"MSC" (space) message & send to 7575

نازک ہے بہت کام

وزیراعظم میاں محمد نوازشریف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے کے لئے اسلام آباد سے (براستہ لندن) نیویارک روانہ ہو چکے ہیں۔ روانگی سے پہلے انہوں نے مظفرآباد کا سفر اختیار کیا اور وہاں آزادکشمیر کے صدر، وزیراعظم اور دوسرے رہنمائوں کے علاوہ حریت کانفرنس کے نمائندوں سے بھی تبادلہ ء خیال کیا تاکہ مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے حوالے سے ان کی تجاویز پر غور کیا جا سکے۔ مظفرآباد کے سیاسی حلقوں نے اس بات پر بڑے اطمینان کا اظہار کیا کہ تاریخ میں پہلی بار کسی پاکستانی حکمران نے اقوام متحدہ جاتے ہوئے ان سے مشاورت ضروری سمجھی۔ آزادکشمیر کو اس وقت ایک بہت صاف ستھرے وزیراعظم راجہ فاروق حیدر اور ایک زیرک صدر مسعود خان کی قیادت میسر ہے۔ کئی برس بعد وہاں ایک ایسی حکومت قائم ہوئی ہے، جس نے کارِ سیاست کو نیا اعتبار اور وقار بخشا ہے۔ اس کے بعد وزیراعظم کی آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے بھی ملاقات ہوئی۔ اس کا محور کشمیر ہی کا مسئلہ تھا کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں ظلم کی انتہا کر دی ہے۔گزشتہ 69 سال میں کبھی کشمیری عوام نے اس جوش و جذبے کا مظاہرہ نہیں کیا، جواب دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ایک سو سے زائد افراد کو شہید کیا جا چکا، سینکڑوں زخمی ہیں، ان میں سے کئی ایک کی چھرے دار بندوقوں نے بینائی چھین لی ہے اور کئی ایک کو اپاہج بنا ڈالا ہے۔ ہزاروں کو حوالہء زنداں کیا جا چکا ہے، لیکن حوصلے ٹوٹ رہے ہیں، نہ دل شکستہ ہو رہے ہیں۔ جوانوں کے ساتھ ساتھ بوڑھے اور بچے بھی میدان میں ہیں۔ عورتیں بھی گھروں میں بیٹھنے پر تیار نہیں ہیں۔ کئی ہفتوں سے کرفیو نافذ ہے اور عیدالاضحی کی نماز تک ادا نہیں کی جا سکی کہ بھارتی قابض فوجیں کسی اجتماع کی اجازت دینے کو تیار نہیں ہیں۔ بھارت کے اندر بھی بہت سوں کے ضمیر جاگ اٹھے ہیں، وہاں بھی ظلم اور بربریت کے خلاف آوازیں بلند ہونے لگی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر سے منتخب ہونے والے لوک سبھا کے ایک ممبر نے احتجاجاً استعفیٰ دے دیا ہے۔ سابق مہاراجہ کشمیر کے فرزند ڈاکٹر کرن سنگھ بھی، جو راجیہ سبھا کے ممبر ہیں، چیخ پڑے ہیں۔ انہوں نے ڈنکے کی چوٹ کہا ہے کہ کشمیر کبھی بھارت میں مدغم نہیں ہوا۔ اس نے بھارت کے ساتھ الحاق کیا تھا، اسے دفاع اور خارجہ امور کی ذمہ داریاں سونپی تھیں۔ بھارت کے ساتھ الحاق کی (نام نہاد) دستاویز کا ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھاکہ ان کے سامنے ان کے والد نے اس پر دستخط کئے تھے۔ اس کی رو سے کشمیر کی جداگانہ حیثیت قائم ہے۔ اسے دوسری ریاستوں کی طرح بھارت کا حصہ قرارنہیں دیا جا سکتا۔
یاد رہنا چاہیے کہ مہاراجہ کشمیر نے بھارت کے ساتھ الحاق کی جس دستاویز پر دستخط کئے تھے، اس کے بارے میں یہ حقیقت کھل چکی ہے کہ اس سے پہلے سری نگر میں بھارتی فوجیں داخل ہو گئی تھیں۔ غیر ملکی فوجوں کی موجودگی میں تیار کی گئی کسی دستاویز کی قانونی حیثیت کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ بہرحال، اس متنازعہ دستاویز میں بھی کشمیر نے اپنے آپ کو بھارت کے سپرد نہیں کیا۔ کشمیر اور بھارت کے خصوصی تعلق کو واضح کرنے کے لئے بھارتی آئین میں ایک خصوصی دفعہ (370) شامل کی گئی۔ بھارتی حکمرانوں نے بعد میں شیخ عبداللہ کے خلاف سازباز کرکے انہیں نہ صرف اقتدار سے الگ کیا، بلکہ طویل عرصے تک حوالہء زنداں بھی رکھا۔ اس دوران کٹھ پتلی حکومت قائم کرکے کشمیر کی خود مختاری کے پر کاٹ ڈالے۔ اس کے باوجود کشمیریوں کے دل سے جذبہ ء حریت کو نہیں مٹایا جا سکا۔
کشمیر کے نوجوان گوریلا لیڈر برہان وانی کی شہادت کے بعد تو حالات قابو سے باہر ہو چکے ہیں اور کشمیر کے ایک ایک انچ اور ایک ایک زبان سے آزادی کے نعرے گونج رہے ہیں۔ وزیراعظم نریندر مودی جنرل اسمبلی میں جانے کی ہمت نہیں کر پا رہے، انہوں نے اپنی جگہ اپنی وزیرخارجہ سشما سوراج کو نیویارک جانے کے لئے نامزد کیا ہے۔ پاکستان اور کشمیر میں نگاہیں وزیراعظم نوازشریف کے خطاب پر لگی ہوئی ہیں کہ انہیں مسئلہ کشمیر پوری شدت سے اجاگر کرنا اور عالمی رہنمائوں کے ضمیر کو جھنجھوڑنا ہے۔بھارتی مظالم کی تفصیل بیان کرنی ہے اور اس کے جمہوری چہرے سے نقاب اتارنی ہے۔ بھارت نے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق زیدرعدالحسین کا یہ مطالبہ مسترد کر دیا ہے کہ اقوام متحدہ کے متلاشیء حقائق مشن کو مقبوضہ کشمیر آنے کی اجازت دی جائے تاکہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں حقائق معلوم کئے جا سکیں بھارت اجازت دینے سے انکاری ہے کہ ...''گھٹ کے مر جائوں یہ مرضی میرے صیاد کی ہے‘‘... پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے دروازے کھلے ہیں ۔ آزاد اور مقبوضہ کشمیر کے درمیان فرق اور فاصلہ اس ایک ہی بات سے صاف ظاہر ہو جاتا ہے۔پاکستانی قوم کی اپنے رہنمائوں اور سیاستدانوں سے توقع ہے کہ وہ چند روز کے لئے اپنے اختلافات بھلا دیں اور مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بیک زبان اور بیک آواز قومی جذبات کا اظہار کریں۔ سری نگر تک یک جہتی کا پیغام پہنچائیں اور دنیا بھر کو اپنی وحدت اور قوت کا احساس دلائیں۔
اس پس منظر میں جب سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خواجہ اظہار الحسن کے گھر پر چھاپہ مارا جاتا ہے اور ایس ایس پی رائو انوار اُن کو ہتھکڑی لگا کر لے جاتے ہیں تو ہر پاکستانی اپنا سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے۔ وہ تو اچھا ہوا کہ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے فوری کارروائی کی۔ رائو انوار کو معطل کر کے خواجہ اظہار الحسن کو رہا کرنے کا حکم جاری کر دیا۔ وزیر اعظم پاکستان نے بھی اسے ناقابل قبول قرار دیا اور یوں حالات کو بگڑنے سے بچا لیا، لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ رائو انوار صاحب نے یہ بے وقت کی راگنی کیوں چھیڑی؟ وہ کس کے بہکاوے میں آ گئے؟ بے لگامی کی کہانی کچھ تو ہو گی۔
یہ یاد رہنا چاہئے کہ اس وقت پاکستان کا کوئی داخلی ہنگامہ بھارت کی مسرت کا سبب بن سکتا ہے۔ہمیں داخلی سیاست میں کانٹے بکھیرنے نہیں، چننے ہیں۔اپنے دستوری نظام کی حفاظت کرنی، اسے موثر اور مستحکم بنانا ہے۔ ہمارے منتخب اداروں کی بے توقیری ہو یا یہ اپنا اعتبار کھو بیٹھیں، یا ہم ان کا گلا گھونٹنے پر لگ جائیں تو کشمیریوں کے حق خود ارادیت کا مقدمہ کس طرح لڑا جائے گا؟ وہ لوگ جو داخلی سیاست میں توازن بگاڑنا چاہتے ہیں، پرلے درجے کے احمق ہیں یا عیار۔ان کی حماقت کو بروئے کار آنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی کہ اس کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑے گا اور عیاری کی داد بھی نہیں دی جا سکتی کہ اس کی بدنیتی واضح ہے... کوچۂ صحافت ہو یا سیاست، لٹھ بازوں کا ہاتھ روکنا ضروری ہے۔ غداری کی فیکٹریاں چلانے والوں کو بے دست و پا کرنا لازم ہے کہ کسی بھی شخص کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی بھی ہم وطن کی حب الوطنی پر سوال اٹھائے اوربالاترازقانون فیصلہ صادر کرے۔ خود ہی مدعی اور خود ہی منصف بن جائے۔ نقطہ نظر کے اختلاف کو فتویٰ فروشی کا جواز بنائے... نفرت کی تجارت سے زرمبادلہ کے کسی ذخیرے میں اضافہ نہیں ہو سکتا: ؎
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہِ شیشہ گری کا

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں