سابق صدر آصف علی زرداری نے اسلام آباد میں پیپلزپارٹی کے ''قبائلی جرگے‘‘ سے خطاب کیا کِیا کہ طوفان اُٹھا دیا۔ کالے بادل امڈ امڈ کر آتے اور چھاتے نظر آئے۔ جنابِ زرداری کہ جن کے صبر، ضبط اور تحمل کی دھوم تھی، خدا معلوم کہاں کہاں نکل گئے۔ کس کس کوچے میں کیا کیا آواز لگا آئے: ؎
وہ شیفتہ کہ دھوم تھی حضرت کے زہد کی
مَیں کیا کہوں کہ رات مجھے کس کے گھر ملے؟
یوں لگا کہ مفاہمت کی سیاست سے ان کا ایمان اُٹھ گیا ہے، وہ لنگر لنگوٹ کس کر میدان میں کھڑے ہیں۔ للکار رہے ہیں کہ کوئی ہم سا ہے تو سامنے آئے۔ فوجی جرنیلوں کو انہوں نے آڑے ہاتھوں لیا اور خبردار کیا کہ ہماری کردار کشی کی جائے گی، تو ہم1947ء کے بعد کا سارا حساب نکال کر لے آئیں گے: ہم نے سب کا کلام دیکھا ہے... ہے ادب شرط مُنہ نہ کھلوائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں تنگ نہ کرو، ورنہ اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے، جس دن مَیں کھڑا ہو گیا، صرف سندھ نہیں کراچی سے فاٹا تک سب بند ہو جائے گا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ ہمارا ادارہ ہے، ہماری آرمی ہے۔ تمہارا کیا ہے، تم تو تین سال گزار کر چلے جائو گے‘ یہ مُلک ہمارا ہے، ہم نے یہاں(مستقل) رہنا ہے۔
یہ الفاظ زبان سے ادا ہوئے ہی تھے کہ بھونچال آ گیا۔ چودھری نثار علی مذمت کے لئے میدان میں نکل آئے، جبکہ دور و نزدیک تشویش کی لہر دوڑ گئی، جو بول نہیں پا رہے تھے وہ بھی سوچ میں گم تھے کہ کیا ماجرا ہو گیا؟... لیکن جو کچھ عرصہ سے کراچی کے معاملات پر نظر رکھے ہوئے تھے، وہ بھانپ رہے تھے کہ سندھ حکومت اور رینجرز کسی بھی وقت تلواریں نیام سے نکال کر لہرا سکتے ہیں یا یہ کہیے تو مناسب ہو گا کہ جو تلواریں نیام سے نکالی جا چکی ہیں، وہ کسی بھی وقت لہرا، بلکہ ٹکرا سکتی ہیں، اور(بالآخر) کشتوں کے پشتے لگا سکتی ہیں۔کراچی ایک عرصے سے لہولہان تھا، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان، سٹریٹ کرائم ،غرض دُنیا کا کون سا دھندا تھا، جو وہاں پورے جوبن پر نہ ہو، اور جس کے سامنے عام شہری کپکپا نہ رہے ہوں۔ یہ باتیں عام کہی اور سنی جا رہی تھیں کہ سندھ میں جرم اور سیاست جڑواں بہنیں ہیں، ایک دوسرے سے چپکی ہوئی۔ جرم سیاست کو فروغ دے رہا ہے اور اس کے لئے وسائل بھی فراہم کر رہا ہے، جبکہ سیاست جرم کا تحفظ کر رہی ہے، اس کے چوکیدارے میں مصروف ہے۔ ہر سیاسی جماعت پہ انگلیاں اٹھائی جاتی تھیں اور اُس کی بکل میں لٹیروں کی موجودگی کی نشاندہی ہو رہی تھی۔ سرکاری دفاتر کرپشن کے اڈے بن چکے تھے،اور اقتدار کو حصول زر کا ذریعہ بنا لیا گیا تھا۔ ایسی ایسی کہانیاں(نجی مجلسوں میں) سننے کو ملتی تھیں کہ الامان و الحفیظ... آنکھیں بہت کچھ دیکھ رہی تھیں، لیکن آنکھوں کی گواہی پر عدالتیں فیصلے صادر کرنے سے انکاری تھیں۔یہ شعر سنا تو کئی بار تھا ؎
وہی منصف، وہی قاتل، وہی شاہد ٹھہرے
اقربا میرے کریں، خون کا دعویٰ کس پر
لیکن اس کی عملی تصویر سامنے تھی۔ کراچی اور اس کے اِردگرد پھیلا ہوا سندھ... مُلک کے دوسرے حصوں میں بھی دہشت گردی اور لوٹ مار زندگی کو اجیرن بنائے ہوئے تھے، لیکن خدا لگتی یہی ہے کہ کراچی کا حصہ بقدر جثہ تھا۔ دوسرے سب شہروں سے جتنا یہ شہر بڑا ہے اتنا ہی جرم اس میں بڑھا ہوا تھا۔
وزیراعظم نواز شریف نے برسر اقتدار آنے کے بعد اس طرف توجہ دی، پیپلزپارٹی سمیت ساری سیاسی جماعتوں کو ساتھ ملا کر قیام امن کے لئے کارروائی کا آغاز کر دیا گیا۔ وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ اس میچ کے کپتان قرار پائے کہ ان کی مرضی کے بغیر معاملات رینجرز کے سپرد کئے جا سکتے تھے، نہ فوج کو دخل اندازی کی اجازت مل سکتی تھی۔اول اول ایم کیو ایم کو پریشانی لاحق رہی۔ اُس کے مرکزی دفتر سے قانون کو مطلوب افراد برآمد ہوئے تو تمام تر جاہ و جلال کے باوجود کڑوا گھونٹ نگلنا پڑا۔ سیاسی بڑھکیں جو کچھ بھی ہوں، ان کے پیچھے اخلاقی استدلال نہ رہے تو اٹھایا ہوا طوفان چائے کی پیالی میں غرق ہو جاتا ہے۔ ایم کیو ایم کو شکایات اب بھی ہیں لیکن رینجرز کی کریڈیبلٹی کم نہیں ہونے پائی۔ دہشت گردوں اور دہشت گردی کا تعاقب کرتے ہوئے ان کو مالی کمک فراہم کرنے والوں تک ہاتھ پہنچا۔ رینجرز کی طرف سے یہ کہا جانے لگا کہ سندھ حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر پا رہی۔ اس کے تساہل یا چشم پوشی یا سرپرستی سے مافیاز کو تحفظ ملا ہوا ہے۔ کہتے ہیں ''اپیکس کمیٹی‘‘ کی ایک نشست میں وزیراعلیٰ قائم علی شاہ نے اپنے عہدے سے دستبرداری کی پیشکش بھی کر دی، لیکن جناب زرداری اس پر برہم ہو گئے، ان کے خیال میں اس کا کوئی جواز نہیں تھا۔ فوجی حکام سے بھی انہوں نے درشت لہجے میں بات کر کے درشت جواب حاصل کر لیا، اور اس وقت میدان چھوڑ گئے۔
کور کمانڈر کراچی اور ڈی جی رینجرز نے سرعام انگلیاں اٹھا دیں، معاملہ یہاں رکا نہیں، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے دفتر تک پہنچا۔ اس کے ڈائریکٹر جنرل منظور کاکا کی تلاش شروع ہوئی، لیکن وہ بچ کر نکل چکے تھے۔ اب مختلف محکموں میں چھاپے مارے جا رہے ہیں، گرفتاریاں جاری ہیں طرح طرح کے الزامات سامنے آ رہے ہیں اور بلاول ہائوس بھی لپیٹ میں آ رہا ہے۔
وزیراعظم نواز شریف، جناب زرداری کے موقف کو تسلیم نہ کرنے کا اعلان کر کے اپنا راستہ بدل چکے ہیں۔ دونوں رہنمائوں کی طے شدہ ملاقات کو موخر کر کے انہوں نے کوئی لگی لپٹی نہیں رکھی۔کسی سیاسی رہنما نے جناب زرداری کے موقف کی حمایت نہیں کی، ان کی طلب کردہ ''افطار پارٹی‘‘ بھی گو مگو کا شکار رہی۔ پیپلزپارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو نے ان کے پلڑے میں وزن ڈالا ، لیکن احتیاط کے ساتھ۔ قمر زمان کائرہ زور لگا کر کہہ چکے ہیں کہ زرداری صاحب کی گفتگو کو فوج پر حملہ نہ سمجھا جائے۔ ہم تصادم نہیں چاہتے، صرف یہ واضح کرنا مقصود تھا اور ہے کہ ہر ادارے کو اپنی اپنی آئینی حدود میں کام کرنا چاہئے۔شیری رحمن بھی موجودہ فوجی قیادت کے واری جا رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ زرداری صاحب کا ہدف سابق فوجی آمر تھے‘ اسے عذر گناہ بدترازگناہ کہا جا سکتا ہے، لیکن فی الحال ایسا کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ڈی جی رینجرز کے نام خط میں وزیراعلیٰ قائم علی شاہ یہ اعتراض اُٹھا چکے ہیں کہ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے دفتر میں جا کر رینجرز کو دیئے گئے مینڈیٹ کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ یہ خبر بھی آئی ہے کہ پیپلزپارٹی کے اندر سندھ کی وزارت ِ اعلیٰ میں تبدیلی کا معاملہ زیر بحث ہے۔ بہرحال، جو بھی کہا جائے، اور جو بھی وضاحت دی جائے، یہ ایک حقیقت ہے کہ فاصلہ پیدا ہو چکا ہے... دہشت گردی کا جو چیلنج درپیش ہے اس کا تقاضا ہے کہ سیاسی اور فوجی حکام آمنے سامنے نہیں، ساتھ ساتھ کھڑے ہوں۔ کارروائی ملزموں تک محدود رہے، اور اہل ِ سیاست کو (وسیع تر معنوں میں) لپیٹ میں نہ لیا جائے۔ جرم اور سیاست کو الگ الگ کرنا ضروری ہے، لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ ماضی کو دہرایا نہ جا سکے۔دفاع اور سیاست کے ادارے ایک دوسرے کا متبادل نہیں، معاون ہیں۔ ریاست کے وسیع تر مفاد میں یہ تعاون جاری رہنا چاہئے۔یاد رکھئے‘ مافیاز کے تحفظ کے لئے آئین کی چھتری کا استعمال جاری رکھا گیا تو آئینی ادارے اپنی ساکھ کھوتے جائیں گے۔ ڈوبتی ہوئی ساکھ کو وکیلوں کے دلائل آب حیات پلا سکتے ہیں، نہ اہل سیاست کا واویلا۔
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)