سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے پاناما لیکس کی تحقیقات کے لئے دائر کی جانے والی تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور بعض دوسرے عناصر کی درخواستوں پر وزیر اعظم نواز شریف اور وفاق پاکستان کو نوٹس جاری کر دیئے ہیں۔ آئندہ سماعت یکم نومبر کو ہو گی۔ سپریم کورٹ مُلک کی اعلیٰ ترین عدالت ہے جو بنیادی طور پر ہائی کورٹس کے فیصلوں کے خلاف اپیلوں کی سماعت کرتی ہے، لیکن اگر بنیادی حقوق متاثر ہونے کا کوئی سوال پیدا ہو جائے تو پھر یہ کسی بھی معاملے کی براہِ راست سماعت کرنے کا حق رکھتی ہے۔ پہلی بار اِس کا (دھماکہ خیز) مظاہرہ اُس وقت ہوا، جب وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت صدر غلام اسحاق خان نے (قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے کے بعد) برطرف کی۔ اس سے پہلے اس طرح کے مقدمات ہائی کورٹس میں دائر کئے جاتے تھے، وہاں سے فیصلہ ہونے کے بعد معاملہ سپریم کورٹ میں پہنچتا تھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو، اور ان کے پیشرو محمد خان جونیجو کے معاملے میں یہی راستہ اپنایا گیا تھا۔ جونیجو صاحب کی برطرفی کا مسئلہ جب سپریم کورٹ پہنچا‘ تو اُس وقت نئے انتخابات کے لئے مہم جاری تھی۔ جنرل مرزا اسلم بیگ چیف آف آرمی سٹاف تھے۔ ان کی طرف سے بھیجے گئے مبینہ پیغام کے بعد سپریم کورٹ نے نئے انتخابات کا راستہ نہ روکنے کا فیصلہ کیا، اور محمد خان جونیجو بحال ہوتے ہوتے رہ گئے۔ اُس وقت کی اسٹیبلشمنٹ نے (بالآخر) بینظیر بھٹو کو بذریعہ اقتدار آزمانے کا فیصلہ کر لیا تھا، سو اُس کے مطابق ان کے اقتدار کا راستہ کشادہ ہو گیا۔ یہ اور بات کہ خارجی امور ان کی دسترس میں نہ آ پائے، اور صدر کے منصب کے لیے بھی وہ نوابزادہ نصراللہ خان کی حمایت نہ کر سکیں۔ اُنہیں غلام اسحاق خان کو ترجیح دینا پڑی۔ اُس وقت کا صدر اختیارات سے مالامال تھا۔ اگر (اُس کی دانست میں) مُلک کے معاملات دستور کے مطابق نہ چلائے جا رہے ہوں تو وہ قومی اسمبلی کو تحلیل کرکے نئے انتخابات کا ڈول ڈال سکتا تھا۔ مسلح افواج کے سربراہوں اور صوبائی گورنروں کے تقرر کے معاملے میں بھی وہ وزیر اعظم کے مشورے کا پابند نہیں تھا۔ دستور میں جنرل ضیاء الحق کے زمانۂ اقتدار میں ترمیم داخل کی گئی تھی، اور یہ بھی لکھ دیا گیا تھا کہ صدارتی اقدام کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا۔ فوجی دماغ اِس طرح کے الفاظ لکھ کر مطمئن ہو جاتے ہیں کہ عدالتوں کے جھنجھٹ سے نجات مل گئی، لیکن سویلین کمالات ناخنِ تدبیر سے پتھروں میں شگاف ڈال دیتے ہیں۔ عدالتیں اپنے اختیار سماعت کو محدود کرنے کی کسی کوشش کو بنظر استحسان نہیں دیکھتیں، اور فقیہان کرام معاونت کے نام پر ان کی انگلی پکڑ لیتے ہیں۔ پاکستانی عدالت عظمیٰ نے کفایت اور قناعت کا (شرمناک) مظاہرہ گورنر جنرل غلام محمد کے زمانے میں کیا تھا، جب اس نے مجلس دستور ساز کے اُس فیصلے کو بھی ماننے سے انکار کر دیا، جس نے اُسے رٹ جاری کرنے کا اختیار تفویض کیا تھا۔ یاد رہے دورِ غلامی میں کسی اعلیٰ عدالت کو رٹ جاری کرنے کا اختیار نہیں تھا، یعنی وہ کسی حکومتی اہلکار کو کسی کام سے روک نہیں سکتی تھیں۔ کسی حکومتی اقدام کے راستے میں دیوار کھڑی نہیں کر سکتی تھیں۔ دیوانی اور فوجداری مقدمات میں سماعت کرنے کا حق ان کو حاصل تھا، لیکن اس سے باہر تانک جھانک کی اجازت نہیں تھی، آزادی کے بعد ہندوستان اور پاکستان کی اسمبلیوں نے یہ حق اپنی اعلیٰ عدالتوں کو مرحمت کر دیا کہ آزاد مُلک میں آزاد عدلیہ کا تصور اس کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ جب گورنر جنرل غلام محمد نے دستور ساز اسمبلی تحلیل کی، تو سپیکر مولوی تمیزالدین نے اس کے خلاف سندھ ہائی کورٹ کے دروازے پر دستک دی۔ وہاں سے رٹ جورسڈکشن کے تحت گورنر جنرل کا حکم غیر قانونی قرار دے دیا گیا۔ اس پر گورنر جنرل موصوف فیڈرل کورٹ پہنچے اور دہائی دی۔ اعلیٰ ترین عدالت نے جو فیصلہ صادر کیا، وہ ہماری تاریخ ہی نہیں دُنیا کی تاریخ کے شرمناک ترین فیصلوں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ اُس وقت نافذ عبوری دستور میں کوئی ایسی شق موجود نہیں تھی کہ جو گورنر جنرل کو دستور ساز اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار دیتی۔ دستور ساز اسمبلی خود مختار (ساورن) ہوتی ہے، اور اُس کے کسی فیصلے کو مسترد کرنے کا حق کسی نامزد شخص کے پاس نہیں ہو سکتا۔ فاضل جج صاحبان اس بند گلی میں پھنس گئے، تو انہوں نے یہ نقب لگا لی کہ ہمیں گورنر جنرل کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کا اختیار نہیں ہے، کیونکہ رٹ جاری کرنے کا جو اختیار دستور ساز اسمبلی نے ہمیں بخشا تھا، اُس پر گورنر جنرل کے توثیقی دستخط نہیں کرائے گئے۔ یوں وہ آئین کا حصہ نہیں بنا۔ جب آئین میں کوئی ایسی شق موجود ہی نہیں جو ہمیں گورنر جنرل کا ہاتھ روکنے پر آمادہ کر سکے، تو ہم بے چارے اسے کیسے روک سکتے ہیں؟ گویا وہ تو ہتھ چھٹ ہے، جہاں چاہے ڈاکہ ڈالے اور جو چاہے لوٹ کر لے جائے۔ اس ایک فیصلے نے پاکستان کی تاریخ اور سیاست کا رُخ بدل ڈالا، کسی اور نشست میں اس کا جائزہ لیا جائے گا، تو یہ راز کھلے گا کہ دراصل سقوط ڈھاکہ کی بنیاد اسی روز رکھ دی گئی تھی۔ بات کچھ دور نکل گئی، زیر بحث یہ نکتہ تھا کہ چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کی عدالت نے (وزیر اعظم) نواز شریف کی (اسمبلی کی تحلیل کے خلاف) درخواست براہِ راست قابل سماعت قرار دے دی، اور یوں اس طرح کے امور میں ہائی کورٹ کی سیڑھی غیر ضروری ہو گئی۔
دستور یا قانون میں اعلیٰ عدالتوں کے اختیار سماعت پر قدغن لگانے کا عمل یوں غیر موثر ہو چکا ہے کہ عدلیہ نے یہ حق (اپنے طور پر) حاصل کر لیا ہے کہ کسی بھی دستوری یا قانونی شق کے تحت کئے جانے والے کسی اقدام کے بارے میں یہ جائزہ تو بہرحال لیا جا سکتا ہے کہ اُسے کسی تعصب، عناد یا بدنیتی سے جاری نہیں کیا گیا۔ اس طرح سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے دائرہ سماعت سے کسی چیز کو خارج کرنا انتظامیہ یا مقننہ کے بس میں نہیں رہا۔ پاناما لیکس کے حوالے سے دائر درخواستوں کے بارے میں بھی اختیار سماعت کی بحث لازم
تھی، لیکن وزیر اعظم کی طرف سے نہ صرف عدالتی مداخلت کا خیرمقدم کیا گیا ہے، بلکہ یہ بھی کہہ دیا گیا ہے کہ اختیارِ سماعت کو چیلنج نہیں کیا جائے گا، گویا مقدمے کے فریقین متفق ہیں کہ سپریم کورٹ اِس معاملے کو سنے۔ چیف جسٹس افتخار چودھری نے اپنے دور میں بنیادی حقوق کے حوالے سے عدالت کا دائرہ اختیار اتنا بڑھا دیا تھا، جس کا کوئی تصور ممکن نہیں تھا۔ وہ جس معاملے کا بھی نوٹس لینا چاہتے اُسے بنیادی حقوق کے ساتھ جوڑ لیتے اور یوں اپنا ڈنکا بجا لیتے۔ اب دیکھنا ہو گا کہ سپریم کورٹ پاناما قصے سے کس طرح عہدہ برآ ہوتی ہے۔
عمران خان وزیر اعظم سے مطالبہ کر رہے تھے کہ وہ استعفیٰ دیں یا تلاشی دیں۔ استعفیٰ تو ان کو نہیں ملا، لیکن سپریم کورٹ نے ''تلاشی‘‘ کا عمل ضرور شروع کر دیا ہے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ اب ان کی طرف سے 2 نومبر کو اسلام آباد بند کرنے کی دھمکی موثر نہیں ہو گی اور وہ اِس معاملے میں کسی انتہائی قدم سے گریز کریں گے۔ کئی تجزیہ نگار اور مبصرین ''ڈان لیکس‘‘ کا ڈھول بھی پیٹ رہے ہیں کہ قومی سلامتی امور سے متعلق ایک اہم اجلاس کی مبینہ کارروائی کیسے منظر عام پر آ گئی؟ کہا جا رہا ہے کہ ''نان سٹیٹ ایکٹرز‘‘ کی گو شمالی کے لئے حکومتی اصرار نے دفاعی اداروں کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے۔ کور کمانڈرز کی تشویش کو اِس امر کا غماز سمجھا جا رہا ہے۔ وزیر داخلہ نثار علی خان کی طرف سے برپا انکوائری کا کوئی نتیجہ ابھی تک سامنے نہیں آیا۔ اِس خبر کے بارے میں جو بھی کہا جائے، اس کی ثقاہت اور اس کے اسباب و اثرات جو بھی ہوں، یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ پاکستان اب کسی دھینگا مشتی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ہمیں بہرقیمت اپنے نظام کی حفاظت کرانی ہے۔ سر درد کا علاج کرنے کے لئے دردِ جگر کو آواز نہیں دینی۔ پاکستان کے معاملات کو سلجھانا اور چلانا آسان نہیں ہے۔ کسی گاڑی کو دو یا تین ایسے انجن لگا کر برق رفتاری کی امید نہیں لگائی جا سکتی جو اسے متضاد اطراف میں کھینچ رہے ہوں۔ قومیں بے نظمی اور بے یقینی سے تباہ ہوتی ہیں، ہوئی ہیں اور ہوتی رہیں گی۔ ڈسپلن مسلح افواج ہی کی نہیں پوری قوم کی ضرورت ہے۔ چین آف کمانڈ نظم حکومت کو استوار رکھنے کے لئے بھی ضروری ہے۔ اور اس کے لئے حفظ مراتب ضروری... بازوئے شمشیر زن، دل کی جگہ نہیں لے سکتا۔ خون گردش نہیں کرے گا تو ہاتھ سے تلوار کیسے اُٹھے گی؟
(یہ کالم روزنامہ '' دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)