سات، آٹھ برس پہلے عمران خان سے جب بھی ملاقات ہوتی، عرض کیا جاتا کہ جس دن آپ لاہور میں ایک لاکھ افراد جمع کر لیں گے، اس دن آپ کی سیاست کا ''آغاز‘‘ ہو جائے گا۔ وہ کبھی یہ بات غور سے سنتے اور کبھی ہنس کر ٹال دیتے۔ 2011ء کے ابتدائی چھ سات ماہ کے دوران مختلف مقامات پر درجنوں جلسوں سے خطاب کرنے کے بعد ان میں ایک نیا جوش و خروش دیکھنے میں آیا۔ 30 اکتوبر کو لاہور کے جلسے سے چند ہفتے پہلے برادرم حفیظ اللہ خان نیازی کے دسترخوان پر سینئر میڈیا شخصیات کے ساتھ (خان صاحب کی) ملاقات میں تحریک انصاف کا مستقبل پھر زیر بحث آیا۔ وہ لاہور میں جلسہ کرنے کا فیصلہ کر چکے تھے اور پُرامید تھے کہ یہ بہت بڑا ہو گا۔ متعدد شہروں میں خطاب کے دوران انہوں نے شرکاء کی آنکھوں میں تعلق کی ایسی جھلک دیکھ لی تھی کہ اب وہ طاقت کا بڑا مظاہرہ کرنے پر تیار تھے۔ اس وقت بھی برملا عرض کیا گیا کہ اگر آپ نے لاہور شہر میں ایک لاکھ افراد جمع کر لئے تو پھر کامیاب لانچنگ ہو جائے گی۔ انہیں کوچہء سیاست میں قدم رکھے کم و بیش پندرہ برس ہو چکے تھے، لیکن ابھی تک سیاسی شخصیات انہیں اناڑی ہی سمجھ رہی تھیں۔ 1996ء میں تحریک انصاف کی بنیاد ایک غیر انتخابی تحریک کے طور پر رکھی گئی تھی۔ کرپشن کے خلاف جہاد کا آغاز کرتے وقت براہ راست کسی شخص یا گروہ کو ہدف نہیں بنایا گیا تھا۔ خیال تھا کہ مختلف جماعتوں کے صاف ستھرے افراد کا تعاون حاصل کرکے ایسا ''پریشر گروپ‘‘ بنایا جائے گا، جو قومی سیاسی جماعتوں کو اپنا راستہ بدلنے پر مجبور کر دے گا۔ عمران خان ذاتی طور پر اس وقت بھی مرجع خلائق تھے۔ ورلڈ کپ حاصل کرکے وہ کرکٹ کی دنیا میں جھنڈا گاڑ چکے تھے۔ شوکت خانم کینسر ہسپتال کی تعمیر ان کو چار چاند لگا چکی تھی۔ ان پر جان نثار کرنے والے نوجوان اس وقت بھی گنے نہیں جا سکتے تھے۔ ہسپتال کی تعمیر کے لئے چندہ مہم کے دوران انہوں نے لاہور کے فورٹریس سٹیڈیم میں بھی خطاب کیا تھا۔ وہاں زیڈ اے سلہری مرحوم جیسا اخبار نویس گھنٹوں ان کا انتظار کرتا رہا۔ سلہری صاحب نے تحریک پاکستان میں حصہ لیا تھا، قائد اعظم پر وہ سو جان سے نثار تھے۔ وہ عمران خان کو سیاست میں دھکیلنے کے لئے بے تاب ہو گئے کہ ان کے نزدیک سیاست مجمع اکٹھا کرنے ہی کا نام تھی۔
1996ء میں یہ بات کسی کے حاشیہء خیال میں نہیں تھی کہ 1997ء میں ہونے والے انتخابات میں خان صاحب کو دھکا دیا جا سکے گا۔ اس وقت مسلم لیگ (ن) کا سورج نصف النہار پر تھا اور اکثر سیاسی پنڈتوں کی پیش گوئی یہی تھی کہ وہ بھاری اکثریت سے کامیاب ہو گی۔ میرے جیسے بہی خواہ روکتے ہی رہ گئے‘ لیکن خان صاحب یہ جا اور وہ جا۔ ذاتی طور پر انہوں نے کئی حلقوں سے کاغذات نامزدگی داخل کئے، لیکن کسی ایک میں بھی کامیابی نہ مل سکی۔ تحریک انصاف نے بمشکل سات، آٹھ فیصد ووٹ حاصل کئے۔ داد دینی چاہیے کہ وہ دل برداشتہ نہ ہوئے، جس کوچے میں قدم رکھ دیا تھا، اس سے واپسی کا وہ تصور کرنے پر بھی تیار نہیں تھے۔ انہیں اطمینان تھا کہ جیسے کرکٹ کے قلعے کو (بالآخر) سر کر لیا ویسے ہی سیاست کو بھی اپنے گھر کی باندی بنا کر رہیں گے۔ 2002ء کے انتخابات میں وہ قومی اسمبلی میں جا پہنچے، لیکن اکیلا چنا بھاڑ تو نہیں جھونک سکتا تھا، سو ان کا دل اچاٹ اچاٹ ہی رہا۔ جنرل پرویز مشرف کی نگاہِ التفات کہیں اور ٹھہر گئی تھی اور خان صاحب کا دل غصے سے بھر گیا تھا۔ وہ رک کر نہیں دیئے یہاں تک کہ 2008ء نے دروازے پر دستک دے دی۔ اب بائیکاٹ کا بھوت سوار ہو گیا۔ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف تو یکے بعد دیگرے انتخابی میدان میں کود پڑے، لیکن خان صاحب نے ابتدائی فیصلے کو انتہائی بنا دیا۔ ان انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ان کی مفاہمت ممکن تھی اور ایک بڑا پارلیمانی گروپ ان کے ہاتھ لگ سکتا تھا، لیکن وہ اپنی ضد پر اڑے رہے۔ میاں نواز شریف کو انتخابی بائیکاٹ کے (ابتدائی) فیصلے کو بدلنے پر کوسنے کے علاوہ کچھ کرنے پر تیار نہ ہوئے۔ آخرکار 30 اکتوبر 2011ء کو لاہور کی تاریخ کا بہت بڑا جلسہ، مینار پاکستان کے سائے میں کرکے دکھا دیا۔ اس میں فیملیز شریک ہوئیں اور یہ ایک میلے کی صورت اختیار کر گیا۔ یہ منفرد اجتماع تازہ ہوا کا جھونکا تھا۔ یہیں سے ان کی سیاسی زندگی نے نیا جنم لیا اور سکہ بند انتخابیوں (ELECTABLES) کی نگاہیں ان کا طواف کرنے لگیں۔2013ء کے انتخابات میں انہوں نے اپنے آپ کو منوا لیا۔ مسلم لیگ (ن) کے بعد تحریک انصاف نے سب سے زیادہ ووٹ لئے تھے۔ پچھتر لاکھ سے اوپر رائے دہندگان اپنے ہاتھ ان کے ہاتھ میں دے چکے تھے۔ پیپلز پارٹی نے تحریک انصاف سے چند نشستیں تو زیادہ جیت لی تھیں لیکن ووٹوں کی تعداد ان سے کم تھی۔ وہ روایتی سیاست کی علامت بن کر رہ گئی تھی۔ پڑھے لکھے نوجوانوں کی بڑی تعداد کو خان صاحب نے اپنی طرف کھینچ لیا تھا۔ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری، اور حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی۔
میاں نواز شریف کے خلاف بھرپور مہم چلا کر انہیں اقتدار کے ایوانوں سے نکلوایا جا چکا ہے، اس کے لئے جو بھی پاپڑ بیلنا پڑے، جناب خان نے بیل لئے ہیں اور جہاں جہاں بھی ہاتھ بڑھانا، ملانا یا پھیلانا پڑا وہاں وہاں یہ سب کچھ کر گزرے ہیں۔ پاکستانی سیاست میں جو کھیل کھیلے جاتے رہے، ان میں بھی انہوں نے مہارت حاصل کر دکھائی ہے۔ انہوں نے جس طرح کی دھرنا سیاست کو فروغ دیا اور اپنے حریفوں کے خلاف جس طرح کی زبان استعمال کی، پولرائزیشن کو جس طرح بڑھایا اور دھکایا، وہ سب سامنے ہے۔ آج پاکستانی سیاست میں تقسیم بہت گہری ہو چکی ہے۔ تحریک انصاف پنجاب میں پیپلز پارٹی کو ہڑپ کر گئی ہے، سندھ پر یلغار جاری ہے۔ خیبر پختونخوا میں وہ اپنے آپ کو محفوظ سمجھ رہی ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے ووٹروں کو اس نے اپنی جگہ پکا بھی کر دیا ہے۔ اس کے حامیوں میں سے بہت کم متزلزل نظر آئے ہیں۔ نواز شریف کے ساتھ جو کچھ ہو چکا اور جو کچھ ہو رہا ہے، اس نے انہیں قصہء ماضی نہیں بنایا۔ ان کے بھائی شہباز شریف اور ان کی بیٹی مریم ،خان صاحب کے راستے میں دیوار بن رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے لئے شر میں سے خیر یوں برآمد ہوئی ہے کہ یہ اس وقت حکومت میں بھی ہے اور اپوزیشن میں بھی۔ دونوں کا لطف اٹھا رہی ہے، ایک جانب نواز شریف اور ان کی بیٹی نے سر ہتھیلی پر رکھا ہوا ہے تو دوسری جانب سندھ اور خیبر پختونخوا کو چھوڑ کر پورے ملک کی صوبائی اور وفاقی انتظامیہ ان کے مریدین کے پاس ہے۔ خان صاحب آگ بگولہ ہیں، کچھ بس نہیں چل رہا کہ کیا کر گزریں۔ زبان سے شعلے نکل رہے ہیں، لیکن یہ خدشہ بھی جان نہیں چھوڑ رہا کہ آگ بھڑک اٹھی تو پھر سب کے ارمان جھلس جائیں گے ؎
لگے کی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پہ صرف ''ہمارا‘‘ مکان تھوڑی ہے
مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی، دونوں کا مفاد اس میں ہے کہ وہ عام انتخابات کی منزل کو اوجھل نہ ہونے دیں، پیپلز پارٹی اور پی این اے کی مثال سے عبرت پکڑیں، اسے دہرانے کی ضد نہ کریں۔ 2018ء پیش نظر ہے تو دونوں کو تمام تر احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ہوں گی۔ غصہ تھوک کر، آنکھیں کھول کر، خوب دیکھ بھال کر قدم اٹھانا ہوں گے۔
[یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے۔]