹ سے لوہے، تانبے اور سونے کے وسیع ذخائر کی دریافت نے بھی امکانات کا ایک نیا جہاں آباد کر دیا ہے، لیکن جناب ِ وزیراعظم ،اگر یہ کہا جائے کہ سب اچھا ہو چکاہے یا ہو رہا ہے تو درست نہیںہو گا۔ گورننس اور شفافیت کے حوالے سے شکایات اب بھی سننے میں آ رہی ہیں۔ وزرائے کرام ایک ٹیم کی طرح کام کرتے نظر نہیں آتے۔ پٹرول کا حالیہ بحران اس کی ایک واضح مثال ہے۔ اگر مختلف محکموں اور وزارتوں میں مطلوب ہم آہنگی موجود ہوتی تو بحران پیدا ہی نہ ہوتا۔ کئی بڑے اداروں کے سربراہان ابھی تک مقرر نہیں ہو پائے،مقامی حکومتوںکے انتخابات منعقد نہیں کرائے جا سکے،نتیجتاً ہر سطح پر اختیارات عوامی نمائندوں کے پاس نہیں پہنچ پائے۔ یوں ہماری جمہوریت ایک ایسی چھت کی طرح ہے،جس کی دیواریں کھڑی نہ کی جا سکی ہوں۔
جناب والا! اگر مَیںیہ عرض کروںتو بے جا نہیں ہو گا کہ ہمارے سر پر خطروں کے بادل ابھی تک منڈلا رہے ہیں، دھرنا بغاوت کو تو فرو کر دیا گیا اور اس کے نتیجے میں ٹھہرائو پیدا ہو گیا، لیکن احتجاجی سیاست کی خواہشات اور اثرات پر نگاہ رکھنا ضروری ہے۔ہمارے اردگرد ایسے فکری اور نظریاتی دہشت گرد بھی موجود ہیں جو ہمارے دستوری نظام کو تہہ و بالا کرنے کی توقعات پالتے رہتے ہیں اور وسوسے پیدا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ دہشت گردی کے خلاف نبردآزما افواجِ پاکستان کی توجہ ان کے ہدف سے ہٹانا گناہِ عظیم ہے۔ ماضی میں جو تجربات کئے گئے، ان کا کڑوا پھل آج بھی کھانا پڑ رہا ہے۔دستور کی چھتری کے بغیر اہل حرب کی ضرب لگانے کی صلاحیت متاثر ہو جاتی ہے۔ اس کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا کہ گزشتہ پندرہ برس میں پچاس ہزار جانوں کا نذرانہ پیش کرنے اور ایک سو ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان اٹھانے کے باوجود عفریت سے نبٹنے کے لئے کوئی نیشنل ایکشن پلان تیار نہیں کیا جا سکا۔ یہ توفیق آپ ہی کو عطا ہوئی ہے کہ آج ایک مربوط اور منظم انداز میں دہشت گردی کے خلاف اقدامات کا اعلان کیا جا رہا ہے۔ یہ اور بات کہ لفظوں کو عمل کے سانچے میں ڈھالنے کے لئے بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کی جامعیت اور اس پر عمل کرنے کی رفتار کے حوالے سے سوالات موجود ہیں۔
جناب والا!
یہ درست ہے کہ زمانۂ امن میں کچھوے کی رفتار مفید بھی ہو سکتی ہے، لیکن جنگ کے دوران یہ تجربہ مہنگا پڑ سکتا ہے، یہاں دشمن کی رفتار سے تیز تر قدم بڑھا کر ہی معرکہ جیتا جا سکتا ہے۔
(باقی صفحہ 17 پر)
پاکستان میں بعض اہل ِ دانش دن رات ایک قومی بیانیے(Narrative) کی تشکیل پر زور دیتے ہیں، ان کی نکتہ طرازیوں نے اسے معمہ بنا کر رکھ دیا ہے، حالانکہ ایک ایسا مُلک جس میں ایک تحریری اور متفقہ دستور موجود ہو، اس کا بیانیہ اس کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ تمام امورِ مملکت دستور کے تحت ادا کئے جانا چاہئیں۔ بندوق کے ذریعے اپنی مرضی مسلط کرنے والا دہشت گرد ہے، وہ جہاں بھی ہو، علاقے، نسل، رنگ ، فرقے کی جو نقاب بھی اُس نے اوڑھی ہوئی ہو، اُسے بے نقاب کرنا اور کیفر کردار تک پہنچانا ہم سب کا قومی فریضہ ہے۔
جناب والا!
پاکستان میں یہ بات اب طے ہو جانی چاہئے اور ہر شخص کو اسے اچھی طرح یاد کر لینا چاہئے کہ حکومت کو ووٹ ہی کے ذریعے بننا اور ووٹ ہی کے ذریعے رخصت ہونا ہے۔ کسی ایجی ٹیشن، کسی احتجاج، سٹریٹ پاور یا غیر سٹریٹ پاورکے ذریعے حکومت کی تبدیلی کا مطلب پاکستان کے مستقبل سے کھیلنا اور اسے ماضی کی دلدل میں دھکیلنا ہے۔
جناب والا!
مَیںیہاں یہ بھی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مضبوط صحافت کے بغیر مضبوط سیاست کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان کے زیادہ تر مدیران اخبارات سرد و گرم چشیدہ ہیں، ان کا تجربہ وسیع اور نظر عمیق ہے۔ وہ آزادی اور ذمہ داری، دونوں کی اہمیت سے بخوبی آگاہ ہیں۔ سی پی این ای، مدیران اخبارات کی واحد نمائندہ تنظیم ہے اور آزادیٔ صحافت کے لئے جدوجہد کی اپنی تاریخ رکھتی ہے۔ ہمیں اس بات پر تشویش ہے کہ اطلاعات تک رسائی کے حق کو یقینی بنانے کے لئے پارلیمنٹ اب تک قانون سازی نہیں کر سکی،اخباری اداروں اور کارکنوں کے تحفظ کے لئے بھی وفاقی اور صوبائی سطح پر، خصوصاً بلوچستان میں، موثر انتظامات توجہ طلب ہیں، ہم نے کبھی اخبارات یا اخباری صنعت کے مالی مفادات کو اپنی جدوجہد کا موضوع نہیں بنایا، لیکن آج یہ بات کہنے پر مجبور ہیں کہ اگر جسد ِ خاکی کا وجود خطرے میں پڑ رہا ہو، توروحانی فیوض و برکات کے تذکرے سے آب ِ حیات حاصل نہیں کیا جا سکتا ۔ ہمارے لئے یہ امر بہت تشویش انگیز ہے کہ پرنٹ میڈیا کے لئے مختص اشتہاری بجٹ کا بڑا حصہ الیکٹرانک میڈیا کی نذر کیا جا رہا ہے۔ ہم الیکٹرانک میڈیا سے کسی حسد میں مبتلا نہیں ہیں۔ اس کی ترقی و خوشحالی کے لئے دُعا گو ہیں، اسے اپنے ہی وجود کی توسیع سمجھتے ہیں، لیکن ہماری گزارش ہو گی کہ پرنٹ میڈیا کا تاریخی حصہ محفوظ رکھتے ہوئے الیکٹرانک میڈیا کے لئے علیحدہ بجٹ مختص کیا جائے، ترقیاتی بجٹ کا کم از کم دو فیصد میڈیا کے لئے خاص کیا جانا چاہئے۔ اس کے ساتھ ہی یہ عرض بھی کرنا چاہتا ہوں کہ سی پی این ای نے اپنے تنظیمی استحکام کے لئے ایک انڈومنٹ فنڈ قائم کیا ہے، بلوچستان کے وزیراعلیٰ جناب عبدالمالک بلوچ اس کے لئے بارش کا پہلا قطرہ بنے ہیں اور 20لاکھ روپے کا عطیہ ہمیں ارسال فرمایاہے۔ ہم آپ سے کوئی مطالبہ نہیں کرنا چاہتے، لیکن یہ توقع ضرور رکھتے ہیں کہ آپ بلوچستان کے مقابلے میں وفاقی حکومت کی حیثیت کے مطابق ہمارے ساتھ تعاون ضرور کریں گے۔
جناب ِ وزیراعظم!
آپ کے نوٹس میں یہ بات لانا بھی نامناسب نہیں ہو گا کہ سی پی این ای کا مرکزی دفتر کراچی میں ہے، ایک وفاقی تنظیم ہونے کے ناتے اس کے ارکان‘ دارالحکومت سے تعلق کو مضبوط بنانا اور یہاں اپنے مرکز کی تعمیر کرنا چاہتے ہیں، اس کے لئے اگر کوئی قطعہ زمین فراہم کر دیا جائے تو ہم اِسے بصد مسرت و انبساط قبول کریں گے۔ آخر میں، مَیں اپنے ان شہید کارکنوں اور ساتھیوں کی طرف بھی آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہوں گا، جو دہشت گردی کے خلاف جنگ کی نذر ہوئے، ان کے بچوںکی تعلیم اور تربیت میں آپ کو پدرانہ شفقت کا مظاہرہ ضرور کرنا چاہئے، اس کے ساتھ ہی ساتھ کم وسیلہ اداروں میں کام کرنے والے اہل ِ قلم کے لئے انشورنس کا ایسا انتظام کرنا چاہئے جو ان کی بیماری میں علاج اور اِس دُنیا سے رخصتی کے بعد پیدا ہونے والے مصائب کا کچھ مداوا کر سکے۔ جنابِ وزیراعظم مدیران اخبارات کی بڑی تعداد کو قلم کا مزدور کہا جا سکتا ہے، ان میں سے اکثر کے پاس سر ڈھانپنے کے لئے چھت نہیںہے، لیکن کسی رہائشی بستی میں ان کے لئے کوئی کوٹا مختص نہیں ہوتا، کسی پریس کلب کے دروازے بھی ان پر اچھی طرح کشادہ نہیںہوتے۔ جنابِ وزیراعظم! مجھے امید ہے آپ کا کھلا دل ہمارے لیے اطمینان اور مسرت کا کچھ سامان ضرور کرے گا اور ہم ایک بار پھر آپ کا شرفِ میزبانی حاصل کرنے کے لئے بے تاب رہیںگے۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اورروزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں