بلوچستان میں حساس اداروں نے ایک بڑی کارروائی کرتے ہوئے بھارتی خفیہ ایجنسی ''را‘‘ کا ایک بڑا ایجنٹ گرفتار کر لیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ یہ بھارتی بحریہ میں کمانڈر تھا، اور ان دِنوں اس کی خدمات ''را‘‘ نے حاصل کر رکھی ہیں۔ اس کا نام کل بھوشن یادیو بتایا گیا ہے۔ بلوچستان میں یہ حسین مبارک پٹیل کے فرضی نام سے مصروفِ عمل تھا۔ مختلف تجزیہ کاروں کے مطابق یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے، اور اس سے بھارتی ایجنسی کی پاکستان میں مداخلت کا ایک انتہائی کھلا ثبوت ہاتھ لگ گیا ہے۔ اس شخص کے قبضے سے دستاویزات اور نقشے بھی برآمد ہوئے ہیں، اور دورانِ تفتیش اس نے اپنی سرگرمیوں کی تفصیل سے بھی آگاہ کیا ہے۔ اِس کے بلوچستان میں سرگرم علیحدگی پسند عناصر اور فرقہ وارانہ تصادم کے لیے کام کرنے والی ایک مذہبی تنظیم سے بھی روابط تھے۔ اسے بذریعہ طیارہ اسلام آباد منتقل کر دیا گیا ہے، جہاں اِس سے تفتیش جاری رہے گی، اور باخبر ذرائع کے مطابق مزید حیرت انگیز معلومات ملنے کی توقع ہے۔
اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ حسین مبارک پٹیل کی بے نقابی اور گرفتاری انتہائی غیر معمولی واقعہ ہے۔ بھارت نے مان لیا ہے کہ کل بھوشن بھارتی نیوی کا افسر تھا جو اب ریٹائر ہو چکا ہے۔ بھارت نے قونصلر کی سطح پر رسائی بھی مانگی ہے‘ جو بظاہر اپنی ''چہرہ بچائی‘‘ کی کوشش ہی لگتی ہے۔ جہاں تک پاکستان کے معاملات میں بھارتی خفیہ اداروںکی مداخلت کا تعلق ہے، اِس بارے میں (پاکستان کے اندر تو کم از کم) دو آرا نہیں ہیں۔ تاریخ کا جائزہ لیں تو قدم قدم پر اس کا ثبوت فراہم ہو گا۔ مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی تحریک کی بنیاد رکھنے، اسے بڑھاوا دینے اور پھر منطقی نتیجے تک پہنچانے میں بھارتی کردار کے دستاویزی ثبوت اب پوری دُنیا کے سامنے ہیں۔ بھارت کے اپنے فوجی اور غیر فوجی اہلکاروں کے قلم سے سب کچھ منظر عام پر آ چکا ہے۔ اگرتلہ سازش کیس سے لے کر پلٹن میدان کے وقوعے تک واقعات کا ایک تسلسل ہے، بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ مشرقی پاکستان میں زبان کے نام پر چلنے والی تحریک کے بعد سے اگرتلہ سازش تک موجود کڑیاں جوڑی جا چکی ہیں۔ چند ماہ پہلے وزیر اعظم نریندر مودی بنگلہ دیش گئے تو انہوں نے بنگلہ دیش کی آزادی (یا پاکستان سے علیحدگی) کی تحریک میں بھارت کے اور اپنے کردار کا بڑے فخر سے تذکرہ کیا، اور آنے والی نسلوں کو بھی اسے یاد رکھنے کا مشورہ دیا۔
سندھ پر بھی ''را‘‘ کی خصوصی توجہ رہی ہے۔ بلوچستان میں کئی برسوں سے جو کچھ ہو رہا ہے، وہ اب اپنی شہادت آپ دے رہا ہے۔ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی جب اپنے دورِ اقتدار میں مصر گئے تھے تو شرم الشیخ میں ان کی ملاقات اپنے بھارتی ہم منصب من موہن سنگھ سے ہوئی تھی، انہوں نے انہیں اس طرف اس کامیابی سے متوجہ کیا تھا کہ مشترکہ اعلامیے میں اس مسئلے نے باقاعدہ جگہ پا لی تھی۔ بھارتی وزیر اعظم جب واپس پہنچے تو میڈیا اور مخالفانہ سیاست نے انہیں آڑے ہاتھوں لیا، اور بلوچستان میں بھارتی مداخلت کو باقاعدہ مذاکرات کا حصہ بنانے پر خوب لتے لئے، اور وہ دبک کر رہ گئے۔ مودی جی مہاراج کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر اجیت دوول بھی خفیہ اداروں میں کام کرنے کی تاریخ اور خصوصی مہارت رکھتے ہیں، اور اس حوالے سے ان کی کارگزاریوں کا تذکرہ عام ہے۔ وہ پاکستان میں بھی انڈر کور کام کرتے رہے ہیں۔ ان کی ایک تقریر تو سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے، جس میں وہ پاکستان کے اندر بہت کچھ کر دکھانے کے عزم کا اظہار کر رہے ہیں، اور اس مقصد کے لیے طالبان کو بھی امرت دھارا قرار دے رہے ہیں۔ ''انڈیا ٹو ڈے‘‘ میں گزشتہ ماہ بھارت کے ایک سابق ڈپٹی نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر ستیش چندرا نے ڈنکے کی چوٹ لکھا کہ بھارت کو اپنے افغان دوستوں کی مدد سے بلوچستان میں لازماً حرکت کرنی چاہئے۔ پاک چین راہداری کے حوالے سے بھی بھارتی بے چینی کی کہانیاں منظر عام پر آ رہی ہیں، اور یہ بات برملا کہی جا رہی ہے کہ اس منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے فنڈز بھی مختص کر دیے گئے ہیں، اور کارندے بھی۔
ایم کیو ایم کے بعض عناصر کے ''را‘‘ کے ساتھ روابط بھی کسی ثبوت کے محتاج نہیں۔ سکاٹ لینڈ یارڈ اور لندن پولیس کی جو دستاویزات سامنے آئی ہیں وہ اپنا ثبوت آپ ہیں۔ ایم کیو ایم کے مختلف رہنمائوں کے اعترافی بیانات ان کا بھانڈا پھوڑ چکے ہیں۔ اس جماعت کے باغیوں کی زبان پر بھی ان سب معاملات کی تفصیل موجود ہے، اور توقع لگائی جا رہی ہے کہ برطانوی اداروں کے لیے اس سب کچھ کو ہضم کرنا بہت مشکل ہو گا۔ قدرت کے ڈھنگ نرالے ہیں، ایم کیو ایم کے بہت سے افراد نے برطانیہ کو ''محفوظ جنت‘‘ سمجھ کر وہاں ڈیرہ جمایا تھا۔ جب الطاف حسین صاحب کو برطانوی شہریت ملی تو اس کا دُنیا بھر میں جشن منایا گیا، لیکن اب یہ کہنے والے کم نہیں ہیں کہ برطانیہ کو اپنا وطن بنانے والے دراصل اللہ کی پکڑ سے دوچار ہونے والے تھے۔ قدرت نے ان کے لیے ایسا جال بچھایا تھا، جو بہت سنہری نظر آ رہا تھا، لیکن اب اس میں تڑپتے پھڑکتے انہیں صاف دیکھا سکتا ہے۔ برطانیہ میں جو کچھ کہا گیا، اور کیا گیا، اگر وہ پاکستانی اداروں کی طرف سے سامنے آتا تو اس کے خلاف آسمان سر پر اٹھا لیا جاتا، لیکن ع
حذر اے چیرہ دستاں سخت ہیں فطرت کی تعزیریں
پاکستان کے حفاظتی اداروں کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ صورتِ حال سے نبٹنے کی اپنی سی کوشش کر رہے ہیں، لیکن معاملہ کہیں زیادہ گمبھیر ہے۔ انتظامی کارروائیاں ضروری ہیں، لیکن کافی نہیں ہیں۔ ہمیں اپنے اندر موجود ''فالٹ لائنز‘‘ کی خود خبر لینا ہو گی۔ میڈیا اور سیاست کو اپنے آپ پر گہری نظر رکھنا ہو گی کہ اختلافات کو ہَوا دینے اور پاکستانی ریاست کو کمزور کرنے والے عناصر سرگرم نہ ہونے پائیں۔ مذہب، نسل، علاقے اور رنگ کے نام پر ایک دوسرے پر چڑھ دوڑنے والوں، اور ریاستی اداروںکو کمزور کرنے والوں کو بہرصورت لگام دینا ہو گی۔ جہاں یہ ضروری ہے کہ پاکستان کے دستور کی بالادستی بہرقیمت برقرار رکھی جائے، وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ بدنظمی اور افراتفری کے فروغ کی اجازت کسی کو نہ ہو۔ اہل سیاست ایک دوسرے کا مُنہ کالا کرنے سے باز رہیں، اور سیاسی اختلافات کے اظہار کے قرینے ملحوظ خاطر رکھیں۔ دشمن کے عزائم جو بھی ہوں، اگر انہیں ناکام بنانے کے لیے ہمہ جہتی کوشش جاری رہے گی تو پھر اس کے دانت کھٹے رہیں گے، لیکن اگر اس کے ایجنڈے کو بروئے کار لانے والے، دستوری ترتیب کو تہہ و بالا کرنے کی خواہش رکھنے والے، دستورِ پاکستان کا مذاق اڑانے والے سیاست اور صحافت کو اپنا آلۂ کار بنا گزریں گے، تو پھر دشمن کے راستے میں ''ریڈ کارپٹ‘‘ بچھا دیا جائے گا۔ اجتماعی نظم کو برباد کرنے کی خواہش رکھنے والے دراصل ''حسین مبارک پٹیل‘‘ کی نقاب اوڑھنے والے ''کل بھوشن یادیو‘‘ ہیں... اچھی طرح ان کو پہچان لیا جائے۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)