عید ِ قربان کے دو روز بعد ہم یوم آزادی منائیں گے کہ پاکستان اگست کی14 تاریخ کو معرضِ وجود میں آیا تھا۔برصغیر کے مسلمانوں کا اپنی شناخت‘ تہذیب اور اقدار پر اصرار بالآخر ایک نئے ملک کی تخلیق کا سبب بنا۔دُنیا کے نقشے میں ایک ایسا اضافہ ہوا جس کا دو‘ تین عشرے پہلے تک تصور نہیں کیا جا سکتا تھا۔پاکستان کے نام سے کوئی جغرافیائی خطہ موجود نہیںرہا تھا‘ نہ ہی اس نام کی کوئی قوم‘ نسلی یا لسانی طور پر کہیں پائی جاتی تھی۔ دُنیا کی تاریخ میں پہلی بار ایک بڑے‘ لیکن غلام مُلک کے رہنے والے کلمہ گووںنے یہ مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنی دُنیا اپنے آدرشوں کے مطابق تعمیر کرنا چاہتے ہیں‘اس لئے ان کے اکثریتی علاقوں پر ان کا تحکم تسلیم کر لیا جائے۔ہندوستان کو پہلی بار اپنی ''نظریاتی‘‘ تقسیم پر آمادگی ظاہر کرنا پڑی۔دونوں بڑی سیاسی جماعتیں... آل انڈیا کانگرس‘ اور آل انڈیا مسلم لیگ ... قابض برطانیہ کے ساتھ بات چیت کے بعد اس پر راضی ہو گئیں۔ایک تحریری معاہدے میں تقسیم کے اصول لکھ ڈالے گئے‘اور یوں''بھارت ماتا‘‘ کے دو بیٹوں نے الگ الگ گھر بسا لیے۔تقسیم کی بنیاد تو نظریاتی تھی‘لیکن اس کا اطلاق خالصتاً نظریاتی نہیں تھا۔بعض ہندو مفکرین اور سیاستدانوں کی طرف سے بھی دو قومی نظریے کا اظہار کیا جا رہا تھا‘لیکن ان کی تجویز تھی کہ ہندوستان کے مسلمانوں اور ہندوئوں کی آبادیاں منتقل کر کے‘ دونوں ممالک کو سو فیصد ''مسلمان‘‘ اور ''ہندو‘‘ بنا دیا جائے۔مسلم لیگ اور مسلم زعما اس سے اتفاق نہ کر پائے۔ان کا کہنا تھا کہ ایسے اکثریتی ممالک وجود میں آئیں ‘جہاں اقلیتیں جوں کی توں موجود رہیں۔تبادلۂ آبادی کی ان کے نزدیک کوئی ضرورت یا منطق نہیں تھی۔گویا‘ دونوں ممالک میں موجود مسلمانوں اور ہندوئوں کی بڑی تعداد کو توازن قائم رکھنا‘ اور دونوں ممالک کے درمیان دوستانہ تعلقات کی ضمانت بن جانا تھا۔
یاد رہنا چاہیے کہ یہ بحث و تمحیص اور تگ و دو برطانوی ہندوستان میں جاری تھی‘ تخت ِ برطانیہ سے ملحق566ہندوستانی ریاستوں کو داخلی خود مختاری حاصل تھی‘وہاں نظم و نسق راجوں‘ مہاراجوں اور نوابوں کے سپرد تھا۔ سیاسی جماعتیں اور سیاسی عمل ان کیلئے اجنبی تھے۔کئی ریاستوں میں تو برطانوی ہندوستان یا دوسری ریاستوں کے رہنے والوں کو ''غیر ملکی‘‘ کہا اور سمجھا جاتا تھا...نواب بھوپال نے نظام حیدر آباد سے جب علامہ اقبال کیلئے ایک گراں قدر ماہانہ وظیفے کی التماس کی تو وہاں سے اس پر ایک اعتراض یہ وارد ہوا تھا کہ اقبال''غیر ملکی‘‘ ہیں...1941ء کی مردم شماری کے مطابق ‘برطانوی ہند کی کل آبادی292,164781 جس میں مسلمان79,055078 یعنی 27.9 فیصد تھے... جبکہ ریاستوں کی کل آبادی88,167,852 تھی‘ جس میں 12,533,063 ‘یعنی 14فیصد مسلمان تھے۔تقسیم ہند کا جو منصوبہ بنایا گیا‘اور جس کا اطلاق3جون کو ہوا‘اس کے مطابق ریاستوں میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے کوئی علیحدہ لائحہ عمل موجود نہیں تھا۔ انہیں ریاستوں میں رہنا اور ان ریاستوں کے حکمرانوں کو دہلی اور کراچی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا تھا۔ بعد میں جو کچھ ہوا‘ہندوستان نے جس طرح ان ریاستوں کو ہڑپ کیا‘ اور ان کے مسلمان جس طرح اُٹھنے والی آندھیوں میں پتوں کی طرح لرزتے اور گرتے پڑتے رہے‘یہ ایک الگ داستان ہے۔ لارڈ مائونٹ بیٹن کا کردار اس حوالے سے بھی کم گھنائونا نہیں ہے۔
نئے ممالک میں ہندو مسلم آبادیوںکا جائزہ لیا جائے ‘تو اس بات سے انکار ممکن نہیں رہتا کہ دونوںمیں دوستانہ تعلقات تقسیم کا فطری تقاضا تھے۔اسی لیے قائداعظمؒ نے یہ کہا تھا کہ نئی مملکتوں کے درمیان ''امریکہ اور کینیڈا‘‘ کے سے تعلقات ہوں گے۔اس تصور میں زہر کس طرح اور کیسے گھولا گیا‘ دونوں ممالک کی حد بندی میں کیا کیا دھاندلی اور سازش ہوئی‘ وہ بھی تاریخ کا ایک ایسا باب ہے کہ جس پر آنسو بہائے جا سکتے ہیں‘لیکن جس کے اثرات سے اپنے آپ کو محفوظ نہیں رکھا جا سکتا۔ریاست جموں و کشمیر کی آبادی بہت بھاری تعداد میں مسلمان تھی‘ اس کا جغرافیہ بھی اسے پاکستان سے باندھے ہوئے تھا‘لیکن اس کی نفی کرنے کے لیے ریڈ کلف نے پنجاب کی تقسیم مائونٹ بیٹن کے اشارے پر بدلی اور بھارت کو سری نگر جانے کا راستہ فراہم کر دیا‘بعد ازاں گورنر جنرل لارڈ مائونٹ بیٹن نے کانگریسی قیادت کے ساتھ مل کر اپنی فوجیں کشمیر میں داخل کر دیں‘ اور مہاراجہ سے الحاق کی ایک نام نہاد دستاویز پر دستخط کرا لیے۔یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ بھارتی فوجیں کشمیر میں پہلے داخل ہوئیں اور مہاراجہ سے دستخط بعد میں کرائے گئے۔اس حوالے سے اس دستاویز کی کوئی قانونی حیثیت نہیں رہتی‘لیکن اگر اسے مان لیا جائے تو بھی یہ ایک مشروط الحاق تھا‘جس میں تین محکمے... خارجی امور‘ دفاع اور مواصلات... بھارت کے حوالے کیے گئے تھے۔جموں و کشمیر میں آبادی نے بغاوت کر دی‘ اور ان کی اہل ِ پاکستان کی طرف سے پُرجوش حمایت کی گئی‘تو پنڈت جواہر لعل نہرو نے بھاگم بھاگ اپناایلچی نیو یارک پہنچایا اورکشمیر کا مقدمہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں پیش کر دیا۔وہاں طویل بحثا بحثی کے بعد کشمیریوں کا حق ِ خود ارادیت تسلیم کر لیا گیا‘ بھارت اور پاکستان دونوں نے اس قرارداد کو قبول کر لیا۔وہ دن جائے اور آج کا آئے‘بھارت اپنے وعدے پر عمل کرنے سے انکاری ہے۔اس نے مقبوضہ کشمیر کے پہلے وزیراعظم شیخ عبداللہ سے مذاکرات کر کے طے کیا کہ (عبوری دور میں) بھارتی آئین کے تحت کشمیر کو ایک خصوصی حیثیت حاصل ہو گی۔اس کا اپنا آئین ہو گا اور کوئی بھارتی شہری کشمیر میں غیر منقولہ جائیداد نہیں خرید سکے گا۔اس معاہدے میں کوئی تبدیلی کشمیر اسمبلی کی رضا مندی کے بغیر نہ ہو سکے گی۔بعدازاں پنڈت جواہر لال نہرو نے کشمیر کا آزادانہ چہرہ بگاڑنے کے لیے‘صدر ریاست اور وزیراعظم کو گورنر اور وزیراعلیٰ بنانے کے لیے دبائو ڈالا۔شیخ عبداللہ اس طرح کی ترامیم کے لیے تیار نہ ہوئے تو انہیں حوالہ ٔ زنداں کر کے پہلے بخشی غلام محمد اور پھر جی ایم صادق کے ذریعے الو سیدھا کیا گیا۔وہ دن جائے اور آج کا آئے‘ کشمیری اپنے حق ِ خود ارادیت پر اصرار کر رہے ہیں‘ ہزاروں جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں‘ جیلیں بھر چکے ہیں‘لیکن اپنا رخ بدلنے پر تیار نہیں ہیں۔اب‘ نریندر مودی نے یکطرفہ طور پرراجیہ سبھا اور لوک سبھا سے ایک نام نہاد بل منظور کرا کے کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کر کے دہلی کے براہِ راست انتظام میں دے دیا ہے۔اس وقت مقبوضہ کشمیر میں کوئی اسمبلی موجود ہے‘ نہ حکومت۔ نئی دہلی کا مقرر کردہ گورنر سب کچھ سنبھالے ہوئے ہے۔اس کی رضا مندی کو اسمبلی کی رضا مندی قرار دے کر خود بھارتی آئین کا مذاق اڑا ڈالا گیا ہے۔اس کے خلاف تمام کشمیری قیادت متحد ہو چکی ہے‘وہ سیاست دان بھی جو بھارت کے ساتھ مشروط الحاق کے حامی رہے ہیں‘کانوںکو ہاتھ لگا رہے ہیں۔دھوکہ بازی پر سٹپٹا رہے ہیں۔اب بھارت کے حق میں ایک بھی آواز وہاں سے نہیں اُٹھ رہی۔ ہندوستان کے ہوش مند سیاست دان‘ دانشور اور مدبر بھی سر پکڑ کر بیٹھے ہیں۔ انہیں توقع ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ آئین کے خلاف اس بغاوت کو کچل ڈالے گی‘ اور یوں ایک آئینی ریاست کے طور پر بھارت کا چہرہ بچا لے گی‘ جس پر مودی سیاست نے تیزاب ڈال کر اسے بُری طرح مسخ کر ڈالا ہے۔اس شر میں سے خیر یہ برآمد ہوا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ عالمی سطح پر اُجاگر ہو گیا ہے۔اسے سکیورٹی کونسل میں لے جانے کی تیاریاںہو رہی ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے واشگاف الفاظ میں کشمیر کے حق ِ خود ارادیت کے حوالے سے موجود (سکیورٹی کونسل کی) قراردادوں کا ذکر کیا ہے‘اور یوں معاملات کو ایک ایسا راستہ دے دیا ہے‘ جہاں روشنی موجود ہو سکتی ہے۔وزیراعظم نریندر مودی آپ اپنی زد میں ہیں:؎
اُلجھا ہے پائوں یار کا زلفِ دراز میں
لو آپ اپنے دام میں ''صّیاد‘‘ آ گیا
گزشتہ کالم میں امیرؔمینائی کا ایک شعر درج ہوا تھا‘ ڈاکٹر تحسین فراقی نے توجہ دلائی ہے کہ اسے یوں پڑھا جائے یہی اصل ہے ؎
کباب سیخ ہیں ہم کروٹیں ہر سُو بدلتے ہیں
جو جل اٹھتا ہے‘ یہ پہلو تو وہ پہلو بدلتے ہیں
(یہ کالم روزنامہ '' دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)