امریکہ میں انہونی ہو چکی۔ ڈونلڈ ٹرمپ صدر منتخب ہو گئے، اور ہلری کلنٹن اپنے مُلک کی پہلی خاتون صدر بننے کا اعزاز حاصل نہ کر سکیں۔ سارے تجزیے، جائزے اور اندازے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ اخبارات اور نیوز چینلز کی بہت ہی بھاری تعداد ہلری کے ساتھ تھی۔ ان کے حق میں پول ہو رہے تھے، اور وہ اخبارات‘ جنہوں نے کبھی کسی صدارتی امیدوار کو انڈورس (ENDORSE) نہیں کیا تھا، ڈونلڈ ٹرمپ کو نیچا دکھانے کے لئے اپنی معروضیت ترک کر چکے تھے۔ ہلری کی ایک عمر سیاست کے میدان میں گزری ہے۔ وہ سینیٹر بنیں۔ صدر کلنٹن کی اہلیہ کے طور پر بین الاقوامی منظر پر چھائی رہیں۔ صدر اوبامٓ کی وزیر خارجہ کے طور پر اپنا لوہا منوایا۔ ان کے مقابلے میں ڈونلڈ ٹرمپ تھے، جن کو سیاست کا تجربہ تھا، نہ اقتدار کا، نہ انہوں نے کسی منتخب ایوان میں کوئی وقت گزارا، نہ اقتدار نے ان کو آزمایا۔ والد سے کنسٹرکشن کا کاروبار ورثے میں پایا، اور اُسے خوب آگے بڑھایا۔ اربوں ڈالر ان کی تجوریوں میں محفوظ ہیں۔ دو بیویوں کو طلاق دینے کے بعد تیسری شادی فرمائے ہوئے ہیں۔ ہر بیوی سے اولاد موجود۔ اپنی انتخابی مہم میں ہر وہ بات کہہ گزرے جسے سُن کر متانت کو پسینہ آ جائے، اور ''اشرافیہ‘‘ جس پر بھنّا جائے۔ معاشرے کو خوب تقسیم کیا۔ گورے امریکہ کو توجہ کا مرکز بنایا، اقلیتوں کے خلاف گرجتے رہے۔ مسلمانوں کی بھاری تعداد کا خون (ان کے طعنے سُن سُن کر) کھولتا رہا۔ غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف برہنہ تلوار تھے۔ میکسیکو اور امریکہ کے درمیان ''دیوارِ چین‘‘ بنانے کا اعلان کر رہے تھے۔ مسلمان تارکینِ وطن پر سرحدیں بند کرنے پر زور دے رہے تھے، پورا امریکہ چونک اُٹھا تھا۔ اُن کے مقابلے میں ہلری اپنی سنجیدگی کی بدولت ممتاز تھیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ٹرمپ کی چونکا دینے والی حرکتوں نے انہیں اتنی پبلسٹی دے دی کہ ہلری کے مقابلے میں انہیں کہیں کم پیسہ خرچ کرنا پڑا۔ اکتوبر کے وسط تک ان کی کیمپین کمیٹی نے 239.9 ملین ڈالر خرچ کئے تھے، جبکہ ہلری450.6 ملین ڈالر اڑا گزری تھیں۔ ٹرمپ نے ہلری کے 228 انتخابی ووٹوں کے مقابلے میں 278 ووٹ حاصل کئے۔ گویا الیکٹورل کالج کے ہر انتخابی ووٹ پر ٹرمپ کا خرچ0.8629 ملین ڈالر ہوا جبکہ ہلری کا 1.97ملین ڈالر اُٹھا۔ اگست تک ٹرمپ کے تنخواہ یافتہ کارکنوں کی تعداد 130 تھی، جبکہ ہلری نے 800 کی خدمات حاصل کر رکھی تھیں۔
انتخابی مہم کے دوران امیدواروں نے ایک دوسرے پر جس طرح کے الزامات لگائے، اس سے پہلے کسی صدارتی انتخاب کے شرکا نے نہیں لگائے۔ گھٹیا زبان استعمال کی گئی اور شخصی حملے کرنے کو کمال سمجھ لیا گیا۔ ٹرمپ کے مخالفوں نے ان کے سیکنڈلوں کو اچھالا، کئی خواتین ہراساں کرنے کے الزامات کے ساتھ ان پر حملہ آور ہوئیں، ان کی برسوں پرانی بیہودہ ٹیپیں بھی لیک کی گئیں، لیکن انہوں نے ہار نہیں مانی، وہ ہلری کے لتے لیتے، اور ان کو براہِ راست نشانہ بناتے رہے، یہاں تک کہا کہ وہ صدر بن گئے تو یہ محترمہ جیل میں ہوں گی۔ پرائیویٹ اکائونٹ سے سرکاری ای میلز کا الزام بار بار دہرایا جاتا، اور ہلری کی صلاحیت اور دیانت کو موضوع بحث بنایا جاتا رہا۔ صدر اوباما نے بھی کوئی لگی لپٹی نہیں رکھی، ہلری کی حمایت میں میدان میں نکل آئے، تاکہ وائٹ ہائوس کو ''ٹرمپ جیسے شخص‘‘ سے محفوظ رکھ سکیں۔ ماضی میں کسی بھی امریکی صدر نے کسی صدارتی امیدوار کے حق میں اس طرح کی مہم شاید ہی چلائی ہو‘ اور اس کی شکست کو اس طرح اپنی عزت کا مسئلہ شاید ہی کبھی بنایا ہو۔
اس سب کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ جیت گئے۔ اسباب کا جائزہ لینے والے دور و نزدیک کی کوڑیاں لا رہے ہیں۔ ایگزٹ پولز کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ مرد ووٹروں میں سے 53 فیصد نے ٹرمپ اور 42 فیصد نے ہلری کو ووٹ دیا۔ 42 فیصد خواتین ٹرمپ کے ساتھ تھیں، جبکہ 54 فیصد ہلری کے ساتھ۔ گورے ووٹروں میں سے 58 فیصد نے ٹرمپ جبکہ 37 فیصد نے ہلری کے پلڑے میں وزن ڈالا۔ کالے امریکیوں میں 8 فیصد ٹرمپ جبکہ88 فیصد ہلری کے پلڑے میں تھے۔ ہسپانویوں میں سے 29 فیصد نے ٹرمپ جبکہ 65 فیصد نے ہلری کو اپنے ووٹ کا مستحق جانا۔ گویا گورے ووٹروں نے ٹرمپ کی فتح میں بنیادی کردار ادا کیا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران غیر مشروط طور پر یہ بات کہنے سے انکار کیا تھا کہ وہ نتائج تسلیم کر لیں گے، یہ بھی امریکہ کی تاریخ میں ایک نیا واقعہ تھا۔ بہرحال انتخابی نتائج نے انہیں اس آزمائش سے محفوظ رکھا۔ ہلری کلنٹن نے کھلے دل سے شکست تسلیم کر لی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے دل کھول کر ان کی تعریف کی، ان کی محنت اور صلاحیت کو خراج تحسین پیش کیا اور ان کی خدمات کو سراہا۔ منتخب صدر نے وائٹ ہائوس کا دورہ بھی کیا، جہاں صدر اوباما نے ان کے لئے بانہیں کشادہ کیں۔ بتایا گیا ہے کہ دونوں صدور نے ایک دوسرے کے ساتھ باقاعدہ کھڑے ہو کر وہ روایتی تصویر نہیں بنوائی جو وائٹ ہائوس کی گیلری میں آویزاں کی جاتی ہے۔ ملاقات ایک گھنٹے سے زیادہ جاری رہی، جبکہ اس کا مقررہ وقت دس منٹ کا تھا۔ صدر اوباما اور ٹرمپ نے میڈیا کے سامنے ایک دوسرے کی تعریف کی اور تعاون کا عہد کیا۔ دونوں کی کسی ادا سے یہ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ چند روز پہلے تک وہ ایک دوسرے کے ''خون کے پیاسے‘‘ تھے۔
امریکی تاریخ میں (شاید) یہ بھی پہلی بار ہو رہا ہے کہ نئے صدر کے خلاف جگہ جگہ مظاہرے ہو رہے ہیں۔ کئی مقامات پر پُرجوش مخالف ان کو اپنا صدر تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ان کا مخالف میڈیا، ان مظاہروں کو ہوا دے رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ جن طبقوں اور افراد کے ساتھ انتخابی مہم میں سختی سے نبٹنے کا اعلان کیا جاتا رہا، ان پر خوف طاری ہے، اس لئے وہ شعلہ جوالہ بن گئے ہیں۔ امریکہ میں ایک زمانے تک گورے 88 فیصد تھے، لیکن اب یہ ساٹھ، باسٹھ، تریسٹھ فیصد ہیں۔ امریکی معاشرے کے غیر گورے نسلی گروپوں کی تعداد میں بہت اضافہ ہو چکا ہے۔ امریکہ دُنیا کا واحد ملک ہے، جس کے دروازے دُنیا بھر کے ٹیلنٹ کے لئے کھلے ہیں۔ اسے تارکین وطن نے جلا بخشی اور ہر لحظہ اس میں دُنیا بھر سے آنے والے جذب ہوتے جا رہے ہیں۔ اسے کسی ایک رنگ، نسل یا مذہب تک محدود رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ گورے امریکیوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لئے انہیں اکسایا اور ورغلایا تو جا سکتا ہے، لیکن معاشرے کے مختلف طبقات کو ایک دوسرے کے مقابل کھڑا کرکے استحکام حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ بھارت میں نریندر مودی نے ہندو اور ہندتوا کا نعرہ لگا کر اکثریتی ووٹ حاصل کر لئے تھے، لیکن اب انہیں اپنے حلقہ انتخاب کو سنبھالنا مشکل ہو رہا ہے۔ اس سے بڑا چیلنج ڈونلڈ ٹرمپ کو درپیش ہو گا کہ یہاں تو کالے اور برائون بہت بڑی تعداد میں ہیں۔ اگر ٹرمپ انتخابی مہم کے دوران کئے جانے والے وعدوں کو عملی جامہ پہنائیں گے، تو امریکی معاشرے کی وحدت متاثر ہوگی، اس میں دراڑیں پڑتی جائیں گی۔ اگر وہ حکمت عملی تبدیلی کرتے ہیں، تو وہ جن ان کے درپے ہو گا‘ جسے انہوں نے بوتل سے نکالا ہے۔ دُنیا پر تو ٹرمپ کے جو بھی اثرات مرتب ہوں گے‘ پاکستان سے وہ اور پاکستان ان سے کیسے معاملہ کرے گا؟ ان کے یورپی اتحادی ان سے کیسے نبٹ پائیں گے؟ چین، ایران اور سعودی عرب کے ساتھ ان کی کیسے نبھے گی۔ یہ تو سب بعد کی باتیں ہیں، پہلی بات تو یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ سارے امریکیوں کے صدر بن کر کیسے دکھائیں گے؟ جیت کے بعد کی گئی اپنی تقریر کو عملی جامہ کیسے پہنائیں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا پہلا مقابلہ ڈونلڈ ٹرمپ ہی سے ہو گا۔ اپنے لئے سب سے بڑا خطرہ وہ خود ہوں گے... ''مجھ ‘‘ سے کہاں ''بچیں‘‘ گے‘ وہ ایسے کہاں کے ہیں؟
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)