"MSC" (space) message & send to 7575

علالت اور سیاست

بیگم کلثوم نواز شریف لندن میں وینٹی لیٹر پر ہیں، کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ انہیں اور ان کے لواحقین کو کتنا عرصہ اس اذیت میں مبتلا رہنا پڑے گا۔ بس دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی مشکل آسان کرے اور انہیں اس دنیا میں ہنسنے بسنے کی مزید توفیق عطا کر دے‘ جس کی صورت گری کے لئے ایک زمانے میں انہوں نے بھی خون پسینہ ایک کیا تھا۔ محترمہ سے جب بھی ملاقات ہوئی، تکلف اور آداب کے ساتھ ہوئی۔ وہ اور میں اپنائیت کے ایک ایسے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں جس کی پوری ترجمانی الفاظ میں نہیں ہو سکتی۔ شریف فیملی سے شناسائی میاں محمد شریف مرحوم سے شروع ہوتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی شہ زوری نے اتفاق فائونڈری پر قبضہ کیا تو ان کے ساتھ ہمدردی پیدا ہو گئی۔ دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے کے مصداق ہر وہ شخص ہمارے نزدیک محترم ہو جاتا تھا، جس پر ''بھٹو بجلی‘‘ گرتی تھی۔ لیفٹیننٹ جنرل حبیب اللہ کو انہوں نے گرفتار کیا تو میرے قلم نے پُرزور احتجاج کیا۔ سیٹھ احمد دائود اور (غالباً نجم الدین) ولیکا کو حوالات میں بند کیا گیا تو ان کے حق میں بھی آواز بلند کی کہ پاکستان کے ان معزز شہریوں کو عزت کے ساتھ زندگی گزارنے کا حق تھا۔ ان کی سرمایہ کاری نے پاکستانی معیشت کو بڑھاوا دیا تھا، اس لحاظ سے یہ توقیر کے مستحق تھے، لیکن بھٹو مرحوم طاقت کے ہر مرکز کو زیر کرنا چاہتے تھے۔ سرمایہ کاری کو سرمایہ داری کا نام دے کر انہوں نے گالی بنا دیا تھا اور کارخانوں پر قبضے کو قومیانے کا نام دے کر سرکاری افسران وہاں بٹھا دیئے تھے۔ اگر سقوطِ ڈھاکہ نہ ہوتا تو پاکستانی معیشت کا یہ سقوط بھی ممکن نہ ہوتا۔ اس کے اثرات سے پاکستان ابھی تک نکل نہیں پایا۔ جن افراد اور خاندانوں میں پاکستان کو جرمنی اور جاپان بنانے کی صلاحیت تھی، ان کے ہاتھ پائوں توڑ دیئے گئے، کوئی ملک میں ایڑیاں رگڑتا رہا تو کوئی بیرونِ ملک جا کر قسمت آزمانے لگا اور وہاں چشمے جاری کر دیئے۔ لیفٹیننٹ جنرل حبیب اللہ نے جب زنداں میں ہفت روزہ ''زندگی‘‘ دیکھا تو ان کے دل میں ہمارے ادارے کے لئے وہ جگہ بنی جو تادمِ آخر قائم رہی۔ رہائی کے بعد ان سے ملاقات ہوئی تو کہنے لگے، آپ کے احتجاج سے معلوم ہوا کہ (اس ملک میں) میرا بھی کوئی ہے؟ بعد میں اُفتاد پڑی تو جنرل حبیب اللہ سینہ تان کر قریشی برادران کے ساتھ کھڑے ہوئے لیکن یہ کہانی پھر کبھی سہی۔
میاں محمد شریف مرحوم جنرل ضیاء الحق کے دور میں واپس آئے تو ان سے ملاقات ہوئی اور درد کا رشتہ قریب لاتا چلا گیا۔ محترم مجید نظامی اور محترم موج دین خان مرحوم (ایک بڑے سرکاری افسر جو بھٹو صاحب کے عتاب کا نشانہ بن کر ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے) کے میاں صاحب سے قریبی تعلقات تھے، میری ان سے نیاز مندی تھی تو ان کے ذریعے ان تک رسائی ہوئی جو تعلق میں ڈھل گئی۔ میاں محمد شریف اور ان کے ''اتفاق برادرز‘‘ لاہور شہر ہی کیا ملک بھر کے ممتاز صنعت کار تھے، سی ایم لطیف کی بیکو کے بعد ان کی اتفاق فائونڈری ایک بڑا ادارہ سمجھی جاتی تھی، کروڑوں، اربوں میں وہ کھیلتے تھے۔ لیکن جب سرکار نے اسے ہتھیایا تو خالی ہاتھ ہو گئے اور پھر تیشہ پکڑ لیا۔ برسوں بعد یہ ادارہ واپس ہوا تو ایک نئے عزم کے ساتھ پرانے سفر کا آغاز کر لیا۔ ان کا جرم یہ بتایا جاتا تھا کہ انہوں نے 1970ء کے انتخابات میں فرزندِ اقبال ڈاکٹر جاوید اقبال (مرحوم) کی انتخابی مہم میں ان کی مالی اعانت کی تھی۔ یاد رہے کہ وہ لاہور شہر میں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے مقابلے میں قومی اسمبلی کے امیدوار تھے، یا یہ کہہ لیجئے کہ بھٹو صاحب ان کے مقابلے میں آ کھڑے ہوئے تھے۔ اتفاق فائونڈری پر اگر قبضہ نہ ہوتا تو شاید میاں محمد شریف پاکستانی سیاست کی طرف متوجہ نہ ہوتے۔ اس واردات نے انہیں یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ پاکستانی معیشت کے تحفظ اور فروغ کے لئے سیاست پر توجہ کرنا بھی ضروری ہے۔ وہ یکے بعد دیگرے اپنے دو بیٹوں کو سیاست میں لائے، محمد نواز شریف اور محمد شہباز شریف کے نام سے دنیا متعارف ہوئی اور وہ دن آیا کہ شریف خاندان اقتدار کی بلندیوں کو چھونے لگا۔
میاں محمد شریف اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔ ان کے بیٹوں کی سیاست کو بڑے چیلنج درپیش ہیں، جب تک وہ اس دنیا میں رہے، اپنے بیٹوں پر ان کی کڑی نظر رہی۔ وہ سیاستدان تو نہیں تھے لیکن انہوں نے دنیا دیکھ رکھی تھی۔ ان کے اپنے اصول اور ضابطے تھے، جن کی خلاف ورزی انہیں منظور نہ ہوتی تھی۔ پاکستان کے انتہائی ممتاز اخبار نویس زیڈ اے سلہری نے انہیں ''مردِ فولاد‘‘ (Man of Steel) قرار دیا تھا۔ ان کا دن طلوع آفتاب سے بہت پہلے شروع ہو جاتا تھا۔ جس رات اتفاق فائونڈری کو قومیا گیا، اس صبح بھی وہ معمول کے مطابق اٹھے اور کام کا آغاز کر دیا۔ نواز شریف ان سے ملنے کے لئے ہر ہفتے اسلام آباد سے لاہور آتے، اور ان کے اشارۂ ابرو پر رکتے اور کھڑے ہو جاتے۔ ان کے آخری ایام سعودی عرب میں گزرے۔ اب وہ جاتی امرا میں آسودۂ خاک ہیں۔ شریف خاندان میں ان کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ جس سلطنت کو انہوں نے برسوں میں تیار کیا اور اس کی دن رات حفاظت کی تھی، اب وہ خطرے میں ہے۔ نواز شریف کی سیاست بڑے نشیب و فراز سے گزری ہے۔ وہ تین بار وزیر اعظم بنے، جیل کاٹی، جلا وطنی برداشت کی، مقدموں کا سامنا کیا، لیکن ان کا ستارہ ڈوب نہیں پایا۔ وہ اِدھر ڈوبے، اُدھر نکلے کی مصداق بنے رہے۔ لیکن اب وہ انتہائی مختلف صورت حال سے دوچار ہیں۔ کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ مستقبل کے پردے میں ان کے لئے کیا چھپا ہوا ہے۔ شریف خاندان کو ایک روایتی قدامت پسند خاندان سمجھا جاتا ہے۔ اس کی خواتین کے لئے سیاست شجرِ ممنوعہ رہی لیکن جب جنرل پرویز مشرف نے شریف اقتدار پر شب خون مارا، نواز شریف اور شہباز شریف حوالۂ زنداں ہوئے، خود میاں محمد شریف کو بھی چند روز نظر بندی کا مزہ چکھنا پڑا تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ اب اپنی بہو کلثوم کو میدان میں اتارا جائے۔ بیگم صاحبہ کے لئے یہ ایک نیا تجربہ تھا، لیکن وہ ایک پڑھی لکھی خاتون ہونے کے ناتے سیاست پر نظر رکھتی تھیں۔ ان کے میدان میں آتے ہی جنرل پرویز مشرف کی نیندیں اُڑ گئیں۔ انہوں نے سیاسی کارکنوں کو ایک نیا ولولہ عطا کر دیا۔ لاہور شہر میں سرکاری دستوں نے ان کی کار کا راستہ روکا تو وہ اسے بند کر کے بیٹھ گئیں۔ کار کو کرین کے ذریعے اٹھایا گیا تو یہ تصویر ایک آگ سی لگا گئی۔ اس سفر میں جاوید ہاشمی بھی ان کے ہمراہ تھے۔ جنرل پرویز مشرف نے اخباری مدیران سے ایک ملاقات میں برملا اعتراف کیا کہ شریف خاندان کو بیرون ملک جانے کی اجازت دلانے میں بیگم کلثوم نواز کا بڑا ہاتھ تھا کہ ان کی پیش قدمی کو روکنا ناممکن ہوتا جا رہا تھا۔ بیگم کلثوم نے اس کے بعد سیاست میں براہ راست حصہ نہیں لیا، لیکن وہ اپنے شوہر کی طاقت بنی رہیں۔ اپنی ہونہار بیٹی مریم کی حوصلہ افزائی بھی کرتی رہیں‘ جو آزمائش کی اس گھڑی میں‘ جس سے اب پالا پڑا ہوا ہے، ایک نئے باب کا عنوان بن چکی ہیں۔
بیگم صاحبہ کے شوہر اقتدار سے محرومی کے بعد اب اپنی بیٹی اور داماد کے ساتھ احتساب عدالت کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان کے بین الاقوامی شہرت یافتہ وکیل خواجہ حارث نے ان کے حق میں دلائل کا انبار لگا دیا ہے۔ ان کے بقول لندن فلیٹس سے نواز شریف کا کوئی تعلق ثابت نہیں کیا جا سکا، لیکن حریفانِ سیاست کی مہم زوروں پر ہے۔ وہ اس مقدمے سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) انتخابات کے لئے لنگر لنگوٹ کس رہی ہے، اس کے ووٹ بینک پر طرح طرح کے حملے کئے جا رہے ہیں، لیکن مخالفین کو کسی طور اطمینان نہیں ہو پا رہا۔ ووٹرز کے ارادوں کو بھانپ بھانپ کر وہ ہلکان ہو رہے ہیں۔ بیگم کلثوم نواز بسترِ علالت پر ہیں گرد و پیش سے بے نیاز، وہ کچھ دیکھ یا سن نہیں پا رہیں، لیکن ان کے ساتھ ہمدردی کی لہر ہے کہ دلوں میں اترتی چلی جا رہی ہے۔ اے ہمارے رب! انہیں صحت عطا کر کہ تو ہر چیز پر قادر ہے۔ ہر دعا سن سکتا اور اسے قبول کر سکتا ہے۔ تو علالت اور عدالت کو ہماری سیاست سے الگ کر دے!
[یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے۔]

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں