پاکستان کی معیشت اور سیاست کے محافظ جو کچھ کر رہے ہیں،اور اپنے اقدامات سے جن نتائج کی توقعات باندھے بیٹھے ہیں،ان کے بارے میں ہر ایک کی رائے اپنی اپنی ہے۔ ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ پہلے سیاست کو اُلجھایا گیا،پھر معیشت بھی زیر دام آ گئی۔ یوں ترقی کی گاڑی رُک گئی۔ انتخابات سے پہلے شرح نمو6فیصد کو چھونے والی تھی۔ مالیاتی خسارہ قابو میں تھا۔محصولات کی آمدنی میں پانچ سال کے اندر اندر سو فیصد اضافہ ہو چکا تھا، افراطِ زر کی شرح انتہائی کم تھی۔ بہت کم شرح سود پر قرض فراہم کیا جا رہا تھا۔ سٹاک ایکسچینج فراٹے بھر رہی تھی، اور دُنیا بھر میں پاکستانی معیشت کے کمالات کو تسلیم کیا جا رہا تھا۔ کرنٹ اکائونٹ کا خسارہ بڑھا ہوا تھا،لیکن اس پر قابو پانا ممکن تھا۔بجلی اور گیس کی فراہمی نے توانائی کا بحران ختم کر دیا تھا، دہشت گردوں اور دہشت گردی کی کمر توڑی جا چکی تھی۔ پاکستان غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے پُرکشش خطہ بن رہا تھا۔ بہت سے اپنے کارخانوں کو وسعت دینے کے منصوبے بنا رہے تھے، نئے نقشے بھی بن رہے تھے۔ بہت سوں سے مذاکرات جاری تھے،پانامہ دھماکہ ہوا، اور بے یقینی کے سائے لہرانے لگے۔ وزیراعظم نواز شریف کو نکال باہر کیا گیا۔ان کی جگہ شاہد خاقان عباسی نے لے لی، اور وہ اپنے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کے ساتھ معیشت کو سنبھالنے میں لگ گئے۔گاڑی کو پٹڑی سے اتارا نہ جا سکا،اور وہ ہچکولے کھا کر پھر چھکا چھک رواں ہو گئی۔ انتخابات سے پہلے اور دوران جو کچھ ہوا،اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ حکومت مسلم لیگ (ن) کے ہاتھ سے نکل گئی۔عمران خان وزیراعظم بن گئے،خیبرپختونخوا کے ساتھ ساتھ پنجاب کی صوبائی حکومت بھی ان کے تصرف میں آ گئی۔ تحریک انصاف کو خیبرپختونخوا اسمبلی کے سوا کہیں بھی اکثریت کی حمایت حاصل نہ تھی،مرکز اور پنجاب دونوں جگہ چھوٹی جماعتوں اور آزاد ارکان کو ساتھ ملانا پڑا۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد وزیراعظم نے اپنے سیاسی حریفوں کو کرپٹ کہہ کر گردن زدنی قرار دینے کا سلسلہ جاری رکھا، ملکوں ملکوں جا کر ان کے لتّے اس طرح لیے کہ پاکستانی معیشت پر سے اعتماد اٹھتا گیا۔ کرنٹ اکائونٹ کے خسارے سے نبٹتے نبٹتے مالیاتی خسارے کو بڑھاوا دے دیا۔ شرح نمو کم ہونے لگی۔افراطِ زر میں اضافہ ہوا، شرح سود بڑھائی گئی، روپے کی قدر گرتی چلی گئی۔ آئی ایم ایف سے فی الفور زرِمبادلہ کی سپورٹ لینے کے بجائے،اگرچہ مگرچہ میں وقت ضائع کیا گیا۔وزیر خزانہ اسد عمر اور ان کے رفقا بروقت فیصلے نہ کر سکے، اور یوں معیشت کا بحران گہرا ہوتا گیا۔
دوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ سابقہ حکومت نے لیپا پوتی کر کے معاملات پر غازہ مل رکھا تھا۔ بھاری مقدار میں قرضے لے کر ضائع کر دیے گئے تھے۔ پہلے پیپلزپارٹی اور پھر مسلم لیگ(ن) نے لوٹ مار کا بازار گرم کر کے مصنوعی ترقی کا تانا بانا بنا ہوا تھا۔ تحریک انصاف کو معیشت آئی سی یو میں ملی، اس نے وہاں سے برآمد کر کے وارڈ میں داخل کرایا، اور اب اس کی صحت بحال کرنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہے۔کرنٹ اکائونٹ کا خسارہ جان لیوا تھا۔ پرانے قرضوں کی قسطیں ادا کرنا تھیں۔ اگر انہیں ادا نہ کیا جا سکتا تو ملک دیوالیہ ہو جاتا۔ دن رات ایک کر کے زرمبادلہ کے ذخائر اکٹھے کئے گئے۔دوست ممالک (سعودی عرب،چین، متحدہ عرب امارات اور بعدازاں قطر) امداد کو پہنچے، اور یوں ایک بڑے خطرے کو ٹال دیا گیا۔ گزشتہ حکومتیں قرضوں پر قرض لیتی رہیں۔ بجلی اور گیس کے خساروں پر کمی نہ پائی جا سکی۔ برآمدات کی طرف توجہ نہ دی گئی۔ زرمبادلہ کمانے والے صنعتی سیکٹر سے اغماض برتا گیا، درآمدات بڑھتی گئیں اور برآمدات گھٹتی چلی گئیں۔ ہر شعبے میں خسارہ ہمارے وجود کو نگلے دے رہا تھا، ان سوراخوں کو بند کرنا ضروری تھا، سو اب اس طرف توجہ دی جا رہی ہے۔ آئی ایم ایف کے مطالبات سے قطع نظر معیشت کو پائوں پر کھڑا کیا جا رہا ہے۔ ایمنسٹی سکیم کے ذریعے ایک لاکھ سے زائد نئے ٹیکس گزار سسٹم میں داخل کئے گئے ہیں۔ آئندہ سال محصولات کا ہدف ساڑھے پانچ ہزار ارب مقرر کیا گیا ہے جو بظاہر بہت زیادہ ہے لیکن اسے حاصل کئے بغیر آگے بڑھنا ممکن نہیں ہو گا۔ اس وقت جو بھی کساد بازاری ہے،جو بھی مہنگائی بڑھ رہی ہے، شرح نمو کم ہونے سے بے روزگاری میںجو بھی اضافہ ہو رہا ہے،یہ سب ناگزیرہے۔گزشتہ کئی عشروں کی بے تدبیریوں کا نتیجہ ہے۔گزشتہ حکومتیں جو نقصان پہنچا گئی ہیں،ان کا ازالہ کرنے کے لیے سخت فیصلے کرنا پڑ رہے ہیں، اس لیے صبر سے کام لینا ہو گا، مشکلات کا پہاڑچیر کر ہی دودھ کی نہر تک پہنچا جا سکے گا۔
یہ دو نقطہ ء ہائے نظر ہیں، جن کے دلائل اپنے اپنے ہیں۔ دونوں پر یقین کرنے والے بھاری تعداد میں موجود ہیں۔ ایک دوسرے سے اُلجھ رہے ہیں اور ایک دوسرے کو زچ کر رہے ہیں۔کسی ایک نقطہ ء نظر کے حق میں دلائل دینے اور ماضی کے اندر دور تک اترنے سے پوائنٹ سکورنگ تو ممکن ہے، لیکن حالات کو بہتر بنانے میں شاید ہی کوئی مدد مل سکے۔ وجوہ جوبھی ہوں، زیادہ تر ذمہ داری سابقہ حکومتوں پر ڈالی جائے یا موجودہ حکومت پر، بنیادی نکتہ یہ ہے کہ اس وقت ہم جہاں کھڑے ہیں، وہاں سے نکلنے کے لیے کمرِ ہمت باندھے رکھنا ضروری ہے۔ ایک دوسرے پر حملے کرنے سے مستقبل کی تعمیر نہیں کی جا سکے گی۔ اچھی خبر یہ ہے کہ افواجِ پاکستان اور وزیراعظم عمران خان کے درمیان اعتماد کا رشتہ قائم ہے، دونوں طاقتیں ایک دوسرے کا ہاتھ بٹا رہی ہیں۔ لازم ہے کہ وہ اپنی مساعی میں اپوزیشن جماعتوں کو بھی شامل کر لیں۔ اہل ِ اقتدار انہیں محاذ آرائی کی سیاست میں نہ دھکیلیں۔ معاملات کو سڑکوں پر نہ آنے دیں۔ ہڑتالوں اور مظاہروں کا راستہ روکیں، ارکان کو لوٹے بنا کر اپنی طاقت میں اضافے کے زعم میں مبتلا نہ ہوں۔ رانا ثناء اللہ جیسے سیاسی رہنمائوں کے خلاف اس طرح کی کارروائیوں کا راستہ روکیں، جن سے ماضی کی المناک تلخیوں کی یاد تازہ ہوتی ہو۔ رانا صاحب پرمنشیات کے مقدمے نے چودھری ظہور الٰہی مرحوم پر بھٹو مرحوم کے دور میں درج کئے جانے والے بھینس چوری کے مقدمے کی یاد تازہ کر دی ہے۔ بھٹو صاحب جیسے زیرک سیاست دان کا اقتدار اگر بھونڈی حرکتوں سے آب ِحیات حاصل نہیں کر پایا، اس کی عمر کم ہوتی اور اپنے خلاف اقدام کے لیے فضا بناتی چلی گئی تو ہمارے عظیم الشان کرکٹر ہیرو کو بالا کیسے رکھے گی؟ جنابِ وزیراعظم، وزیراعظم بن کر سوچیں... تاریخ پر ایک نظر تو ڈال ہی لیں۔
ڈاکٹر خیرات محمد ابن رسا مرحوم
ڈاکٹرخیرات محمد ابن رسا 93سال اس دنیائے رنگ و بو میں گزار کر راہیٔ ملک عدم ہوئے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے ان کی نقل و حرکت محدود ہو چکی تھی۔ وہ کشمیر کے نامور شاعررسا جاودانی کے بیٹے تھے۔ جموں کے سائنس کالج سے گریجوایٹ ہوئے اور علی گڑھ یونیورسٹی سے کیمسٹری میں ماسٹرز کیا۔ پاکستان بننے کے بعد اسے اپنا وطن بنایا اور 1959ء میں برائون یونیورسٹی (امریکہ) سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ انہوں نے تدریس کے شعبے کو اپنایا اور برسوں نوجوانانِ وطن کو سنوارنے، اُجالنے میں لگے رہے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں آٹھ سال پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے۔ مختلف قومی اور بین الاقوامی اعزازات کے مستحق ٹھہرے۔
ڈاکٹر خیرات کی معتدل مزاجی اور انکساری نے انہیں ممتاز کیا۔ پُرشور اور پرجوش طلبہ سے بھی وہ منصفانہ معاملہ کرتے اور دلوں میں اتر جاتے۔ بلاشبہ وہ پاکستان کے ممتاز ترین ماہرین تعلیم میں سے ایک تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور ان کی جستجو اور لگن آج کے اساتذہ کو بھی نصیب فرمائے۔
(یہ کالم روزنامہ '' دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)