اِس سال یوم آزادی...14اگست کو غیر معمولی جوش و خروش سے منایا گیا۔ چمن سے کوئٹہ اورکوئٹہ سے پشاور اور طور خم تک جشن کا سماں تھا۔ سورج کی پہلی کرن سے لے کر رات کے انتہائی لمحوں تک مسرت کا اظہار دیدنی تھا۔ پاک فوج کے چوکس جوانوں نے وفاقی اور صوبائی دارالحکومتوںمیں توپ کے گولے داغ کر تقریبات کے جس سلسلے کا آغاز کیا تھا، اُس نے رات کو بھی اُجالوں میں تبدیل کیے رکھا۔ تاجران ِ کراچی کے صدر نے تو خوشی سے پھولتے ہوئے یہ اطلاع بھی دی کہ اس شہر میں اس دن پانچ ارب روپے کا کاروبار ہوا۔ چالیس سال کے بعد پہلی بار یہ گہما گہمی دیکھنے میں آئی۔ مستقبل میں یہاں بسائے جانے والے بحریہ ٹائون کے جنگل میں منگل کا سماں یوں دیکھنے میں آیا کہ ڈیڑھ لاکھ افراد نے وہاں برپا موسیقی میلے میں شرکت کی، جھوم جھوم کر آزادی کے ترانے گائے اور سُنے۔ دہشت گردوں کو کسی جگہ کوئی واردات کرنے کا حوصلہ نہ ہو سکا۔ کوئٹہ سے تو 400جنگجوئوں نے ہتھیار ڈال کر پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے اور خوشیوں کو دوبالا کر دیا۔ زیارت میں قائداعظم ریذیڈنسی اپنی اصلی صورت میں بحال ہوئی اور وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک نے وہاں ایک پُرجوش تقریب سے خطاب کیا۔ جنوبی کمان کے کماندار لیفٹیننٹ جنرل ناصر جنجوعہ نے کوئٹہ میں پُر مغز خطاب سے دِلوں کو نیا حوصلہ بخشا اور نوجوان وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے مستقبل پر نظریں جماتے ہوئے، ستاروں پر کمندیں ڈالنے کا پیغام دیا۔
ذرائع ابلاغ میں مایوس کن سوال اٹھانے والے نظر تو آتے رہے، لیکن ان کے چہرے اُترے ہوئے اور آواز دبی ہوئی تھی۔جنرل راحیل شریف کو تمام تر کریڈٹ دینے والے کم نہیں ہیں، لیکن وزیراعظم نواز شریف کی ثابت قدمی کا اعتراف کئے بغیر بھی چارہ نہیں۔ ان دونوں کو ایک دوسرے کے مقابل کھڑا کرنے والے بھی سرگرم رہے اور انہیںایک ہی ریاست کے جانباز قرار دینے والے بھی اپنے وجود کا احساس دلاتے رہے۔ اس میں کیا شک ہے کہ جنرل ر احیل شریف اس وقت شہرت اور عزت کے قابل ِ رشک مقام پر فائز ہیں۔ آپریشن ضربِ عضب سے لے کر کراچی میں کیے جانے والے اقدامات اور بلوچستان سے لے کر پنجاب تک آگے بڑھ کر وار کرنے کی صلاحیتوں نے مایوسیوں کو امیدوں میں بدل ڈالا ہے۔ لسانی، علاقائی اور فرقہ وارانہ دہشت گردوں پر زمین تنگ ہو چکی ہے اور پاکستانیت ایک نئی طاقت کے ساتھ اُبھر رہی ہے۔ لندن میں ایم کیو ایم کی قیادت کبابِ سیخ کی صورت پہلو بدلنے میں مصروف ہے اور پاکستان میں بسنے والے اُس کے کارندوں نے اسمبلیوں سے استعفے دے ڈالے ہیں۔ ان کی جائز شکایات کا ازالہ کیا جانا چاہئے، لیکن کراچی آپریشن کو روکنے کی بات کرنے کی جرأت کسی کو نہیں ہو رہی۔ یہاں آنے والی جوہری تبدیلی نے اپنا آپ منوا لیا ہے اور جان ہتھیلی پرر کھ کر شہریوں کو سکون دینے والے سکیورٹی ادارے عام آدمی کی آنکھ کا تارا بنے ہوئے ہیں۔
یہ کہنا غلط نہیںہو گا کہ فوجی قیادت اس یکسوئی سے اپنا کام جاری نہیں رکھ سکتی تھی، اگر وزیراعظم نواز شریف اور دوسرے سیاسی رہنما دیوار بنا کر اس کے عقب میں نہ کھڑے ہوتے۔ سیاسی قیادت نے گو مگو سے نکل کر دو ٹوک فیصلے کیے ہیں، پیپلزپارٹی کے رہنما بھی لڑکھڑاتے لڑکھڑاتے سنبھل گئے۔ ان کو بھی آنکھیں کھول کر دیکھنا پڑا ہے کہ اچھی حکومت کاری کے بغیر ان کا اپنا مستقبل دائو پر لگا رہے گا۔ پاکستان ماضی میں سیاسی اور فوجی قیادتوں کے درمیان بے اعتمادی کا مزا چکھ چکا ہے۔ اب وہ اس کا مزید متحمل نہیں ہو سکتا،جو لوگ فوج کو جملہ ریاستی ذمہ داریاں سنبھالنے پر اُکساتے ہیں ان کا شمار بھی (غیر شعوری) دہشت گردوں ہی میں کیا جانا چاہئے۔ اگر وہ باز نہ آئیں تو ان کے ساتھ سلوک بھی یہی کرنا ہو گا کہ لاقانونیت کی کوکھ ہی سے دہشت گردی برآمد ہوتی ہے۔
14اگست کے حسین لمحات میں ایک وفاقی وزیر مشاہد اللہ خان کے الفاظ نے تلخی گھول دی اور یہ خوشی زائل ہو گئی کہ آج کا دن کسی خود کش دھماکے کی خبر کے بغیر گزر گیا ہے۔ خان صاحب نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ (سابق) ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام، وزیراعظم نوازشریف اور جنرل راحیل شریف،دونوں کا تختہ الٹنا چاہتے تھے۔ ان کی گفتگو کی ایک ٹیپ وزیراعظم نے جنرل راحیل کو سنائی تھی،جس پر انہیں (میٹنگ میں) طلب کیا گیا تو ان کو اقرار کرتے ہی بنی۔ وزیراعظم ہائوس اور آئی ایس آئی کی طرف سے اس کی فی الفور تردید کر دی گئی، وزیر موصوف مالدیپ روانہ ہو گئے تھے، اِس لئے ان کا فون بند پایا گیا۔ اس پر ایک نئی بحث چھڑ گئی اور سوالات اٹھائے جانے لگے کہ اگر وزیراعظم اور چیف آف آرمی سٹاف دونوں تصدیق کر چکے تھے تو پھر قانون کو فوری طور پر حرکت میں کیوں نہ لایاگیا؟ مشاہد اللہ خان مسلم لیگ(ن) کے ایک تصدیق شدہ جیالے ہیں، لیکن ان کے اس خود کش حملے نے کس کس کو اور کہاں کہاں زخم لگایا ہے، اس کا اندازہ ہر وہ شخص بخوبی کر سکتا ہے، جس کی کھوپڑی میں اللہ تعالیٰ نے تھوڑا سا بھیجا بھی ڈال رکھا ہے۔
(یہ کالم روزنامہ '' دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)