مریم نواز شریف کی پہلی باقاعدہ پریس کانفرنس پاکستانی سیاست (اور مسلم لیگ ن) پر کیا اثرات مرتب کرے گی، اس بارے میں اس وقت کوئی فیصلہ کن گفتگو تو نہیں کی جا سکتی کہ پاکستانی سیاست کا اونٹ (یا مولانا مودودیؒ مرحوم کے بقول گدھا) کسی بھی وقت کوئی بھی کروٹ لے سکتا ہے۔ اگر مولانا کے الفاظ سے استفادہ کیا جائے تو کروٹ لینے کی ضرورت ہی نہیں رہتی، پھر بحث دولتّیوں پر ہو گی کہ کس کو کس وقت کس کی دولتّی نصیب ہو جائے گی۔ پاکستانی سیاست کی خوبی (یا خامی) یہ ہے کہ اس کے بارے میں حتمی طور پر کوئی بات نہیں کی جا سکتی۔ جب اقتدار کا سورج نصف النہار پر ہو اور غروب کا تصور بھی نہ کیا جا سکتا ہو، تب ہی غروب کا آغاز ہو چکا ہوتا ہے۔ اسی کو قرآن کریم نے دن میں سے رات اور رات میں سے دن نکالنے کے مترادف قرار دیا ہے۔ عین اس وقت جب رات پورے جوبن پر ہوتی ہے اور اس کی ظلمت اپنے آپ پر اترا رہی ہوتی ہے، سورج کی چاپ سنائی دینے لگتی ہے، اور بالآخر وہ اس طرح طلوع ہوتا ہے کہ رات کا ہلکا سا سایہ بھی دیکھنے کو نہیں ملتا۔ ایک بار مرحوم جنرل محمد ضیاء الحق سے گفتگو کرتے ہوئے یہ بات عرض کی گئی تھی۔ جنرل صاحب محمد خان جونیجو کی تاجپوشی کے بعد مسلم لیگ کے صدر پیر صاحب پگاڑا سے یہ دو ٹوک گزارش کر چکے تھے کہ اپنے پاس جو کچھ موجود ہے وہ بھی اپنے مبینہ ''روحانی شاگرد‘‘ محمد خان جونیجو کے حوالے کر دیں۔ پیر صاحب اپنی تمام تر ستارہ شناسی کے باوجود اپنے ستارے کی گردش کو نہ روک پائے تھے، اور بغلیں جھانکتے ہوئے سر ہلا دیا تھا۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ جب نومنتخب ارکان قومی اسمبلی کو مسلم لیگ کی جنرل کونسل قرار دے کر اجلاس بلایا گیا، تو جماعت کے صدر کے انتخاب کا مرحلہ درپیش تھا۔ جنرل ضیاء الحق علی الاعلان گویا ہوئے کہ پیر صاحب جو اختیارات میرے تھے، مَیں نے اُن سے وزیر اعظم محمد خان جونیجو کے حق میں دستبرداری اختیار کر لی ہے، اب جماعت کی صدارت جو آپ کے پاس ہے، ان کی خدمت میں پیش کر دیں۔
پاکستانی سیاست کی روایت کے مطابق وزارتِ عظمیٰ کے ساتھ نوزائیدہ مسلم لیگ کا صدر بن کر ہی حکومت کی طاقت کو جماعت کی طاقت بنانے کا آسمانی فریضہ ادا کیا جا سکتا تھا۔ ایک مضبوط سیاسی جماعت کے بغیر بے نظیر بھٹو کی صورت میں اٹھنے والے طوفان کا راستہ روکنا ممکن نہیں تھا، غیر جماعتی انتخابات کے بائیکاٹ کے ذریعے محترمہ اپنے ایک پائوں پر کلہاڑا تو چلا چکی تھیں، لیکن پھر بھی ایک بڑی سیاسی جماعت ان کے پرس میں موجود تھی۔ اس سے ٹکر لینے کے لیے غیر جماعتی اسمبلی کو جماعتی بنانے کا کڑوا گھونٹ جنرل ضیاء الحق کو پینا پڑا، اور وزیر اعظم محمد خان جونیجو کو بھی کسی نہ کسی رنگ میں بھٹو کا مثیل بنانا پڑا۔ یہ اور بات کہ موصوف اپنے آپ کو سچ مچ کا بھٹو سمجھنے لگ گئے اور جنرل ضیاء الحق کا فضل الٰہی چودھری بنانا شروع کر دیا۔ اس کا جو نتیجہ نکلنا تھا، اور جو نتیجہ نکلا وہ سب کے سامنے ہے۔ قومی اسمبلی تحلیل کرنے کے اختیار سے مالامال صدر نے اُلٹا محمد خان جونیجو کا خواجہ ناظم الدین بنا ڈالا۔ پیر صاحب پگاڑا کو بہرحال اپنے اختیار سے دستبردار ہو کر جونیجو صاحب کو مسلم لیگی صدارت کی ٹوپی اوڑھانا پڑی۔ محمد خان جونیجو کا اقتدار جڑیں پکڑ رہا تھا اور ان کا طوطی بولنا شروع ہوا تھا کہ جنرل صاحب کا طوطی گھبرا گیا۔ انہی دِنوں ان سے ایک تفصیلی ملاقات ہوئی جس میں برادر عزیز حفیظ اللہ نیازی بھی موجود تھے کہ قائد اعظم یونیورسٹی کے طاقتور طالب علم رہنما کے طور پر وہ جنرل ضیاء الحق کے دِل میں جگہ بنائے ہوئے تھے۔ ان کی طلبہ قیادت سابق ہو چکی تھی لیکن تعلقات سابق نہیں ہو پائے تھے۔ انہی کی تحریک پر اس ملاقات کا اہتمام کیا گیا تھا۔ تفصیلات سے قطع نظر، مطلع سیاست کا جائزہ لیا جانے لگا تو مَیں نے جرنیلی صدر سے عرض کیا کہ عروج اپنی انتہا کو پہنچتا ہے تو زوال شروع ہو جاتا ہے۔ دوپہر کے بارہ بجے سورج انتہائی بلندی پر ہوتا ہے، لیکن ایک سیکنڈ بعد ہی زوال کا آغاز ہو جاتا ہے۔ اس نکتہ سنجی پر جنرل صاحب نے قہقہہ لگایا اور بولے: بات تو آپ کی ٹھیک ہے، لیکن یہ معلوم نہیں ہو پاتا کہ بارہ بج چکے ہیں‘ مسند نشین پونے بارہ ہی سمجھتا رہتا ہے۔ بہرحال اقتدار جیسا بھی ہو اور جس کا بھی ہو، اس کے بارہ بجتے ہیں، اور پھر واپسی کا سفر شروع ہو جاتا ہے۔ مقتدر قوتیں اس نکتے کا ادراک نہیں کر پاتیں، وہ پونے بارہ سمجھ کر آگے بڑھنے کی کوشش جاری رکھتی ہیں، لیکن ہاتھ خالی ہونا شروع ہو چکے ہوتے ہیں۔
جب یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ ہمارا سورج کبھی غروب نہیں ہو گا تو اسی لمحے وہ پھسلنا شروع ہو جاتا ہے... مریم نواز شریف کی پریس کانفرنس میں بہت کچھ ایسا تھا، جسے ہضم کرنا مشکل ہے، لیکن کچھ ایسا بھی تھا کہ جس کا انکار مشکل ہے۔ بظاہر حالات ان کی سیاست کے لیے ہرگز سازگار نہیں ہیں، نواز شریف علیل ہیں اور جیل میں ہیں۔ علالت کی بنیاد پر سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ سے ان کی طبّی ضمانت کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔ ان کی خواہش (یا ضرورت) کے مطابق ان کے بیرون ملک جا کر علاج کرانے کا کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا۔ حکومت کے سینے میں بھی دِل کی جگہ پتھر ہے۔ مصر کے معزول (اور واحد منتخب) صدر ڈاکٹر مرسی عدالت کے کٹہرے میں کھڑے کھڑے جان دے کر اپنی حکومت کا چہرہ پوری دُنیا کو دکھا گئے ہیں۔ پوری دُنیا جان چکی ہے کہ وہ شوگر کے مریض تھے‘ لیکن انہیں ادویات فراہم نہیں کی جا رہی تھیں۔ چھ سال کی قید کے دوران چار یا پانچ بار ان کے اہل خانہ اور وکلا کو ملاقات کی اجازت دی گئی۔ انہیں قیدِ تنہائی میں رکھا گیا تھا، اور سائونڈ پروف کٹہرے (یا پنجرے) میں بند کرکے کمرۂ عدالت میں پیش کیا جاتا تھا۔ ڈاکٹر مرسی نے فاضل جج کو بتایا تھا کہ وہ کئی بار شوگر کم ہونے کے باعث بے ہوش ہوئے، لیکن انہیں دوا فراہم نہیں کی گئی۔ یہ الفاظ ادا کرتے کرتے وہ زمین پر گرے، اور ان کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گی، شاید ان کا شوگر لیول ایک بار پھر کم ہو کر جان لیوا ثابت ہو گیا تھا۔ مصر کے معزول صدر کو ترکی کے صدر طیب اردوان نے شہید قرار دیا، اور پورا عالم اسلام اس کی تصدیق کر رہا ہے۔ مریم نواز کا کہنا ہے کہ وہ اپنے والد کو مرسی نہیں بننے دیں گی، اور عوام کا دروازہ کھٹکھٹاتی چلی جائیں گی۔ پاکستان جو کچھ بھی ہو، مصر بہرحال نہیں ہے، اس کی اپنی تاریخ، اپنی روایات، اپنی انسانیت، اور اپنی عدالتیں ہیں۔ توقع کی جانی چاہیے کہ نواز شریف اور مریم کی آواز صدا بصحرا ثابت نہیں ہو گی۔ انہوں نے رابطۂ عوام کے لیے گھر سے نکلنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ اپنی اور اپنے والد کی طرف سے میثاقِ معیشت کو مذاقِ معیشت قرار دیا ہے، (اجمل جامی کے سوال نے اس اتفاق کو واشگاف کر دیا) قرضوں کی تحقیقات کے لئے بننے والے کمیشن کی تشکیل کو قبول کرنے سے انکار کیا ہے، اس کے لیے بین الاقوامی آڈیٹرز کی خدمات حاصل کرنے کی تجویز دی ہے۔ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان اس پریس کانفرنس کو خود کش دھماکہ اور چچا شہباز شریف پر حملہ قرار دے رہی ہیں۔ اسے ایک نئی مسلم لیگ کی بنیاد رکھنے کے مترادف بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ نکتوں پر بحث ہوتی رہے گی، فی الحال معاملہ یہ ہے کہ پاکستان کے ماتھے پر وہ داغ نہیں لگنا چاہیے، جو جنرل سیسی نے مصر پر لگا دیا ہے۔ پاکستان اور نواز شریف کہیں بہتر سلوک کے مستحق ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان اپنے مخالفوں اور حامیوں کو حیران کر دینے کی صلاحیت سے مالا مال ہیں۔ اگر وہ بوجھل دِل کے ساتھ ہی سہی، صدرِ پاکستان کو (برائے علاج) نواز شریف کی سزا معطل کرنے کی سفارش کر دیں تو ان کا قد ماپنا کسی کے بس میں نہیں رہے گا۔ مریم نواز کے لہجے، اور الفاظ کو رکھیے ایک طرف، اسے اپنے باپ سے بے پناہ محبت کرنے والی بیٹی کی آزاد شاعری قرار دے لیجیے، لیکن ان کی آواز پر کان دھر ڈالئے کہ یہ عرش تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتی ہے ؎
میری آہ جو پہنچی برفلک تو سن کے کہنے لگے ملک
صد آفریں تیری آہ کے، اس نے عرش کو بھی ہلا دیا
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)