29 دسمبر کو برادر عزیز کامران شاہد کے پروگرام ''آن دی فرنٹ‘‘ میں گزشتہ سال کے احوال کا جائزہ لیا جا رہا تھا کہ اس کے دوران میں کیا کھویا اور کیا پایا۔ جاوید ہاشمی، قمر زمان کائرہ، تحریک انصاف کے اعجاز چودھری اور وزیر اعظم کے ترجمان ڈاکٹر مصدق ملک کامران شاہد کے تیکھے سوالات کے جواب دے رہے تھے۔ وزیر اعظم، پارلیمنٹ، جمہوریت اور میثاق جمہوریت سب زد پر تھے۔ کائرہ صاحب نے جمہوریت کو دھرنا ون سے بچانے کا سہرا اپنی جماعت کے سر باندھ دیا کہ اگر دھرنے کے دوران پیپلز پارٹی اپنا وزن عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے پلڑے میں ڈال دیتی تو وہ ماحول پیدا کرنے میں آسانی ہو جاتی جس میں جمہوریت پر شب خون مارا جا سکتا تھا۔ پیپلز پارٹی کے موقف نے پارلیمنٹ کے تحفظ میں اہم کردار ادا کیا، لیکن یہ بھی حقیقت تھی کہ یہ سو فیصد اس کا کارنامہ نہیں تھا۔ ویسے بھی وہ سسٹم کی بڑی سٹیک ہولڈر تھی (اور ہے)۔ قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کی قیادت اس کے رہنما خورشید شاہ کے پاس ہے۔ سینیٹ میں وہ (اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر) اکثریت میں ہے۔ اس کے چیئرمین رضا ربانی اپنی تمام تر نیک نامی اور ثابت قدمی کے باوجود ہیں تو پیپلز پارٹی ہی کے رہنما۔ سندھ میں بادشاہت بھی پیپلز پارٹی ہی کی قائم ہے۔ اگر دیوار کو دھکا دینے والے اسے گرا گزرتے تو پیپلز پارٹی کا بہت کچھ بھی ملبے کے نیچے دب جاتا۔ اس لئے جناب قمر زمان کائرہ کی جماعت نے جو بھی فیصلہ کیا، وہ فی سبیل اللہ نہیں تھا، اسے محض نواز شریف کے حق میں قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس سے کہیں زیادہ یہ پیپلز پارٹی کا اپنے حق میں اور اپنے مفادات کے لئے فیصلہ تھا، جس سے مسلم لیگ (ن) کو بھی فائدہ پہنچا۔ پیپلز پارٹی اس کے سر پر احسان کا ٹوکرا دھرنے میںکامیاب ہو گئی۔
مخدوم جاوید ہاشمی چونکہ دھرنا ون (2014ئ) پر ڈاکٹریٹ کا دعویٰ رکھتے ہیں اور اس کے مبینہ رموز و اسرار کو واشگاف کرکے تحریک انصاف کی صدارت اور قومی اسمبلی کی رکنیت سے ہاتھ دھونے کا شرف بھی حاصل کر چکے ہیں، اس لئے ان سے برداشت نہ ہو سکا کہ سب کچھ کائرہ صاحب سمیٹ لیں۔ انہوں نے توجہ دلانا ضروری سمجھا کہ ان کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے انہیں بتایا تھا کہ ملک میں جوڈیشل مارشل لاء لگے گا اور 90 روز کے اندر انتخابات کرا دیئے جائیں گے۔ اسی لئے انہوں نے سر ہتھیلی پر رکھ کر اس دھرنے کے چہرے سے نقاب الٹ دیا تھا۔ اس حوالے سے جنرل طارق کا نام بھی آیا اور پھر بحث کا بازار گرم ہو گیا۔ اعجاز چودھری نے تردید پر کمر باندھ لی، جبکہ کائرہ تحقیقات پر زور دینے لگے۔ جاوید ہاشمی کا کہنا تھا کہ عمران خان کو ان کے سامنے بٹھایا جائے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دیں گے۔ اعجاز چودھری تو کنٹینر میں نہیں تھے، نہ ہی اس گروپ میں شامل تھے، جسے اعتماد میں لینے کا مستحق گردانا گیا تھا۔ کامران شاہد نے جاوید ہاشمی سے پوچھا کہ وہ اپنی بات پر حلف اٹھانے کو تیار ہیں تو وہ غرائے کہ میری ہر بات حلف پر ہوتی ہے، مطلب یہ کہ میں جھوٹ نہیں بولتا: ؎
جو ہماری زبان سے نکلا
جانو اُس کو لکیر پتھر کی
ڈاکٹر مصدق نے تو یہ کہہ کر جان چھڑا لی کہ اگر سب کچھ تحریری شکل میں سامنے لایا جائے تو حکومت تحقیقات کرانے کو تیار ہو گی... لیکن ملک بھر میں اس مصرع طرح پر کئی غزلیں کہہ ڈالی گئی ہیں یا یہ کہیے کہ مسلسل کہی جا رہی ہیں۔ عمران خان نے اسے جھوٹ پلس قرار دیتے ہوئے جاوید ہاشمی کے دماغی معائنہ کی تجویز پیش کر دی۔ اس نہلے پر جاوید نے یہ دہلا لگایا کہ (ہم) دونوں کا ''ڈوپ‘‘ ٹیسٹ بھی ہونا چاہیے۔ یاد رہے کہ یہ ٹیسٹ خون میں منشیات کی مقدار دریافت کرنے کے لئے کیا جاتا ہے۔ جنرل طارق نے بھی سخت الفاظ میں تردید کی اور کامران خان صاحب کے نیوز شو میں اس طرح اظہار خیال کیا کہ جس سے شکوک کے کچھ بادل چھٹے تو کچھ گہرے ہو گئے۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر اس الزام کو جاوید ہاشمی کی خرابی صحت کا شاخسانہ قرار دیا کہ ان پر چند سال پہلے فالج کا حملہ ہوا تھا۔ (یاد رہے کہ یہ تحریک انصاف میں شمولیت سے پہلے کا واقعہ ہے) جاوید ہاشمی نے جو کچھ کہا، اس میں چند الفاظ تو نئے تھے، لیکن دھرنا ون کو جمہوریت کے خلاف سازش قرار دینے کا ان کا موقف نیا نہیں ہے۔ دھرنے کے دوران انہوں نے اس حوالے سے جو کچھ کہا، وہ ایٹمی دھماکہ ثابت ہوا تھا‘ اور اس نے اندھیروں کے خوگر عناصر کے حوصلے توڑ دیئے تھے۔ ان کے تاثر سے اختلاف کرنے والے بھی اس بات سے انکار نہیں کر سکتے کہ انہوں نے اپنی طلاقت لسانی کی بھاری قیمت ادا کی تھی۔ تحریک انصاف جیسی بڑی پارٹی کی صدارت اور قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ کوئی معمولی خسارہ نہیں تھا۔ اپنی یہ بات (ایک خاص زاویے سے) دہرانے پر ان کو داد بھی ملی اور ان کے لتّے بھی لئے گئے۔ کچھ عناصر نے اسے مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اور آئندہ انتخابات میں ٹکٹ کے حصول کی کوشش قرار دیا۔ کچھ نے اسے عدلیہ کے لئے پیغام سمجھا اور اس میں نئے معانی ڈالنے کی کوشش کی۔ کچھ نے بغلیں بجائیں اور ڈونگرے برسائے، لیکن ایک دو آوازیں ایسی بھی اُٹھیں، جنہوں نے جاوید ہاشمی کو موقع پرست قرار دیا اور ان کے ماضی کے حوالے سے پھبتیاں کسیں۔ انہیں بے وفائی کے طعنے دیئے کہ وہ اسلامی جمعیت طلبہ سے جماعت اسلامی میں کیوں نہیں آئے؟ تحریک استقلال سے بذریعہ مسلم لیگ (ن) تحریک انصاف میں کیوں چلے گئے؟... ان کے مزاحمانہ کردار پر بھی چھینٹے اُڑانے کی کوشش کی گئی۔ اس بات کا جواب تو جاوید ہاشمی ہی دے سکتے ہیں کہ انہوں نے کس موقع پر کیا موقف‘ کیوں اختیار کیا۔ ان کو قریب سے جاننے والے اس بات سے البتہ واقف ہیں کہ وہ دریا میں تیرنا چاہتے تھے۔ ان کا جذبہ ندی، نالوں میں سما نہیں سکتا تھا۔ مرکزی دھارے (مین سٹریم) کی سیاست کے شوق نے انہیں ان ملک گیر جماعتوں کی طرف رجوع پر مجبور کیا جو متحرک اور پُرجوش تھیں۔ جب ایئر مارشل اس معیار پر تھے تو وہ ان کی طرف راغب ہوئے۔ مسلم لیگ(ن) کو میدان میں پایا تو اس کے سپاہی بن گئے۔ عمران خان نے تبدیلی کا نعرہ لگایا (تو بہت سے دوستوں کے بہت کچھ) سمجھانے کے باوجود ان کے ساتھ ہو لئے: ؎
دو حرف تسلی کے جس نے بھی کہے اس کو
افسانہ سنا ڈالا، تصویر دکھا ڈالی
شریف برادران کی جلاوطنی کے دوران وہ مسلم لیگ(ن) کے صدر بنا ڈالے گئے تھے۔ نواز شریف کی نظر انتخاب کا بھرم انہوں نے رکھا اور پورے قد سے کھڑے رہے۔ جنرل پرویز مشرف کی جیل میں انہیں (خواجہ سعد رفیق کے ساتھ) تشدد کا بدترین نشانہ بنایا گیا، لیکن وہ اپنی جگہ سے ایک انچ نہیں ہٹے۔ بغاوت کا مقدمہ بنا کر کئی برس کے لئے حوالہء زنداں کر دیا گیا، لیکن ایک انچ نہیں جھکے۔ اس سے پہلے بھٹو دور میں بھی بحیثیت طالب علم رہنما وہ مزاحمت کا مظاہرہ کرکے نوجوانوں کے محبوب و مطلوب بن چکے تھے۔ پاکستانی سیاست کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ ان پر اس عہد میں ایک سو سے زیادہ مقدمات قائم کئے گئے اور کئی بار جیل کی سلاخوں نے ان کا امتحان لیا۔ جاوید ہاشمی کے کسی سیاسی فیصلے یا موقف کو ردّ کیا جا سکتا ہے، کہیں نہ کہیں خود پسندی کے جرثومے بھی ڈھونڈے جا سکتے ہیں، جذبات میں بہنے کا الزام بھی عائد کیا جا سکتا ہے لیکن موقع شناسی کو موقعہ پرستی کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ عمران خان پر کوئی الزام لگائے بغیر یہ کہا جائے تو بے جا نہیں ہو گا کہ جاوید ہاشمی کی کسی بات پر کسی ایسے شخص کو کوئی تعجب نہیں ہوا جو صحافت یا سیاست کے کوچے میں کھلی آنکھوں کے ساتھ موجود ہے۔ ٹی وی سکرینیں اور اخبارات کے صفحات پر اس کے شاہد اور شواہد موجود ہیں۔ زیرک اور باخبر اخبار نویس سہیل وڑائچ تک نے برملا اس کی تصدیق کر دی ہے۔ ہمارا اپنا مشاہدہ بھی کچھ مختلف نہیں ہے کہ کہیں نہ کہیں، کھچڑی تو پک رہی تھی۔ اس طرح کے تاثرات، انکشافات یا الزامات کی عدالتی تحقیقات تو شاید ممکن نہ ہو پائے لیکن یہ بات بھلائی نہیں جا سکتی کہ ہمارے ادارے اختیارات سے تجاوز کی لت میں مبتلا رہے ہیں۔ حمام کے ننگوں کو رعب جھاڑنے سے زیادہ اپنے لباس کی فکر اور تلاش کرنی چاہیے: ؎
شیخ جو ہے مسجد میں، ننگا رات کو تھا مے خانے میں
جبّہ، خرقہ، کرتا، ٹوپی، مستی میں انعام کیا
[یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے۔]