"MSC" (space) message & send to 7575

’’دھکے بازوں‘‘ کی بازی

قومی اسمبلی میں جو کچھ تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ ہوا تھا، اسی سے ملتا جلتا سینیٹ کے چیئرمین کے انتخاب میں پی ڈی ایم، یعنی مسلم لیگ (ن) + پیپلز پارٹی اور ان کے اتحادیوں کے ساتھ ہو گیا۔ وہاں وزیر خزانہ حفیظ شیخ واضح اکثریت کی حمایت حاصل ہونے کے باوجود ہار گئے تھے، یوسف رضا گیلانی نے اُنہیں شکست دے کر اپنی دھاک بٹھا دی تھی۔ سینیٹ میں یوسف رضا گیلانی واضح اکثریت کی حمایت حاصل ہونے کے باوجود گنتی کی بازی ہار گئے۔ صادق سنجرانی دوبارہ چیئرمین منتخب ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ قومی اسمبلی میں جو کچھ ہوا، اس پر برسر اقتدار گروہ شوروغوغا کرتا رہا تھا، اور اب تک کر رہا ہے۔ اسے ہارس ٹریڈنگ قرار دیا جا رہا تھا۔ وزیر داخلہ شیخ رشید احمد بار بار آصف علی زرداری کی تجوریوں کا ذکر کر رہے تھے کہ سب انہی کا کِیا دھرا ہے۔ اِکا دُکا اشارے نادیدہ عناصر کی طرف بھی ہو رہے تھے، کئی دور کی کوڑیاں لانے والے یہ بھی کہہ رہے تھے کہ ادارے غیر جانبدار ہو چکے ہیں، تحریک انصاف کی کشتی کو ہچکولے کھانے کیلئے کھلا چھوڑ دیا گیا ہے، اس کے نو آموز ملاح خود ہی اس میں چھید کر گزرے ہیں، اور اب اسے ڈبو کر رہیں گے۔ سینیٹ میں زوردار جھٹکا لگے گا، اس کے بعد دمادم مست قلندر ہوگا۔ حفیظ شیخ کی شکست کو ان کی معاشی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کا عنوان بھی دیا جا رہا تھا کہ ان کے ''باضمیر ووٹروں‘‘ نے ان کے خلاف عدم اعتماد کرنا تھا، سو کر دیا... دونوں طرف سے اپنے اپنے دلائل کے انبار لگائے جا رہے تھے، کوئی شرمندہ ہونے اور اس بات پر غور کرنے کیلئے تیار نہیں تھاکہ ''باغی ارکان‘‘ کی حوصلہ شکنی ضروری ہے، پارٹی ڈسپلن نافذ کیا جانا چاہئے، اور خفیہ ہتھکنڈوں سے اکثریت کو اقلیت اور اقلیت کو اکثریت میں تبدیل کرنے والوں کی پیٹھ نہیں تھپتھپانی چاہیے۔
جیت کے نشے میں سرشار گیلانی ایک طرف تھے، تو شکست کھانے والی حکومت دوسری طرف، ایک طرف آسمان پر نظر تھی، ستاروں پر کمندیں ڈالنے کو بائیں ہاتھ کا کھیل سمجھا جا رہا تھا، تو دوسری طرف ہوائیاں اڑی ہوئی تھیں، پائوں تلے سے زمین نکلتی محسوس ہو رہی تھی۔ اگر سینیٹ میں شکست کھا گئے تو پھر کیا ہو گا، اپوزیشن کے حوصلے کس قدر بلند ہوں گے، وہ گرتی ہوئی دیواروں کو ایک دھکا اور دینے کے لئے کتنی پرجوش ہو چکی ہو گی، اس کے مجوزہ لانگ مارچ میں جان پڑ جائے گی، اور وہ اسلام آباد کو سر کرنے کے لیے چڑھ دوڑے گی۔ یہ تصور اختلاجِ قلب میں مبتلا کرنے کے لیے کافی تھا۔ ایسے میں شبلی فراز کی آواز گونجی، ہم پیچھے نہیں رہیں گے، ہر حربہ استعمال کریں گے، جیت کو یقینی بنائیں گے، گویا اپوزیشن کے ساتھ سینیٹ میں وہ کرکے دکھائیں گے جو اس نے قومی اسمبلی میں ہمارے ساتھ کیا ہے۔
قومی اسمبلی میں 340 ووٹ ڈالے گئے تھے۔ گیلانی صاحب نے 169 حاصل کرکے کامیابی اپنے نام کرلی تھی۔ ان کے مقابل امیدوار 164 ووٹ لے سکے تھے، سات ووٹ مسترد کر دیئے گئے تھے کہ ووٹ کا حق استعمال کرنے والوں نے انہیں خراب کرڈالا تھا۔ اگر یہ ووٹ مسترد نہ ہوتے تو گیلانی کے سر پر کامیابی کا ہما نہ بیٹھ پاتا۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ خواتین کی نشست پر پی ٹی آئی کی امیدوار ہی کامیاب قرار پائی تھیں، انہوں نے مقابل مسلم لیگی خاتون امیدوار کو شکست دے دی تھی، جبکہ رائے دہندگان وہی تھے، جو گیلانی اور شیخ کے تھے، ان میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی، بلاول بھٹو زرداری نے گیلانی کی کامیابی کو جمہوریت کی فتح قرار دیا، محترمہ مریم نواز شریف نے اِس پر اللہ کا شکر ادا کیا۔ ان کی ٹویٹ تھی: جعلی مینڈیٹ عوام کے نمائندوں نے واپس چھین لیا۔ اپنے ہی لوگوں نے دبائو کے باوجود آٹا چور، چینی چور، بجلی چور، ووٹ چور عوام کے مجرم عمران خان کو ووٹ دینے سے انکار کر دیا۔ تمہارے پاس اب وزیر اعظم ہائوس پر قابض رہنے کا کوئی جواز نہیں۔ ووٹ چور، کرسی چھوڑ۔
قومی اسمبلی میں جو واردات ہوئی تھی، جب اسے برنگِ دیگر سینیٹ میں دہرایا گیا ہے تو فریقین نے اپنے اپنے بیان تبدیل کر لیے ہیں۔ تحریک انصاف جمہوریت کی سربلندی کے تصور سے سرشار ہے، اور پی ڈی ایم کے خاتمے کی نوید دے رہی ہے، جبکہ پی ڈی ایم جماعتیں نوحہ کناں ہیں، اور عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کا اعلان کر رہی ہیں۔ صادق سنجرانی 48 ووٹ لے کر چیئرمین بن چکے ہیں، جبکہ یوسف رضا گیلانی سات مسترد شدہ ووٹوں سے دِل بہلا رہے ہیں کہ انہی کی بدولت انچاس کا ہندسہ 42 میں تبدیل ہوگیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مسترد شدہ بیلٹ پیپرز میں مہر اسی خانے میں لگائی گئی ہے، جو اس مقصد کے لئے بنایا گیا تھا، لیکن اسے نام کے سامنے موجود خالی جگہ کے بجائے نام کے اوپر لگایا گیا ہے۔ پریذائیڈنگ افسر سید مظفر حسین شاہ‘ جو سندھ کے وزیراعلیٰ اور سپیکر بھی رہ چکے ہیں، پرانے پارلیمنٹیرین ہیں، اور پارلیمانی دائو پیج کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں، ان ووٹوں کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوئے۔ ان کا اصرار تھا کہ مہر نام کے سامنے خالی جگہ پر لگائی جانی چاہیے تھی۔ پی ڈی ایم کے رہنما شور مچاتے رہے، قانونی نکتے اٹھاتے رہے، یہ بتاتے رہے کہ ووٹرز کا منشا واضح ہے، انہوں نے اُسی خانے میں مہر گائی ہے جو اس مقصد کے لئے بنایا گیا تھا، ان کے ووٹ مسترد نہیں ہو سکتے، لیکن 75 سالہ مظفر حسین شاہ نے‘ جن کا تعلق حکومتی اتحاد جی ڈی اے‘ (گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس) سے ہے اور جنہیں صدرِ مملکت نے بطور خاص اس اجلاس کی صدارت کے فرائض ادا کرنے کے لیے نامزد کیا تھا، اپنی رولنگ واپس لینے سے انکار کر دیا۔
پی ڈی ایم کے رہنمائوں نے عدالت جانے کا اعلان کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یوسف رضا گیلانی چیئرمین منتخب ہو چکے ہیں، مسترد شدہ ووٹ مسترد نہیں کیے جا سکتے تھے، سو عدالت سے ان کی تقرری کا پروانہ حاصل کر لیں گے۔ پی ٹی آئی کے ذمہ داروں نے بھی یوسف رضا گیلانی کے انتخاب کا نوٹیفکیشن رکوانے کے لیے الیکشن کمیشن اور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا، لیکن وہاں سے ٹھینگا دکھا دیا گیا۔ پی ڈی ایم کے ہاتھ کیا آئے گا، اس کے لیے انتظار کرنا پڑے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈپٹی چیئرمین کیلئے حکومتی امیدوار واضح طور پر جیت گئے کہ اُنہیں مولانا عبدالغفور حیدری کے مقابلے میں زیادہ ووٹ مل چکے تھے، گویا مسترد شدہ ووٹوں والے کسی تکلف کے بغیر ان کے حق میں مہر لگا گزرے۔
آئینی اور قانونی ماہرین دو دھڑوں میں بٹ چکے ہیں۔ ایک دھڑے کی رائے ہے کہ ایوان کی کارروائی کو کسی طور عدالت میں چیلنج نہیں جا سکتا، جبکہ دوسرے کی رائے میں ایوان کی کارروائی چیلنج نہیں کی جا رہی، مسترد شدہ ووٹ چیلنج ہو رہے ہیں، ایوان کے تقدس کا تقاضا تو یہی ہے کہ جو کچھ یہاں ہوا، اسے کہیں اور زیر بحث نہ لایا جا سکے کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوان ادارے کے طور پر کسی عدالت کے سامنے جوابدہ نہیں ہیں، لیکن پاکستان میں بار بار ایوانوں کے معاملات عدالتوں میں لے جائے گئے ہیں۔ برادر عزیز امان اللہ کنرانی بلوچستان ہائی کورٹ کی نظیریں بھی ڈھونڈ لائے ہیں۔ہماری تاریخ کا سبق یہی ہے کہ کوئی تاریخ سے سبق حاصل کرنے کو تیار نہیں ہے۔ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف ہر ہتھکنڈا استعمال کرنے پر تیار رہتی ہیں، نتیجتاً گڑھوں میں گرنے والے بدلتے ہیں، گڑھے وہیں موجود رہتے ہیں۔ حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کے درمیان ''دھکے بازی‘‘ کی بازی جاری ہے۔ یہ مشغلہ ختم نہ ہوا تو پھر بازی انہی کے ہاتھ رہے گی جوکہ زیادہ زور سے دھکا دے سکتے ہوں گے۔
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں