"MSC" (space) message & send to 7575

صرف قانون کا راستہ

تحریک لبیک پاکستان الیکشن کمیشن کے پاس ایک سیاسی جماعت کے طور پر رجسٹر تھی، اسے انتخابی نشان بھی الاٹ کیا گیا تھا۔ اس نے 2018ء کے انتخاب میں حصہ بھی لیا، اور اس کے دو ارکان سندھ اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ کسی دوسرے صوبے میں اس کا کوئی امیدوار اسمبلی میں تو نہیں پہنچا، لیکن ووٹ اچھے خاصے حاصل کیے، اور برسوں سے قائم مذہبی جماعتوں کے مقابلے میں اپنی برتری ثابت کی۔ ملک بھر میں اسے ملنے والے ووٹوں کی تعداد 21 لاکھ 91 ہزار 679 تھی۔ قومی اسمبلی کیلئے اس کے 178 امیدوار کھڑے کئے گئے تھے، لیکن ان میں سے کوئی بھی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکا۔ قومی سطح پر ووٹوں کی تعداد کے اعتبار سے اسے پانچویں بڑی سیاسی جماعت قرار دیا گیا۔ پاکستان تحریک انصاف، پاکستان مسلم لیگ(ن)، پاکستان پیپلزپارٹی، متحدہ مجلس عمل کے بعد اس کا نام آتا تھا۔
تحریک لبیک نے الیکشن میں حصہ لینے کا پہلا تجربہ 2017ء کے ضمنی انتخاب میں کیا تھا۔ نوازشریف نااہل قرار پائے تو لاہور سے ان کی قومی اسمبلی کی نشست خالی ہو گئی۔ اس کیلئے ضمنی انتخاب کا انعقاد ہوا، تو محترمہ کلثوم نواز کو مسلم لیگ(ن) نے امیدوار کے طور پر کھڑا کیا۔ اسی انتخاب میں ملی مسلم لیگ کے نام سے رجسٹر ہونیوالی ایک جماعت نے بھی اپنا امیدوار کھڑا کیا۔تب اکثر سیاسی مبصرین کی رائے تھی کہ مذکورہ بالا دونوں جماعتیں نون لیگ کے ووٹ بینک میں نقب لگائیں گی، اور یوں کلثوم نواز کو نقصان پہنچ جائے گا، لیکن دونوں بڑی جماعتوں کے درمیان فاصلہ اتنا زیادہ تھا کہ دوسرے امیدواروں کے حاصل کردہ ووٹ نتیجے کو متاثر نہ کرپائے۔
تحریک لبیک پاکستان کے بانی علامہ خادم حسین رضوی تھے، جنہوں نے گورنر پنجاب سلمان تاثیرکو گولی کا نشانہ بنانے والے ان کے گارڈ ممتاز قادری کو ملنے والی پھانسی کے بعد پیدا ہونے والے جذبات کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنی جماعت کوتوانائی بخشی۔ وہ ممتاز قادری کو ملنے والی سزائے موت کے خلاف بریلوی مکتب فکر میں پیدا ہونے والے غم و غصہ کے ترجمان بن گئے تھے۔ تحریک لبیک نے بعدازاں مختلف مواقع پر مذہبی ایشوز کو بنیاد بنا کر احتجاجی تحریکیں چلائیں، اور دھرنا دینے میں شہرت حاصل کرلی۔ شاہد خاقان عباسی کی وزارتِ عظمیٰ کے دوران تحفظ ختم نبوت کے نام پرفیض آباد دھرنے سے انہوں نے اپنی دھاک بٹھائی۔ اس وقت کے وزیرقانون کو مستعفی ہونا پڑا۔ اس دھرنے کے پیچھے کون سے عوامل تھے،اور اسے کامیاب کرانے میں کس کس نے کیا کردار اداکیا، اس بارے میں ابھی تک مختلف آرا موجود ہیں۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی آچکا ہے، اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بقول خود اس کے نتائج کا سامنا بھی کررہے ہیں۔ مسلم لیگ(ن) کے خلاف دھرنے کی کامیابی نے اسے تو جو نقصان پہنچایا، وہ اپنی جگہ، تحریک لبیک کو اپنی ٹیکنالوجی پر بہت زیادہ اعتماد ہوگیا اور وہ اپنے اس احتجاجی اسلوب میں راسخ ہوتی چلی گئی۔ توہین آمیزخاکوں کے حوالے سے فرانس کے صدرنے غیرذمہ دارانہ انداز اختیار کیا اور ملتِ اسلامیہ کے جذبات کو مجروح کیا تواس پر پورے عالمِ اسلام میں احتجاج ہوا۔ تحریک لبیک نے آگے بڑھ کر یہ معاملہ بھی ہاتھ میں لے لیااور ایک بارپھر اسلام آباد کے باہر دھرنا دے دیا۔ اسی دھرنے میں علامہ خادم حسین رضوی علیل ہوئے اور بعدازاں اللہ کو پیارے ہو گئے۔
حکومت نے علامہ خادم حسین رضوی سے چار نکاتی معاہدہ کیا تھا، جس پر دو وفاقی وزراء کے دستخط بھی تھے۔ تحریک لبیک کی طرف سے جاری کردہ اس معاہدے کے مطابق: (1) حکومت دو سے تین ماہ کے اندر پارلیمنٹ سے قانون سازی کے بعد فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرے گی۔ (2) فرانس میں پاکستان کا سفیر بھی مقررنہیں کیا جائے گا۔ (3) تمام فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے گا۔ (4) تمام گرفتار کارکنان کورہا کردیا جائے گا۔ حکومت کی طرف سے یہ تاثردیا گیا کہ معاملہ فیصلے کیلئے پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا... گویا سفیر کی ملک بدری ایک طے شدہ بات نہیں ہے۔ علامہ خادم حسین رضوی اسلام آباد سے لوٹ گئے اورپھر دُنیا بھی چھوڑ گئے، لیکن یہ معاہدہ اپنی جگہ رہا۔ رضوی مرحوم کے جانشین بیٹے حافظ سعد رضوی بھی اس پرڈٹ گئے اورنئے سرے سے اپنے آپ کو منتظم کرنا شروع کردیا۔ ان کی سرگرمیوں کے نتیجے میں 11جنوری 2021ء کوایک اور معاہدہ ہوا، جس پروزیر مذہبی امورکے ساتھ نئے وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کے بھی دستخط تھے۔ اس میں ایک بار پھریہ عہدکیا گیا کہ معاہدے کی شقوں کو 20اپریل 2021ء تک پارلیمنٹ میں پیش کردیا جائے گا۔
بیس اپریل سے پہلے حافظ سعد رضوی کو گرفتارکرلیا گیاکہ حکومتی اطلاعات کے مطابق وہ ایک بارپھر فیض آباد پہنچنے کی تیاری میں مصروف تھے۔ اس گرفتاری کے بعد تحریک لبیک نے ملک بھرمیں دھرنے دیئے۔ شاہراہیں بند کردی گئیں‘ آمدورفت ناممکن بنادی گئی۔ ایمبولینسوں تک کوروک دیاگیا۔ پولیس سے جھڑپیں شروع ہوگئیں۔ دو پولیس اہلکار شہید‘ متعدد زخمی ہوئے۔ تحریک لبیک بھی اپنے شہیداورگرفتار کارکنوں کی فہرستیں جاری کر کے ماتم کناں ہے۔ جوکچھ ہوا اس کی تفصیل کی ضرورت نہیں، ہرشخص اس سے آگاہ ہے۔ حکومت نے تحریک لبیک کو دہشتگرد تنظیم قراردے کر انسداد دہشتگردی ایکٹ کے تحت اس پرپابندی لگا دی ہے اور پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ کے تحت بھی اس کے خلاف ریفرنس سپریم کورٹ کوبھجوایا جا رہا ہے۔
ان واقعات پر کوئی شخص مسرت کا اظہار نہیں کرسکتا۔ ایک بین الاقوامی مسئلے کوجس طرح حکومتی وزرا اور عہدیداروں نے ڈیل کیا، اس پر بھی جتنا اظہار افسوس کیا جائے کم ہے۔ خارجہ پالیسی کے معاملات کو سڑکوں پرطے کرنے کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاسکتی، فرانس کے صدرکا رویہ پورے عالمِ اسلام کا مسئلہ تھا، اسے اسلامی کانفرنس کی تنظیم (او آئی سی) میں اٹھایا جانا چاہیے تھا۔ وزرا کی بے تدبیری نے اسے پاکستان کی ذمہ داری بنادیا۔ اگر مسئلے کی نزاکت سمجھاکر احتجاج کرنے والوں کواسلامی کانفرنس پر معاملہ چھوڑ دینے کے لئے ہموارکیا جاتا تونتیجہ مختلف ہوسکتا تھا، لیکن پانی سر سے اونچا ہوگیا۔ اب کالعدم تحریک لبیک کے پاس حکومتی اقدام کے خلاف عدالتی چارہ جوئی کے راستے موجود ہیں۔ ریفرنس سپریم کورٹ میں جائے گا توبھی اس کی شنوائی ہوسکے گی۔ انسداد دہشتگردی ایکٹ کے تحت کارروائی کے خلاف بھی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا جا سکے گا۔ فریقین کیلئے مناسب یہی ہوگا کہ وہ قانون کا راستہ اختیارکریں، قانون ہاتھ میں لینے سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ پاکستان کے تمام ریاستی اداروں اور غیرریاستی تنظیموں یا گروہوں کو یہ بات ہمیشہ کیلئے اپنے آپ کو اورایک دوسرے کوسمجھا دینی چاہیے کہ اونٹ کی کمر پراب تنکا رکھنے کی بھی گنجائش نہیں ہے۔
قومی صحافت کے دو آسمان
پاکستانی صحافت کے دو آسمان چند روز پہلے زمین کھا گئی۔ آئی اے رحمن اور ضیا شاہد ایک ہی دن دُنیا سے رخصت ہوئے۔ صبح رحمن صاحب نے آخری ہچکی لی تو غروبِ آفتاب کے بعد ضیا شاہد کا سورج ڈوب گیا۔ یہ قومی کے ساتھ ساتھ ذاتی سانحہ بھی ہے۔ رحمن صاحب سے عزت، اور محبت کا تعلق تھا۔ وہ بین الاقوامی طور پر پاکستان کی پہچان تھے۔ انسانی حقوق کمیشن میں ان کی خدمات کا زمانہ معترف ہے۔ ضیا شاہد سے انتہائی قریبی تعلق رہا۔ خبریں گروپ کے سربراہ، ایک کارکن سے ابتدا کرکے یہاں تک پہنچے۔ عشروں کی رفاقت نظروں کے سامنے ہے، اللہ مغفرت فرمائے، دونوں ہی مردانِ آزاد تھے، اپنے اپنے رنگ، اور اسلوب میں خوب، بلکہ بہت خوب۔ تفصیلی تذکرہ پھر ہو گا۔ ابھی تو اپنے آپ کو سنبھال رہا ہوں۔
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں