دسمبر کے مہینے کی سولہ تاریخ ہر سال آتی اور ہمیں جھنجھوڑ جاتی ہے۔ پینتالیس سال پہلے کی وہ واردات بھی یاد آ جاتی ہے جو ڈھاکہ میں ہوئی اور ہندوستانی فوج کا قبضہ مشرقی پاکستان پر ہوا‘ ہندوستانی بندوقوں کے سائے میں بنگلہ دیش کا پرچم لہرا دیا گیا... دو سال پہلے اسی تاریخ کو پشاور کے آرمی پبلک سکول پر دہشت گردوں نے حملہ کیا اور بڑی تعداد میں معصوم بچوں اور ان کے اساتذہ کو خون میں نہلا دیا۔ یہ واقعہ بھی ہمارے دل کا زخم ہے، جسے رفو نہیں کیا جا سکتا۔ اس میں سے خون رستا رہے گا، اور ہماری آنکھوں میں بھی خون اترا رہے گا۔ اس کے کئی ذمہ دار کیفر کردار کو پہنچائے جا چکے ہیں، لیکن تمام سہولت کار اور ماسٹر مائنڈ ابھی تک جہنم رسید نہیں کئے جا سکے۔
پاکستانی قوم کی غالب تعداد اس بات پر متفق ہے کہ دونوں وارداتوں کے پیچھے ہندوستان کا ہاتھ تھا۔ اسی کی منصوبہ بندی نے ہمیں یہ دن دکھائے۔ یہ درست ہے کہ اپنوں کی کوتاہیاں بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتیں، غفلت میں مُبتلا ہونے والوں کو بھی معاف نہیں کیا جا سکتا، اپنے دفاعی نظام میں سوراخ بھی موجود تھے۔ اہلِ سیاست اور اہلِ اقتدار کی کوتاہ اندیشی کے بغیر دشمن کو یہ موقع نہیں مل سکتا تھا... لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر بیرونی ہاتھ کارفرما نہ ہوتا تو کوتاہیوں، خامیوں، غلطیوں بلکہ حماقتوں کا یہ نتیجہ برآمد نہیں ہو سکتا تھا۔ گھر والے اگر دروازوں کو تالا لگانا بھول جائیں یا مضبوط تالا نہ لگائیں تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ڈاکوئوں کو اندر گھسنے اور گھر کو تاراج کرنے کا حق حاصل ہو گیا۔
مشرقی پاکستان میں سازش کا رنگ اور تھا، اب اور ہے۔ انداز بدل گیا ہے، طریقِ واردات بدل گیا ہے، لیکن مقصد نہیں بدلا... پاکستانی قوم کے حوصلوں کو توڑنا اور ان سے زندہ رہنے کی اُمنگ چھین لینا کہ جو حوصلہ ہار بیٹھتے ہیں، وہ سسک سسک کر دم توڑتے ہیں۔ کمزوروں اور پست ہمتوں پر کوئی رحم نہیں کھاتا‘ ان سے کسی کو ہمدردی نہیں ہوتی، کوئی ان کو سامانِ زیست فراہم نہیں کرتا۔ انہیں زمین کا بوجھ سمجھا جاتا ہے اور ان کا مقام زمین کے سینے پر نہیں‘ پیٹ میں ہوتا ہے۔ ان پر کوئی رونے والا ہوتا ہے نہ ایصال ثواب کے لئے ہاتھ اٹھانے والا۔ ہندوستانی نیتائوں کا خیال ہو گا کہ مشرقی پاکستان میں شدید صدمے سے دوچار ہونے کے بعد (بچا کُھچا) پاکستان تر نوالہ ثابت ہو گا اور اسے بآسانی چبایا جا سکے گا... لیکن آفرین ہے پاکستانی قوم پر کہ اس نے اپنے آپ کو سنبھالا، اور سینہ تان کر کھڑا رہنے کا فیصلہ کیا... پاکستان کو ایٹمی طاقت بنا کر ناقابل تسخیر بنانے کے منصوبے پر کام شروع ہو گیا۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے سقوط ڈھاکہ کے المیے کے بعد ہی وطن واپس آنے اور پاکستانی قوم کو اپنی خدمات سونپنے کی ٹھانی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے وہ قدم اٹھا لیا جس کا ہمارے حریف تصور نہیں کر سکتے تھے۔ جس طرح سلطان شہاب الدین غوری نے ترائن کی پہلی لڑائی میں ہزیمت اٹھانے کے بعد بدلہ لینے کا اٹل فیصلہ کیا تھا، اور اپنے اوپر آرام حرام قرار دے لیا تھا۔ اسی طرح وزیر اعظم بھٹو نے گھاس کھا کر بھی بم بنانے کا اعلان کیا۔ جس طرح سلطان شہاب الدین غوری نے ترائن کی دوسری لڑائی میں فتح حاصل کرکے ہندوستان میں مسلمان حکومت قائم کرنے کا راستہ ہموار کر دیا تھا، اسی طرح پاکستان کی ایٹمی صلاحیت نے جنوبی ایشیا پر ہندوستان کی بالادستی کا خواب چکنا چور کر دیا۔
بھٹو مرحوم نے جس کام کا آغاز کیا تھا‘ وہ ان کا تختہ الٹنے والے (جانی دشمن) جنرل ضیاء الحق کے ہاتھوں تکمیل کو پہنچا... اور اس کے بعد ہر پاکستانی حکومت نے اس کی حفاظت کی۔ آپس میں لڑنے والے، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے دن رات ایک کر دینے والے سیاستدان اور فوجی حکمران اس ایک بات پر متفق رہے کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی حفاظت ہونی چاہئے۔ یہاں تک کہ جب واجپائی حکومت نے ایٹمی دھماکے کرکے اترانے کا فیصلہ کیا‘ تو پاکستان میں قائم نواز شریف حکومت نے بھی ترکی بہ ترکی بلکہ اس سے آگے بڑھ کر جواب دیا۔ ہندوستانی پانچ دھماکوں کے جواب میں چھ دھماکے کئے اور دنیا کو حیران کر دیا۔ پاکستان نے وہ کام کر دکھایا تھا جو کئی مسلمان ممالک ڈالروں اور ریالوں میں کھیلنے کے باوجود نہ کر سکے تھے۔ ہر شخص سجدہ ریز تھا، اور اپنے اللہ کا شکر ادا کر رہا تھا کہ ہندوستانی عزائم کے سامنے دیوار چین کھڑی کر دی گئی ہے، اب ناپاک قدم ہماری سرحدوں کی جانب نہیں اٹھ سکیں گے۔ زندگی سے محروم ہونے کی خواہش رکھنے والا ہی ہماری سرحدوں کو پامال کرنے کے بارے میں سوچ سکے گا۔ سقوط ڈھاکہ کے شر سے یہ خیر برآمد ہوئی... اس کے بعد سازشوں کا انداز بدل گیا۔ اب پاکستان کے اندر ''پراکسی وار‘‘ لڑی جا رہی ہے... اور، اسی کا ایک مظاہرہ دو سال پہلے سولہ دسمبر کو دیکھنے میں آیا... لیکن پاکستانی قوم نے اس المیے کو بھی اپنی طاقت بنا لیا۔ متحد ہو کر دہشت گردوں اور دہشت گردی کا تعاقب شروع کیا... تمام جماعتیں ایک ہوئیں اور فوجی قیادت میدان میں اتر آئی... ان دو سالوں میں زمین اور آسمان کا فرق پیدا ہو چکا ہے۔ اکا دکا وارداتیں جاری ہیں‘ لیکن دہشت گردوں پر زمین تنگ کی جا چکی ہے۔ ''پراکسی وار‘‘ میں بھی حریفوں کے دانت کھٹے کر دیئے گئے ہیں... سولہ دسمبر کا چیلنج قبول کرکے پاکستانی قوم ایک نئے جذبے سے سرشار ہے۔ المیوں اور حادثوں پر رونا زندہ قوموں کا شعار نہیں ہے، ان سے سبق حاصل کرنا آگے بڑھنے کے لئے ضروری ہے اور الحمدللہ ہم سبق حاصل کرکے تیز قدم ہو گئے ہیں... آگے بڑھیے اور بڑھتے جائیے کہ بہتر مستقبل ہمارا منتظر ہے۔
[یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے۔]