نواز شریف اور شہباز شریف کی والدہ اور مریم نواز اور حمزہ شہباز کی دادی محترمہ شمیم اختر کو لاہور میں اپنے سرتاج میاں محمد شریف کے پہلو میں سپردِ خاک کر دیا گیا۔ اُن کا انتقال لندن میں ہوا، جہاں وہ بیمار بیٹے کی تیمارداری کے لیے دِل کے ہاتھوں مجبور ہو کر پہنچی تھیں۔ ان کی عمر 90 سال سے زائد تھی، حافظہ بھی متاثر ہو چکا تھا، لیکن عزم بلند اور ارادہ پختہ تھا۔ نواز شریف پاکستان میں قید ہوئے، اڈیالہ اور کوٹ لکھپت جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیلے گئے، تو والدہ سامان لے کر ان سے ملنے جا پہنچی تھیں، اور بضد تھیں کہ گھر واپس نہیں جائیں گی۔ اپنے بیٹے کے پاس جیل ہی میں رہیں گی۔ اسے کسی طور اکیلا نہیں چھوڑیں گی، جیل حکام کو اُنہیں باہر بھجوانے کے لیے کئی جتن کرنا پڑے تھے۔
مرحومہ شمیم اختر اپنے اولوالعزم شوہر میاں محمد شریف کی طاقت بنی رہیں۔ ان کے پاس آکسفورڈ یا کیمرج کی ڈگریاں تو نہیں تھیں، لیکن امورِ خانہ داری میں وہ پی ایچ ڈی تھیں۔ گھر میں اللہ کا دیا سب کچھ تھا، ان کے بچے اور پوتے ایک نہیں کئی کئی سونے کے چمچ منہ میں لے کر پیدا ہوئے تھے۔ شوہر کی محنت اور ہمت نے زندگی کو بہت آسان بنا دیا تھا۔ اتفاق برادرز کا پاکستان بھر میں چرچا تھا، کاروبار دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہا تھا، پاکستان کے چند بڑے صنعتی گھرانوں میں اس ادارے کا شمار ہونے لگا تھا۔ میاں محمد شریف کی راتیں یادِ خدا سے مہکتیں تو دن بندگانِ خدا کی خدمت میں بسر ہوتا۔ وہ دونوں ہاتھوں سے کماتے، تو دونوں ہی ہاتھوں سے لٹاتے بھی تھے۔ سائل اور محروم ان کے پاس آتے تو وہ تڑپ اٹھتے، اور بار بار یہ فقرہ دُہراتے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے دولت گھٹتی نہیں بڑھتی ہے۔ وہ خود اس کا ثبوت تھے، کہ ان کی دریا دلی، وسائل کے دریا کو سوکھنے نہیں دیتی تھی۔ 1970ء کے انتخابات میں ڈاکٹر جاوید اقبال کی انتخابی مہم میں حصہ ڈالا تھا، دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں سے بھی کچھ نہ کچھ تعاون کیا ہو گا۔ جاوید اقبال، فرزندِ اقبال ہونے کے ناتے ان کی خصوصی توجہ کا مرکز تھے۔ ان کے خلاف ذوالفقار علی بھٹو بنفسِ نفیس انتخابی اکھاڑے میں اترے ہوئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ اس مہم ہی کے دوران انہوں نے دِل میں گرہ باندھ لی تھی۔ جب اقتدار اُنہیں نصیب ہوا اور انہوں نے ملک کے بڑے صنعتی اداروں کو سرکاری تحویل میں لینے کا فیصلہ کیا، تو اتفاق گروپ بھی ان کے نشانے پر تھا۔ شب خون مارا، اور اس کے اثاثوں پر غاصبانہ قبضہ کر کے انہیں خالی ہاتھ کر دیا۔ میاں محمد شریف اس ڈاکے پر بے حوصلہ نہ ہوئے، اور ایک بار پھر صفر سے زندگی کا آغاز کر دیا۔ شاید یہی وہ لمحہ تھا، جب انہوں نے قومی سیاست میں کردار ادا کرنے کے بارے میں سوچا ہو گا کہ معیشت کو آزاد رکھنے کے لئے سیاست کو آزاد رکھنا ضروری ہے۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا، اس کی تفصیل بیان کرنے کا یہ محل نہیں۔ محترمہ شمیم اختر اپنے شوہر کے سرد و گرم میں ان کے ساتھ رہیں، اترائیں نہ گھبرائیں، ہر طرح کے حالات کا سامنا کرتے ہوئے اپنے گھر کو ذکرِ خدا اور خوفِ خدا سے روشن رکھنے میں مصروف رہیں۔
شریف خاندان کے ساتھ جو کچھ ہوا، اسے جس نشیب و فراز سے گزرنا پڑا، وہ ایک ضخیم کتاب کا موضوع ہے۔ ایک بار پھر یہ خاندان مشکلات سے دوچار ہے، نواز شریف بیمار ہیں، اور علاج کے لیے لندن میں مقیم ہیں۔ ان کے دونوں بیٹے حسین اور حسن بھی وہیں ہیں، ان کے خلاف بھی پاکستان میں مقدمے درج ہیں۔ شہباز شریف اور ان کے بیٹے حمزہ لاہور میں حوالۂ زنداں ہیں، اور پانچ روز کے لیے پیرول پر رہا ہوئے ہیں۔ ان کے بیٹے سلمان اور داماد عمران کے خلاف بھی مقدمات درج ہیں، اور تو اور خواتین بھی محفوظ نہیں رہیں، ان کے خلاف بھی بے دریغ مقدمات کا اندراج ہو رہا ہے، اور عدالتوں میں پیشیوں کیلئے طلب کیا جا رہا ہے۔ جو کچھ ہو رہا ہے، وہ سب کے سامنے ہے، لیکن جو سامنے نہیں ہے، اس کی تفصیل منظرعام پر آتے آتے آئے گی... وجوہات اور اسباب میں الجھے بغیر یہ بات بلاخوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ مرحومہ شمیم اختر کو اپنی زندگی کے آخری ایام ایک بار پھر ایک بڑی آزمائش سے دوچار ہو کر گزارنا پڑے، جو کچھ ان کے خاندان پر بیت رہی تھی، اس نے ان کے اعصاب کو بھی ضرور متاثر کیا ہوگا، اللہ تعالیٰ نے ان کی مشکل یوں آسان کردی کہ اُنہیں اپنے پاس بُلا لیا۔
میاں محمد شریف جب جنرل پرویز مشرف کی قید سے رہا ہوئے توان کی زبان پر یہ الفاظ جاری تھے کہ... جب انعامات بڑے ہوتے ہیں تو پھر امتحانات اور آزمائشیں بھی بڑی ہوتی ہیں... نواز شریف کی سیاست ڈوب کر ابھرتی اور ابھر کرڈوبتی رہی ہے۔ ان کیلئے اطمینان کا پہلو یہ ہے کہ ان کا حلقۂ انتخاب ان کے ساتھ کھڑا ہے۔ الزامات اور مقدمات کی برسات کے باوجود ان کے ووٹر ان کے ساتھ جڑے ہوئے اوران کی طاقت بنے ہوئے ہیں۔ اس کشمکش کا جوبھی نتیجہ نکلے، والدہ سے محرومی بڑا صدمہ ہے۔ یہ وہ نعمت ہے کہ جس کا کوئی بدل نہیں۔ جب یہ افسوسناک خبر مجھ تک پہنچی، تو بے ساختہ میر تقی میر کا یہ شعر ذرا سے تصرف کے ساتھ زبان پر آ گیا ؎
مصائب اور تھے پر ''ماں‘‘ کا جانا
عجب اک سانحہ سا ہو گیا ہے
ماں کی دُعا انسان کو پہاڑوں سے ٹکرانے اور سمندروں کو چیردینے کا حوصلہ عطا کردیتی ہے۔ بتانے والے بتاتے ہیں کہ ماں دُنیا سے رخصت ہوجائے تو بھی اُس کی دُعائیں رخصت نہیں ہوتیں، خدمت گزار اور فرمانبردار اولاد کے سرپر ان کا سائبان موجود رہتا ہے۔ امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق بھی گزشتہ دِنوں ماں کی نعمت سے محروم ہوگئے۔ ان کی والدہ 80 سال سے زائد اِس دُنیا میں گزار کر رخصت ہوئی ہیں تو گویا گھرکو ویران کرگئی ہیں۔ ان سے ملاقات میں ان کے اوصاف کا تذکرہ ہوتا رہا۔ کم وسائل میں انہوں نے اپنی اولاد کی تربیت کی، اور دیانت اور محنت کا جذبہ اس میں کوٹ کوٹ کر بھردیا۔ چند روز کیلئے بیمار پڑیں، سراج الحق خدمت میں حاضر ہوئے تو اپنے دوسرے بیٹے پر خفا ہونے لگیں کہ سراج کواطلاع کیوں دی؟ اس کے معمولات متاثر ہوئے ہوں گے، اور دین کا جو کام وہ کررہا ہے، اس میں خلل پڑا ہوگا۔ آبدیدہ آنکھوں سے سراج الحق بتا رہے تھے کہ والدہ نے کبھی اپنی ذات کواپنی ترجیح نہیں بنایا، اور ہمیشہ ان کا حوصلہ بندھاتی اور بڑھاتی رہیں۔ اِس پر مجھے اپنی والدہ یاد آگئیں کہ جن کے سلیقے نے وسائل کی کمی کا کبھی احساس نہیں ہونے دیا۔ سراج صاحب کو کسی پروگرام میں ادا کیے گئے میرے یہ الفاظ یادتھے کہ میری والدہ اگر پاکستان کی وزیرخزانہ ہوتیں تو پاکستان سپر پاور بن چکا ہوتا۔ انہوں نے یہ الفاظ دہراکر کہا کہ میری والدہ بھی ایسی ہی تھیں۔ اپنی ذات نہیں، اپنا خاندان جن کی پہلی ترجیح تھا۔ سلام ہے ان مائوں پر جنہوں نے اپنے بچوں کی پرورش اس طرح کی کہ وہ اپنی ذات کواپنی اولین ترجیح نہ بننے دیں۔ ہرحال میں شکرگزار رہیں، کمزوروں کی طاقت بنیں اور طاقتوروں کو کمزور سمجھیں۔ طاقت کو خدا نہیں، خدا کی طاقت سمجھیں کہ جو ہر شے پر قادر ہے،جو دن میں سے رات نکالتا، اور رات کو دن میں تبدیل کردیتا ہے۔ جو حضرت یوسف علیہ السلام کو کنوئیں سے نکال کر تخت پر بٹھاتا، اور انہیں اپنے بھائیوں کو معاف کرنے کا حوصلہ عطا فرماتا ہے۔ جو متکبرین کی ناک رگڑواتا، اور عاجزوں کو سربلند کر دکھاتا ہے۔ جو شامِ شہرِ ہول میں شمعیں جلا دیتا، انتقام اور حسد کی آگ میں جلنے والوں کو جلا کر راکھ کر دیتا ہے۔
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)