"MSC" (space) message & send to 7575

دورۂ امریکہ کے بعد

وزیراعظم عمران خان امریکہ کے تین روزہ دورے کے بعد واپس اسلام آباد پہنچے تو ان کے مداحوں نے ان کا پُرجوش خیر مقدم کیا۔ فی الحقیقت ایسے معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ ''ورلڈ کپ‘‘ جیت کر واپس آئے ہیں۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ واشنگٹن میں ان کی مصروفیات نے گہرا نقش چھوڑا ہے۔ وہ ایک ایسے شخص ہیں کہ جنہیں کسی بھی عالمی رہنما (یا شخصیت) سے بات کرنے سے پہلے اپنا تعارف نہیں کرانا پڑتا۔ جہاں جہاں کرکٹ کھیلی جاتی ہے، وہاں وہاں تو وہ ایک ہیرو تسلیم کیے ہی جاتے ہیں، لیکن کرکٹ کو جو مرغوب نہیں رکھتے، وہ بھی ان کی شہرت سے نا آشنا نہیں ہیں۔ ان کا طویل قد اور دلکش نقش و نگار ان کی قادرالکلامی سے مل کر اپنے مخاطب کو محصور اور مسحور کر دیتے ہیں۔ ان کا دورہ کیسے ممکن ہوا، صدر ٹرمپ نے کس طرح انہیں مدعو کیا، امریکی اسٹیبلشمنٹ 'آن بورڈ‘ تھی یا نہیں، یہ سب سوالات بے معنی ہو چکے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ واشنگٹن میں ایک انتہائی پسندیدہ مہمان کے طور پر انہوں نے روز و شب گزارے، اور جس سے بھی بات کی،اسے متاثر کیا۔ صدر ٹرمپ کے ساتھ میڈیا سے گفتگو کی نشست تو یوں تاریخی حیثیت اختیار کر گئی کہ اس میں کشمیر کا مسئلہ اُجاگر ہو گیا۔ میزبان صدر نے واضح طور پر کہا کہ بھارتی وزیر اعظم مودی نے گزشتہ دِنوں ملاقات کے دوران انہیں اس مسئلے پر ثالثی کرانے کے لیے کہا تھا۔ اس پر بھارتی سیاست دان اور میڈیا سٹپٹا اُٹھے۔ وزارت خارجہ نے تردید جاری کی، لیکن مودی جی نے منہ میں گھنگھنیاں ڈالے رکھیں۔ واشنگٹن میں نہ صرف اس واویلے کا نوٹس نہیں لیا گیا، بلکہ ایک صدارتی معاون نے تو اس حوالے سے سوال کرنے والے رپورٹر کو یہ کہہ کر جھڑک دیا کہ (امریکی) صدر بلا سوچے سمجھے بات نہیں کرتے۔ گویا انہوں نے جو کہا وہ مبنی برحقیقت ہے۔ اس ایک بات نے عمران خان صاحب کی ٹوپی پر ایسی ''کلغی‘‘ لگا دی جوخود ان کے تصور میں بھی نہیں ہو گی۔ دُنیا بھر کے کشمیریوں میں مسرت کی لہر دوڑی اور اہلِ پاکستان بھی نہال ہو گئے۔
صدر ٹرمپ نے عمران خان کو مقبول لیڈر قرار دیتے ہوئے پاکستان کے بارے میں بھی کلماتِ خیر کہے۔ ان کے یہ الفاظ دِل خوش کن تھے، لیکن انہیں جذبۂ میزبانی کے حوالے سے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ ان کے انتخاب جیتنے کے بعد جب وزیراعظم نواز شریف نے انہیں مبارک باد کا فون کیا تھا تو انہوں نے انہیں ایسا بلا کا شخص (TERRIFIC GUY) قرار دیا تھا جو اچھی شہرت کا مالک ہے۔ پاکستانیوں کو دُنیا کے ذہین ترین لوگ کہہ کر بھی یاد کیا گیا تھا... جب وہ وائٹ ہائوس میں براجے تو انہیں یہ الفاظ دہرانے یا یاد کرنے کی فرصت نہیں ملی۔ نئے سال کے آغاز پر ان کی ایک ناپسندیدہ ٹویٹ نے پورے پاکستان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا، جس میں جھوٹ بولنے اور دھوکہ دینے کی پھبتی کسی گئی تھی۔
وزیراعظم عمران خان نے ہزاروں پاکستانیوں کے بھرپور اجتماع سے بھی خطاب کیا،اس سے قطع نظر کہ حاضرین منتظمینِ جلسہ کے بقول30ہزار تھے، یا ہال انتظامیہ کے بقول 10ہزار کے قریب،اجتماع بڑا اور یاد گار تھا۔ واشنگٹن کی فضائوںکو یقینا اس نے متاثر کیا ہو گا۔ وزیراعظم کانگرس کے ارکان سے ملے اور وہاں بھی گفتگو سے دِل موہ لیے۔ تالیاں اور نعرہ ہائے تحسین سے ماحول جھوم اُٹھا۔ وزیراعظم کے رفیقِ سفر جنرل قمر جاوید باجوہ نے ان کے ساتھ صدر ٹرمپ سے ملاقات کی، اور اعلیٰ ترین فوجی حکام سے بھی ملے۔ وزارتِ دفاع میںانہیں اکیس توپوں کی سلامی دی گئی، اور ایک عرصے بعد پاکستانی آرمی چیف کو یوں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔اس وقت منتخب اور عسکری قیادت کے درمیان ہم آہنگی نے پاکستانی ریاست کو جو تقویت فراہم کی ہے،اس کا احساس اور اعتراف ہر جگہ کیا گیا،اور کیا جا رہا ہے۔
اکثر مبصرین کا کہنا ہے کہ افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کے حوالے سے اس دورے کی اہمیت بنیادی ہے۔پاکستان اور امریکہ کے منجمد دوطرفہ تعلقات کی برف پگھلی ہے، اور آنے والے دِنوں میں اس حوالے سے پیش رفت ہوتی چلی جائے گی۔ افغانستان سے انخلا صدر ٹرمپ کی دِلی آرزو ہے، اور وہ آنے والے صدارتی معرکے میں کامیابی کا یہ سہرا باندھ کر حصہ لینا چاہتے ہیں۔ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں پاکستان کے کردار کا اعتراف کرنے کے ساتھ ساتھ مستقبل کی بے پناہ امیدیں اس سے وابستہ کی جا رہی ہیں۔گویا پاکستانی قیادت کمرۂ امتحان میں داخل ہو چکی ہے، وہاں اسے حساب کے مشکل سوالات سے پالا پڑنے والا ہے۔افغانستان میں سوویت فوجوں کے انخلا کے بعد سے اس کے مختلف عناصر آپس میں برسر پیکار ہیں۔ طالبان نے گزشتہ 19سال کے دوران امریکہ کو اس کی طویل ترین جنگ کا مزہ چکھایا ہے۔ افغانستان میں افغانوں کے ہاتھوں افغانوں کا خون بند کرنے میں بنیادی کردار وہاں کے رہنے والوں کا ہو گا، اس کی ضمانت دینا کسی بیرونی عنصر کے لیے ممکن نہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے اس حوالے سے بہت محتاط لہجے میں بات کی ہے،لیکن احتیاط پیش قدمی کا متبادل نہیں ہو سکتی۔
پاکستان اور امریکہ کے درمیان رابطوں کی بحالی کو بالآخر اعتماد کی بحالی کا معرکہ سر کرنا ہے، اسی کو پاکستانی ریاست کا امتحان بنا دیا گیا ہے۔ پاکستانی سیاست اور معیشت پر جہاں اس پیش رفت کے گہرے اثرات مرتب ہوں گے وہاں یہ بھی نظر انداز نہ کیا جائے کہ خارجہ پالیسی کی کوئی کامیابی داخلی کامیابی کی ضمانت نہیں بن سکتی۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا کہ خارجی محاذ پر مضبوط کرداری کے لئے داخلی محاذ کو سنبھالنا ضروری ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اس وقت تعلقات منفیت کی انتہائی بلندیوں (یا پستیوں) کو چھو رہے ہیں۔ وزیر اعظم نے واشنگٹن میں عام اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے بھی اپنے مخالفین کو خوب لتاڑا۔ توقع کی جا رہی تھی کہ وہاں وہ تحریک انصاف کے چیئرمین کے بجائے وزیر اعظم پاکستان کے طور پر بات کریں گے۔ یہ توقع پوری نہیں ہوئی۔ اپوزیشن جماعتیں ملک بھر میں احتجاجی ریلیاں نکال چکی ہیں، یوم انتخاب (25 جولائی) کو انہوں نے یوم سیاہ کے طور پر منایا ہے۔ تحریک انصاف نے اس دن یوم تشکر کا اہتمام کیا۔ اس سے قطع نظر کہ کس نے اپنا وجود کس طرح دکھایا اور منوایا، ضرورت اِس بات کی ہے کہ جذبات کو قابو کیا جائے۔ احتساب کے ادارے جو بھی کام کرتے رہیں، لیکن حکومت کو اس میں پارٹی نہیں بننا چاہئے۔ احتسابی اداروں کے اقدامات سے بالاتر ہو کر قومی اہداف کو حاصل کرنے اور ڈانواں ڈول معیشت کو سنبھالنے کے لیے اتفاق کے نکات بہرحال تلاش کرنا ہوں گے، دورۂ امریکہ کے بعد کرنے کا پہلا کام یہی ہے۔
عرفان صدیقی کو ہتھکڑی
سابق وزیر اعظم نواز شریف کے معاون خصوصی اور پاکستان کے ممتاز تر دانشور اور کالم نگار جناب عرفان صدیقی کے بارے میں رات کی تاریکی میں یہ خبر بجلی بن کر گری کہ انہیں اسلام آباد پولیس نے گرفتار کر لیا ہے۔ بعد میں بتایا گیا کہ انہیں اپنا مکان کرایہ پر دینے کے بعد پولیس کو اطلاع نہ دینے کی پاداش میں ہتھکڑیاں لگائی گئی ہیں، صبح ہوتے ہی انہیں 14 روزہ ریمانڈ پر جیل بھجوا دیا گیا۔ 78 سالہ صدیقی صاحب کی گرفتاری اور اس کے بعد ان کو لگائی جانے والی ہتھکڑیوں نے حکومت کے وقار کو بے انتہا صدمہ پہنچایا ہے۔ مریم اورنگزیب کا کہنا ہے کہ مکان بھی ان کا نہیں‘ ان کے بیٹے کا ہے۔ اس طرح کی کارروائیاں کسی بھی انتظامیہ کو راس نہیں آتیں۔ وزیر اعظم کی معاونِ خصوصی برائے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے یقین دلایا کہ معاملے کا بغور جائزہ لیا جا رہا ہے۔ اے کاش، حکومت اپنی غلطی کا فوراً ازالہ کرے، انہیں فوری طور پر رہا کیا جائے، اور جن اہلکاروں نے یہ حرکت کی ہے، ان کے خلاف کارروائی کر کے ایسی مثال قائم کی جائے جسے روشن کہا جا سکے۔
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں