مقبوضہ کشمیر کی صورتِ حال پر اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے ایک بند کمرہ مشاورتی اجلاس کے بعد اگرچہ کوئی قرارداد جاری نہیں کی گئی، نہ ہی کوئی مشترکہ اعلامیہ دیکھنے میں آیا، نہ سلامتی کونسل کا باقاعدہ اجلاس طلب کرنے کا فیصلہ کیا گیا، نہ ہی مقبوضہ کشمیر کی صورتِ حال کا جائزہ لینے کے لیے کوئی کمیشن قائم ہوا، نہ ہی کوئی قدم اٹھانے کے بارے میں غور کرنے کا عندیہ دیا گیا؛ تاہم، پاکستانی مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی کی یہ بات رد نہیں کی جا سکتی کہ کشمیر کی آواز دُنیا کے سب سے بڑے فورم تک پہنچی ہے، اور اسے سُنا بھی گیا ہے۔ گویا، کشمیر کو ایک ایسا حل طلب تنازعہ تسلیم کر لیا گیا ہے جو اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود ہے، اور اس کی قراردادوں کی روشنی میں اس کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ اجلاس کے بعد چینی مندوب نے کہ وہ اجلاس میں شریک تھے، زیادہ تفصیل سے بات کی، اور میڈیا نمائندوں کو اس اضطراب اور تشویش سے آگاہ کیا، جو اجلاس میں ظاہر کی گئی۔ چینی مندوب کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے یک طرفہ اقدامات سے چین کی خود مختاری کو بھی خطرات لاحق ہو گئے ہیں کہ مقبوضہ لداخ اس کا سرحدی معاملہ بھی ہے۔ بھارتی مندوب نے اجلاس کے بارے میں اپنا زاویہ نظر پیش کیا، اور دلچسپ بات یہ ہے کہ دو طرفہ مذاکرات کے ذریعے اسے حل کرنے سے اتفاق کر لیا۔
1971ء کی پاک بھارت جنگ کے بعد‘ جو بنگلہ دیش کے قیام پر منتج ہوئی تھی، 1972ء میں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم اور بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے درمیان طے پانے والے معاہدہ شملہ میں تمام تنازعات دو طرفہ مذاکرات کے ذریعے طے کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔ اس معاہدے میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کا ذکر (کسی نہ کسی رنگ میں) موجود ہے، لیکن اس کے بعد سے تمام عالمی طاقتیں اور ادارے دو طرفہ بات چیت کو پالیسی کے طور پر اپنا چکے ہیں۔ اقوام متحدہ میں کسی پاکستانی رہنما نے اپنی تقریر میں کبھی کشمیر کا نام لے دیا، تو اس کا بھی بھارت نے بے حد بُرا منایا، لیکن یہ مسئلہ باقاعدہ طور پر وہاں اٹھایا گیا، اور نہ ہی عالمی طاقتوں نے اس پر آمادگی ظاہر کی۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر پر (اس کے بعد) مذاکرات کے کئی دور ہو چکے ہیں، آنجہانی وزیر اعظم واجپائی دوستی بس پر بیٹھ کر لاہور پہنچے، تو یہاں وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ ''لاہور ڈیکلریشن‘‘ پر دستخط کیے، جو معاہدہ شملہ ہی کے تسلسل میں تھا۔ دونوں رہنمائوں نے کوئی قابلِ قبول حل تلاش کرنے کے لیے اپنے نمائندے بھی مقرر کر دیے، جنہوں نے رازداری کے ساتھ بات چیت شروع کی، یہ سلسلہ جاری تھا کہ کارگل کا دھماکہ ہو گیا۔ اس نے بساط الٹ کر رکھ دی۔ آنجہانی واجپائی ایک بڑے مدبر اور پہلے بھارتی وزیر اعظم تھے جنہوں نے مسئلہ کشمیر کو بھارتی دستور سے بالاتر ہو کر ''انسانیت کے دستور‘‘ کے تحت حل کرنے کا عندیہ دیا تھا۔ کارگل نے پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں جو زہر گھولا اور جو بد اعتمادی پیدا کی، اسے دور ہونے میں کئی برس لگ گئے۔ بہت سا پانی بہہ چکا تو صدر جنرل پرویز مشرف اور وزیر اعظم من موہن سنگھ کے درمیان ایک نئے اعتماد سے بات چیت شروع ہوئی۔ دونوں رہنمائوں نے اپنے خصوصی نمائندے مقرر کیے، جو کیمرے کی آنکھ سے اوجھل مغز ماری کرتے رہے، اس وقت کے وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے بھی سرگرم کردار ادا کیا، اور دونوں ملک پھر ایک معاہدے کے قریب آ گئے۔ قصوری صاحب باقاعدہ کتاب لکھ کر اپنا دعویٰ دُنیا کے سامنے رکھ چکے ہیں، اور وزیر اعظم من موہن سنگھ سمیت کسی بھارتی منصب دار نے اس کی تردید نہیں کی۔ کہا جاتا ہے کہ صدر جنرل پرویز مشرف کے خلاف عدلیہ کی بحالی کے نام پر شروع ہونے والی تحریک نے پھر کھنڈت ڈال دی۔ وزیر اعظم من موہن سنگھ کا مجوزہ دورۂ اسلام آباد ممکن نہ رہا، اور لڈو کے کھیل کی طرح گوٹی سانپ کے منہ میں پہنچ گئی۔
اس سے قطع نظر کہ طے پا جانے والے نکات کیا تھے، یہ ایک حقیقت ہے کہ اتفاق رائے سے قدم بڑھائے جا رہے تھے۔ گویا نہ صرف کشمیر کو ایک حل طلب مسئلہ سمجھنے پر عدم اتفاق نہیں تھا، بلکہ دونوں ممالک کے مذاکرات کاروں نے ایسے نکتے بھی تلاش کر لیے تھے، جن کو تسلیم کر کے کسی کی بھی مونچھ نیچی نہیں ہوتی تھی۔ وزیر اعظم مودی اور وزیر اعظم نواز شریف کے درمیان بھی بات چیت کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ کئی معاملات پر ان کے درمیان تبادلہ خیالات ممکن بنایا گیا تھا۔ وزیر اعظم مودی ہی نے لاہور کے اچانک دورے کے ذریعے دُنیا بھر کو حیران کر دیا تھا، توقع کی جا رہی تھی کہ دونوں رہنمائوں میں بڑھتے ہوئے تعلقات پورے برصغیر کے کام آ سکیں گے‘ لیکن پاکستان کی داخلی سیاست نے وزیر اعظم نواز شریف کو مفلوج کر کے رکھ دیا، یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہ پیش قدمی کے لیے مطلوب فضا ہموار نہ کر سکے، اور تمام سٹیک ہولڈرز کا اعتماد حاصل نہ ہو سکا۔ وجہ جو بھی ہو دھاگہ پھر ٹوٹ گیا، اور اُس کے بعد جڑا نہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے بار بار ہاتھ بڑھایا۔ یہاں تک کہ بھارت نے کشمیر کو حاصل خصوصی آئینی درجے میں نقب لگا کر اسے براہِ راست دہلی کے زیر انتظام لانے کی کوشش کر ڈالی۔ بی جے پی کا دیرینہ ایجنڈا بروئے کار لانے والوں کو یقین تھا کہ وہ کشمیر میں جائیدادیں خرید کر اور یہاں بھارتی باشندوں کو آباد کر کے اس کا فلسطین بنا ڈالیں گے۔ لیکن اس شر میں سے خیر برآمد ہوا کہ کشمیر کا مسئلہ ایک بار پھر عالمی نگاہوں کا مرکز بن گیا۔ مقبوضہ کشمیر میں مسلسل کرفیو جاری ہے، 80 لاکھ شہریوں کو قید کر کے بربریت کی نئی مثال قائم کی جا رہی ہے۔ بھارت کے اندر بھی سیکولر جمہوری عناصر اس پر تڑپ اُٹھے ہیں۔ وہ بھی سراپا احتجاج ہیں کہ مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی کی رضا مندی کے بغیر اس کو دی جانے والی خصوصی حیثیت کا خاتمہ ممکن نہیں تھا۔ سپریم کورٹ کے در پر دستکوں کا ابھی تک کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ لیکن دروازہ بدستور کھٹکھٹایا جا رہا ہے کہ بھارتی دستور کا تحفظ سپریم کورٹ کی بنیادی ذمہ داری ہے۔
سلامتی کونسل کے مشاورتی اجلاس کی طلبی اعتراف ہے اِس بات کا کہ کشمیر کی صورتِ حال بھارت کا داخلی معاملہ نہیں ہے۔ تاریخ نے ایک نئی کروٹ لے لی ہے۔ یہ بارش کا پہلا قطرہ ہی سہی لیکن اس کے اثرات بآسانی زائل نہیں ہوں گے۔ اترائے، جھلاّئے اور جھنجھلائے بغیر ہمیں آگے بڑھنا ہو گا۔ وزیر اعظم عمران خان کا امتحان یہ ہے کہ وہ سیاسی تنازعات اور اختلافات کو ایک طرف رکھ کر اپوزیشن کا اعتماد بھی حاصل کریں، کہ سب یک جان ہو کر جان لڑا سکیں۔
ڈاکٹر فیصل مسعودسے محرومی
65 سالہ ڈاکٹر فیصل مسعود یوں آناً فاناً اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں گے، کسی نے کبھی سوچا نہ ہو گا۔ وہ بھلے چنگے اپنے کلینک میں مریضوں کا معائنہ کر رہے تھے کہ دِل کا درد اُٹھا۔ چند قدم کے فاصلے پر واقع ایک نجی ہسپتال میں لے جایا گیا تو وہ عدم آباد جا چکے تھے۔ اللہ اکبر... ان کی وفات سے اہلِ وطن اپنے بہترین ''ڈاکٹر آف میڈیسن‘‘ سے محروم ہو گئے۔ وہ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے سربراہ رہے۔ کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کی سیادت کی۔ متعدد سرکاری ہسپتالوں کے سربراہ کے طور پر اپنا سکہ ّ چلایا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں مرض کی تہہ تک اُترنے کی خصوصی صلاحیت ودیعت کی تھی، پیچیدہ امراض میں مبتلا سینکڑوں کیا ہزاروں افراد ان کی نگاہِ شفایاب سے مستفیض ہوئے ہوں گے۔ دِل اس بات پر دُکھا کہ کسی قومی نیوز چینل نے ان کی وفات کی خبر کو ''بریکنگ نیوز‘‘ کے طور پر نشر نہیں کیا۔ ناچنے اور گانے والوں کی چھینکوں پر طویل پروگرام نشر کرنے والوں کو اس پر شرم آنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے، اور ہمیں ان کے نعم البدل عطا کرے کہ اچھے معالج ہماری سب سے بڑی ضرورت ہیں۔ ہر شعبے میں اور ہر ادارے میں۔
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)