"MSC" (space) message & send to 7575

ترک وزیراعظم کے ساتھ

ترک وزیراعظم احمد دائود اوغلو سے ملاقات کا وقت رات کے ساڑھے نو بجے کا تھا۔انہیں صدر پاکستان کے عشائیے میں شرکت کے فوراً بعد سرینا ہوٹل پہنچنا تھا، جہاں وہ قیام پذیر تھے۔ اس کے کہکشاں ہال میں سی پی این ای (کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز) کے وفد سے ملاقات کرنا تھی جس کا اہتمام ترک سفارت خانے کی طرف سے کیا گیا تھا۔ ہم نے اپنے دوست نسٹ (NUST) کے استاد احمد سہیل کو خصوصی دعوت دی تھی کہ وہ اردو کو ترکی اور ترکی کو اردو میں ڈھالنے کے فن میں طاق ہیں۔ خیال تھا کہ ان کے ذریعے تبادلہ خیال آسان ہوجائے گا... یہ اور بات کہ مہمان مکرم کی انگریزی کا دریا موجزن ہوا تو کسی کو اپنی اردو سے استفادہ کرنے کا ہوش نہ رہا۔ یہ تو ترکی کے مقابلے کے لئے تھی، سو دھری کی دھری رہ گئی۔ سوالات براہ راست انگریزی میں ڈھلتے چلے گئے۔ عالم اسلام کے ایک بین الاقوامی ادارے (یا اسلامی آرگنائزیشن کی ری آرگنائزیشن) کے حوالے سے برادرم ممتاز طاہر کا کانٹے دار سوال بھی انگریزی کا جامہ پہن کر نمودار ہوا، جس کا واضح جواب تھا کہ مسلمان ملک اپنے اندر جواب دہ حکومتیں تو قائم کرلیں ؎
چاہتے ہیں خوب روئوں کو اسد
آپ کی صورت تو دیکھا چاہئے
ساڑھے نو بجے، دس بجے، ساڑھے دس ہوئے، گھڑی کی سوئیاں حرکت کرتی جارہی تھیں، لیکن جناب وزیراعظم کی آمد کے بارے میں وثوق سے کچھ کہنا ممکن نہ تھا۔ ترک سفارت خانے اور پاکستان کے محکمہ اطلاعات کے حضرات پرنسپل انفارمیشن افسر رائو تحسین کی قیادت میں چوکس تھے۔ وزیر مہمانداری احسن اقبال بھی تشریف لے آئے تھے، سب کی نظریں دروازے پر لگی تھیں، بارہ کے چند منٹ بعد ہل چل مچی اور انتظار ختم ہوگیا۔ تکنیکی طور پر نیا دن چڑھ چکا تھا، اگرچہ طلوع آفتاب کا معاملہ دور تھا۔ بتایاجارہا تھا کہ معزز مہمان نے اپنا دو روزہ دورہ مختصر کردیا ہے، اب وہ ہماری ملاقات کے بعد واپس روانہ ہوجائیں گے۔ اگلے روز انہیں لاہور جانا تھا، لیکن جہاز کا رخ انقرہ کی جانب موڑنے کا فیصلہ کرلیا گیا تھا۔ یہ افواہ بھی گردش کررہی تھی کہ لاہور میں پولیس لائنز کے دروازے پر ہونے والے خود کش دھماکے نے سکیورٹی کے حوالے سے سوال اٹھادیا ہے، لیکن پاکستانی اور ترک حکام اس کی تردید کررہے تھے، ان کا کہنا تھا کہ انقرہ میں منعقد ہونے والے ایک اہم اجلاس کی وجہ سے دورہ مختصر کیا گیا ہے۔ واقعاتی طور پر دیکھیں تو جناب احمد دائود نے ایک دن ہی میں سے دو برآمد کرلئے تھے۔ صبح پانچ بجے پاکستان پہنچنے کے بعد وہ رات کے بارہ بجے تک مصروف کار تھے، ایک ورکنگ ڈے آٹھ گھنٹے کا ہوتا ہے اور انہیں انیس گھنٹے سے زیادہ ہوچکے تھے۔
وزیراعظم ہشاش بشاش کمرے میں داخل ہوئے، ایک ایک شخص سے ہاتھ ملایا اور بیٹھتے ہی معذرت کا اظہار کیا، تو انتظار کی کوفت ختم ہوگئی۔ ان کے ساتھ وزرائے کرام، اعلیٰ حکام، میڈیا اور کاروباری حضرات کا ایک بڑا وفد آیا ہوا تھا، لیکن کمرۂ ملاقات میں چند حضرات ہی داخل ہوئے، وہ یقینا وزیر یا ارکان اسمبلی تھے، انہیں دیکھ کر جناب وزیراعظم نے کہا، میرے ساتھ جب لوگ سفر پر آتے ہیں تو اول تو انہیں خوشی ہوتی ہوگی، لیکن بعد میں پتہ چلتا ہے کہ یہ تفریح یا آرام کا نہیں، کام، کام اور کام کا معاملہ ہے۔ 54 سالہ پروفیسر احمد، خوش حال ترکی کے معمار طیب اردوان کے چیف ایڈوائزر رہے، وزیر خارجہ بنے اور ان کے عہدۂ صدارت سنبھالنے کے بعد اے ۔ کے پارٹی کی مجلس انتظامیہ نے اتفاق رائے سے انہیں وزیراعظم نامزد کردیا۔ وہ صدر طیب کا بھرپور اعتماد رکھتے اور انہی کی سیاست (اور ذات) کی توسیع سمجھے جاتے ہیں۔ عالم اسلام کی وحدت ان کا خواب ہے۔ مسلمان ملکوں کی آمریتیں انہیں اپنا رقیب سمجھتی ہیں۔ انہوں نے وزیر خارجہ کے طور پر مصر میں اخوان المسلمون کی حکومت کے خاتمے کی جس طرح مذمت کی، اس کی وجہ سے جنرل السیسی اور ان کے ہم نوا انہیں غضب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، جبکہ مسلمان عوام اور اہل ِ دانش میں ان کی اس ادا نے انہیں اور ترکی کو اعتبار اور وقار کا ایک خصوصی مقام عطا کردیا ہے۔ تاریخ پر پروفیسر احمد کی گہری نظر ہے، پاکستانی سیاست کا کوئی گوشہ بھی ان کی نگاہ سے اوجھل نظر نہیں آیا۔ انہوں نے ایک پروفیسر کے مخصوص انداز میں گفتگو شروع کی اور سامعین کو مبہوت کر دیا۔ پاکستان ان کے لئے اجنبی نہیں، لیکن وزیراعظم بننے کے بعد ان کا یہ پہلا دورہ تھا۔ انہوں نے برملا کہا کہ یہ ہماری ایک تاریخی روایت ہے کہ اقتدار سنبھالنے کے بعد اولین کاموں میں سے ایک پاکستان کا دورہ ہوتا ہے۔ مَیں اسی ''فریضے‘‘ کی تکمیل کے لئے یہاں آیا ہوں۔ انہوں نے پاکستانی سیاست کو اچھوتے انداز میں موضوع گفتگو بنایا... مَیں نے یہاں پہنچ کر اخبارات میں ایک تصویر دیکھی ہے جس نے مجھے بہت مطمئن اور مسرور کیا ہے۔ کراچی میں وزیراعظم نواز شریف، چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری ایک ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں۔ یہ پاکستانی جمہوریت کے لئے نیک فال ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مل جل کر کام کیا جارہا ہے، ایک دوسرے کو شریک کار کرنا ہی جمہوریت کی روح ہے۔
وزیراعظم احمد نے عالمی سیاست، عالم اسلام میں جاری کشمکش، اے کے پارٹی کی فتوحات، ترک معیشت کی ترقی اور اس کے نتیجے میں وہاں پیدا ہونے والے استحکام پر تفصیل سے گفتگو کی۔ اس کے بعد سوالوں کا سامنا بھی خوشگوار ماحول میں کیا۔ نوے منٹ تک بے تکان بات چیت کرتے رہے۔ احسن اقبال اور ترک میڈیا ایڈوائزر میرے کانوں میں یہ ''فرمائش‘‘ بار بار انڈیل رہے تھے کہ اس سلسلے کو تھاما جائے، لیکن مہمان خصوصی کی طرف سے کوفت یا بوریت کا کوئی احساس نہیں ہورہا تھا۔ اس ملاقات کے فوراً بعد وہ ہوائی اڈے روانہ ہوگئے، جہاں سے انہیں اپنے دوسرے گھر جانا تھا کہ پاکستان کو تو وہ اپنا پہلا گھر قرار دے چکے تھے، اسلامیان برصغیر کے ساتھ تحریک خلافت کے دوران قائم ہونے والے رشتے اب بھی تروتازہ تھے، ڈاکٹر اقبال لاہوری بھی ان کو اچھی طرح یاد تھے کہ ان کے کام نے انہیں منزل کا تعین کرنے میں مدد دی، ان کے شہر میں آنے کا وعدہ انہوں نے کرلیا تھا اور ساتھ ہی سی پی این ای کے وفد کو ترکی آنے کی دعوت دے ڈالی تھی کہ وہاں تبادلہ ٔ خیال ذرا تفصیل سے ہوسکے گا... انہوں نے جو کچھ کہا، اس کا خلاصہ چند الفاظ میں یہی تھا کہ عالم اسلام کو نہ تو داعش جیسے انتہا پسندوں کی، اور نہ ہی جنرل السیسی اور بشارالاسد جیسے حکمرانوں کی ضرورت ہے۔ اس کی ضرورت وہ ماڈل ہے جو ترکی سے ابھرا ہے، انڈونیشیا میں برگ و بار لارہا ہے اور پاکستان میں جس کے غالب امکانات موجود ہیں۔ لوگوں کی رائے کے ذریعے حکومت کا قیام اور پھر ان کے سامنے جواب دہی‘ اسی سے آگے بڑھا جا سکتا ہے، معاشی ترقی ممکن ہے۔ ترکی نے یہ کردکھایا ہے، اس کی قومی پیداوار گزشتہ عشرے میں تین گنا ہوچکی ہے، فوج اور بیورو کریسی نے بھی ہماری جمہوریت کو ایک زندہ حقیقت کے طور پر تسلیم کرلیا ہے۔ ایک زمانے میں (پاکستان ہی کی طرح) صدارت کے منصب کو فوج کے ساتھ خاص سمجھ لیا گیا تھا، لیکن اب عوام نے براہ راست ووٹوں سے اپنا صدر چُنا ہے۔ تاریخ اور سیاست کا گہرا شعور رکھنے والے احمد دائود اوغلو کا اصرار تھا کہ نتیجہ خیز (پرفارمنگ) جمہوریت ہی اپنی حفاظت کرسکتی ہے اور اپنے عوام کی بھی۔
(یہ کالم روزنامہ '' دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں