"MSC" (space) message & send to 7575

ٹیکس وصول کئے بغیر

وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بڑے اعتماد اور مسرت کے ساتھ قومی اسمبلی میں نئے سال کا بجٹ پیش کیا اور اپنے مخالفوں کو بھی تالیاں بجانے پر اُکساتے رہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ زراعت کو خصوصی توجہ کا مستحق گردانا گیا ہے۔ کپاس کی کم پیدوار نے جی ڈی پی(مجموعی قومی پیداوار) کی شرح نمو کا ہدف حاصل کرنا جس طرح ناممکن بنا دیا، اس کا تقاضہ تھا کہ کاشتکاروں کی طرف توجہ دی جاتی، اور ان کی پیداواری لاگت کو کم کرنے کی سعی کی جاتی۔ سو، اس حوالے سے متعدد اقدامات کئے گئے۔ وزیر خزانہ کو اس لحاظ سے کامیاب کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے نئے ٹیکسوں کا کوئی بڑا بوجھ نہیں لادا، تنخواہ دار طبقے کو کچھ ریلیف دی، اور یوں مہنگائی کا وہ طوفان جس کا خدشہ ہر سال جون میں محسوس ہوتا ہے، سر سے ٹل گیا۔
تنقید تو بہت ہو سکتی ہے اور حزب اختلاف کے رہنمائوں نے فوراً مخالفانہ بیانات جاری بھی کر دیئے، لیکن ہماری سیاست اور معیشت کی مجموعی حالت اور کیفیت کو مدنظر رکھا جائے تو پھر قدح (یا مدح) سے مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔4395ارب روپے کے بجٹ میں1360ارب قرضوں کی ادائیگی میں اُٹھ جائیں گے۔860 ارب روپے دفاع پر خرچ ہوں گے۔800ارب روپے ترقیاتی پروگرام کے لئے مختص کئے گئے ہیں۔ حکومت کی کل آمدنی کا اندازہ4915ارب روپے لگایا گیا ہے۔ اس میں سے2136ارب روپے صوبوں کو پیش کر دیئے جائیں گے۔ 2781ارب روپے وفاقی خزانے میں رہیں گے۔ خسارے کو پورا کرنے کے لئے قرض حاصل کرنا پڑے گا اور توقع رکھنا پڑے گی کہ ''رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن‘‘۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ آمدنی کے مطابق خرچ نہیں ہو گا، خرچ کے مطابق آمدن کی سعی ہو گی، چادر کے مطابق پائوں نہیں پھیلائے جا سکتے، اس کے لئے مانگے تانگے کی کوئی اور چادر فراہم کرنا ہو گی۔ پاکستانی معیشت ایک عرصے سے قرضوں پر چل رہی ہے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں ان کے بڑے حریف اور پاکستان کے سابق وزیراعظم چودھری محمد علی(مرحوم) کہا کرتے تھے کہ ایک زمانہ آئے گا، ہمیں قرضوں کی واپسی کے لئے مزید قرض لینے پڑا کریں گے، تو حکومت کے حامی اسے ان کی قنوطیت قرار دے کر مسترد کر دیتے تھے۔ کئی سال تک اخراجات کی سب سے بڑی مد دفاع کی ہوا کرتی تھی، لیکن پھر یہ ہوا کہ قرضوں کی مقدار بڑھتی گئی، اور آئندہ سال کے بجٹ میں بھی اس مد میں مختص رقم دفاعی اخراجات سے بہت بڑھ گئی ہے۔
صنعتی دور میں قرض لینا معیوب نہیں سمجھا جاتا۔ جدید بینکاری نظام نے صنعت کاروں کو قرض کی سہولت فراہم کر کے صنعتی ترقی کا حصول ممکن بنایا ہے، لیکن اگر پراجیکٹ کے لئے حاصل کردہ قرض اللوں تللوں پر اڑا دیا جائے، تو پھر اس کا بوجھ کمر توڑ دیتا ہے۔ پاکستان میں بینکوں کو قومیایا گیا تو اس کے بعد ان کے وسائل حکمران طبقات اور ان کے حواریوں کے لئے مختص ہو گئے۔ پراجیکٹس کے لئے کروڑوں حاصل کر لئے گئے، لیکن ان کو باپ کا مال سمجھ کر اُڑا دیا گیا۔ بعد میں سیاسی اثر و رسوخ کے بَل پر بہت سے قرض معاف کرا لئے گئے، یوں پاکستانی معیشت لنگڑی بطخ بن کر رہ گئی۔ بینکوں کی نجکاری سے حرام کاری اور حرام خوری کا بڑا دروازہ بند ہو گیا۔ حکمران طبقات نے جو کچھ اندرونی وسائل کے ساتھ کیا، وہی بیرونی وسائل کے ساتھ بھی روا رکھا گیا، نتیجہ یہ کہ قرضوں کا ایک ایسا پھندا ہمارے گلے میں پھنس گیا، جس سے جان چھڑانا ممکن نہیں ہو پا رہا۔
قیام پاکستان کے ابتدائی برسوں میں حکومتیں مخصوص پراجیکٹس ہی کے لئے قرض حاصل کر پاتی تھیں، بعد میں کچھ غیر ملکی طاقتوں کی بدنیتی اور کچھ ہمارے حکمران طبقوں کی ہوس نے عمومی قرضوں کا حصول ممکن بنا دیا۔ ایسے دستاویزی ثبوت منظر عام پر آ چکے ہیں، جن کے مطابق حکمران طبقوں کو عیش و آرام کا دلدادہ بنانے کے لئے انہیں کھلے قرض دیئے گئے، نتیجہ یہ نکلا کہ غیر پیداواری اخراجات میں اضافہ ہوتا گیا۔ ایک ایسے طرز زندگی کی حوصلہ افزائی شروع ہو گئی، جو ہمارے وسائل سے کوئی لگا نہیں کھاتا تھا۔ جو لوگ سائیکل استعمال کرتے تھے، دیکھتے ہی دیکھتے وہ فراٹے بھرتی گاڑیوں کے رسیا ہو گئے، رہن سہن میں اس تبدیلی نے فضول خرچی اور حرام خوری کی ان وبائوں میں ہمیں مبتلا کیا ،جن سے نجات کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی۔
گزشتہ کئی برسوں میں کالی معیشت کو بے پناہ فروغ حاصل ہوا ہے۔ زمینداروں کو تو ٹیکس سے کھلی چھوٹ ہے، جبکہ ٹیکس وصول کرنے والے اداروں میں تاجروں سے وصولی کی صلاحیت ہی باقی نہیں رہی۔ سیاسی ترجیحات نے اداروں کی خود مختاری کو متاثر کیا ہے اور جو طبقہ بھی حکومت پر دبائو بڑھاتا ہے، اسے کھلی چھٹی مل جاتی ہے۔ تاجروں کے بعض نمائندے ٹی وی سکرینوں پر دندناتے اور حکومتی اداروں کے لتے لیتے ہیں، لیکن ان کی طرف کسی کو میلی آنکھ سے دیکھنے کی اجازت نہیں۔
موجودہ بجٹ پر بھی اس حوالے سے شدید تنقید کی گئی ہے کہ اس میں براہ راست ٹیکس وصول کرنے کے موثر اقدامات نہیں کئے گئے۔ ودہولڈنگ ٹیکس پر انحصار بڑھایا گیا ہے۔ براہ راست ٹیکسوں میں انکم ٹیکس سب سے نمایاں ہے۔ جہاں جہاں انکم ہو رہی ہو، وہاں وہاں سے ٹیکس وصول کیا جانا چاہیے۔ ایسا ہو جائے تو پاکستان قرضوں پر انحصار کم کر سکتا ہے۔ ہم اپنی مجموعی قومی پیداوار کے نو فیصد کے لگ بھگ ٹیکس وصول کر پاتے ہیں(اب شاید اس شرح میں کچھ اضافہ ہو گیا ہو) اگر ہم اپنے ہمسایہ ملک بھارت ہی کی مثال کو سامنے رکھ لیں تو یہ وصولی دوگنا ،یعنی 18فیصد کے قریب ہونی چاہیے۔ اگر ایسا ہو جائے تو بجٹ کا ریونیو دو گنا ہو جائے گا اور ہمیں وافر مقدار میں وسائل دستیاب ہوں گے۔
عمران خان صاحب کا کہنا ہے کہ لوگ ٹیکس اس لئے نہیں دیتے کہ انہیں حکومت اور اس کے اداروں پر اعتماد نہیں۔ جب وہ اقتدار میں آئیں گے تو دو گنا ٹیکس وصول کر کے دکھائیں گے، یعنی ان کی دیانت داری ٹیکس دینے والوں کو کھینچ کھینچ کر ان کے پاس لے آئے گی۔اس بات میں جزوی صداقت تو ہو سکتی ہے، کلّی نہیں۔ ٹیکس چوروں کی بہانہ بازیوں کو جواز عطا نہیں کیا جانا چاہئے۔ عمران خان صاحب کو یہ حقیقت بھی مدنظر رکھنی چاہئے کہ زرعی انکم ٹیکس کی وصولی صوبوں کی ذمہ داری ہے، وہ بتائیں خیبرپختونخوا کی حکومت نے اس میں کتنا اضافہ کیا ہے؟ اگر جواباً کوئی قابل ِ ذکر اضافہ پیش نہ کیا جا سکے تو پھر واضح ہے کہ خان صاحب جو کہہ رہے ہیں، اُسے سو فیصد درست تسلیم نہیں کہا جا سکتا۔
وقت آ گیا ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں اس بات پر متفق ہوں کہ وہ ٹیکس چور طبقات کو کسی طور تحفظ نہیں دیں گی، قانون کو ان کے خلاف حرکت میں آنے کی عملی اجازت ہو گی، اور یہ بھی کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو مکمل خود مختاری دی جائے گی، اسے حکومتی مداخلت سے یکسر آزاد کر دیا جائے گا۔ جب تک ٹیکس کی ایک ایک پائی وصول نہیں ہو گی، پاکستان اپنا کشکول نہیں توڑ سکے گا۔ جب تک کشکول نہیں ٹوٹے گا، اُس وقت تک ہم بین الاقوامی ساہو کاروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہیں کر سکیں گے۔
(یہ کالم روزنامہ '' دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں