شہباز شریف لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر رہا تو ہو گئے، لیکن لندن نہیں جا سکے۔ جسٹس علی باقر نجفی نے اُنہیں علاج کیلئے بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی تھی، قطر ایئرویز پر نشست بھی محفوظ کرا لی گئی تھی، وہ گھر سے علی الصبح روانہ بھی ہو گئے، لیکن ایف آئی اے نے ان کا راستہ روک لیا۔ بورڈنگ کارڈ جاری ہونے کے باوجود اُنہیں جہاز میں بیٹھنا نصیب نہیں ہوا۔ عطاء اللہ تارڑ نے عدالتی حکم پڑھ کر بھی سنایا، لیکن سرکاری اہلکاروں نے اُنہیں اپنے کاغذات دکھا دیے، جن کے مطابق شہباز صاحب کا نام ''بلیک لسٹ‘‘ میں موجود تھا، ان کا کہنا تھا کہ عدالتی حکم کے بعد اس لسٹ میں تبدیلی نہیں ہو سکی، اس لیے آپ واپس گھر جائیے۔ مریم اورنگزیب آگ بگولہ تھیں، عظمیٰ بخاری بھی لال پیلی ہو رہی تھیں، شہباز صاحب اپنے مخصوص انداز میں بات سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے کہ عدالت کے حکم کے بعد اس فہرست کی کوئی حیثیت نہیں رہی‘ ان کا نام خود بخود خارج ہو چکا، اس لیے انہیں روکا نہیں جا سکتا، لیکن وزارتِ داخلہ بلکہ مشیر داخلہ شہزاد اکبر کو جوابدہ امیگریشن حکام کا کہنا تھا کہ (عدالتی حکم کے بعد) بلیک لسٹ میں تبدیلی ہونی چاہیے تھی، جو اعلیٰ حکام نے ابھی تک نہیں کی، یا نہیں کی جا سکی، اس لیے انہیں لندن روانگی کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ بتایا گیا کہ عدالت میں مقدمے کی سماعت کے وقت ایف آئی اے کے نمائندے موجود تھے، وہ براہِ راست حکم سے آگاہ ہو چکے ہیں، اس لیے ان تک عدالتی حکم پہنچنے یا پہنچانے کے نام پر کسی بہانے کی گنجائش نہیں ہے، لیکن یہ نکتہ بھی سننے والوں کی سمجھ میں نہیں آ سکا، اور شہباز شریف کو گھر لوٹنا پڑا۔ جب سے عدالت نے انہیں لندن جانے کی اجازت دی تھی، حریفوں کے سینوں پر سانپ لوٹ رہے تھے، نہ فواد چودھری سے غصہ چھپایا جا رہا تھا، نہ شہزاد اکبر اپنے آپ پر قابو پا سک رہے تھے۔ وہ اِس بات پر ''حیران‘‘ تھے کہ ایک ہی دن میں درخواست کی سماعت ہو کر فیصلہ بھی ہو گیا۔ اسے نظام انصاف کی کمزوری قرار دیا جا رہا تھا اور ڈھنڈورا پیٹا جا رہا تھا کہ طاقتور کیلئے ایک قانون ہے، جبکہ کمزور کیلئے دوسرا۔ طاقتور اپنے وسائل کے سہارے جو ریلیف لمحوں میں حاصل کر لیتا ہے، کمزوروں کو برسوں میں نہیں مل پاتی۔ ان کے لہجے خبر دے رہے تھے کہ شہباز شریف کا راستہ بہرحال روکا جائے گا، سو انہوں نے روک کر دکھا دیا۔ اب عید کی تعطیلات شروع ہیں، دوبارہ عدالت تک بات جائے گی، تو دیکھا جائے گا۔ توہینِ عدالت کی درخواست دائر ہوتی ہے یا حکومت اپیل کی چھتری اپنے آپ کو فراہم کر لیتی ہے۔ یہ آنے والے دن بتائیں گے۔ شہباز شریف عید لندن میں اپنے بچوں اور بھائی کے ساتھ نہیں منا سکیں گے، الا یہ کہ عدالت عالیہ حکومتی منہ زوری کا نوٹس لے کر کوئی دوسراحکم جاری کر دے۔
شہباز شریف عید لندن میں منائیں یا پاکستان میں، وہ آنکھوں میں کھٹکتے رہیں گے۔ راستہ بنانے کی جو صلاحیت ان میں ہے، وہ ان کے حریفوں کو چونکاتی اور ڈراتی رہے گی۔ شہباز شریف عمرانی اقتدار میں تین بار جیل جا چکے، تینوں بار اُنہیں عدالت کے حکم پر رہائی نصیب ہوئی۔ حکومت ان کے خلاف الزامات کا طومار باندھتی چلی جاتی ہے۔ انہیں دہرا دہرا کر اپنا کلیجہ ٹھنڈا کرتی رہتی ہے، جبکہ شہباز شریف کو جاننے والے ان کی دیانتداری کی قسمیں اٹھاتے رہتے ہیں۔ رانا ثناء اللہ اور مریم اورنگزیب ڈنکے کی چوٹ اعلان کرتے چلے جا رہے ہیں کہ ان کے خلاف دھیلے کی کرپشن ثابت نہیں ہوئی۔ قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کا کوئی بھی ثبوت انکے خلاف نہیں ہے۔ مقدمات کے جب فیصلے ہوں گے تو اس وقت دیکھا جائے گا کہ کون کتنے پانی میں ہے۔ شہباز شریف کو ایک مستعد منتظم کے طور پر البتہ یاد کیا جاتا رہے گا۔ ان کی شخصیت کا یہ تاثر ماند نہیں پڑ سکا، بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ گہرا ہوتا چلا جا رہا ہے۔ گزشتہ دو عشروں کے دوران پنجاب کو دو وزرائے اعلیٰ ایسے نصیب ہوئے جو آج بھی مرجع خلائق ہیں۔ چودھری پرویز الٰہی اور شہباز شریف کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ایک سب پانی، تو ایک سب آگ‘ لیکن دونوں نے اپنا نقش جمایا، اور ایسے کام کیے جنہیں بھلانا ممکن نہیں ہے۔ مسلم لیگ(ن) آج بھی پنجاب کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے۔ دوسرے صوبوں میں اس کے وجود سے بھی انکار ممکن نہیں ہے۔ نواز شریف گزشتہ چند سال میں جن آزمائشوں میں مبتلا ہوئے ان کا سلسلہ ابھی تک ختم نہیں ہوا۔ ایک عدالتی فیصلے کے نتیجے میں انہیں اقتدار سے رخصت ہونا پڑا۔ اب بھی انکے خلاف کئی مقدمات زیر سماعت ہیں۔ وہ علاج کیلئے بیرون ملک گئے، تاحال ان کی واپسی ممکن نہیں ہو سکی، لیکن ان کی سیاست کو ختم نہیں کیا جا سکا۔ ان کی بیٹی مریم مرجع خلائق ہیں، اور ان کے بھائی شہباز شریف مسلم لیگ(ن) کی قیادت کو سنبھالے ہوئے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کا ووٹ بینک توڑا نہیں جا سکا۔ ضمنی انتخابات نے اس کا ثبوت فراہم کر دیا ہے۔ ووٹر بدستور اپنی جماعت کے ساتھ جڑا ہوا ہے، اور اس کے تیور دیکھ کر ارکان قومی اور صوبائی اسمبلی بھی اپنی جگہ ڈٹے ہوئے ہیں۔ تحریک انصاف ضمنی انتخابات میں ہار رہی ہے، ہزاروں ووٹ حاصل کرنے کے باوجود جیت اس کے ہاتھ نہیں لگ رہی۔
آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ(ن) کا مقابلہ تحریک انصاف ہی سے ہو گا، دونوں کے حامی اس کا انکار نہیں کر پاتے۔ وزیر اعظم اور ان کے حواریوں کو بھی یہ بات یاد کر لینی چاہئے کہ گرفتاریوں اور جابرانہ کارروائیوں کے ذریعے وہ اپنے حریفوں پر قابو نہیں پا سکتے۔ انہیں اپنی پرفارمنس کی طرف توجہ دینا ہو گی، اپوزیشن کی اپوزیشن چھوڑنا ہو گی۔ مہنگائی اور بیروزگاری کے سامنے بند باندھنا ہو گا۔ گڈ گورننس کے تقاضے پورے کرنا ہوں گے۔ اس لیے وہ اپنے کام پر توجہ کریں۔ پاکستان ایک دستوری مملکت ہے۔ اس کے اداروں کا دائرہ کار متعین ہے۔ عدلیہ کا کردار انتظامیہ ادا نہیں کر سکتی، اسے محدود کرنے کی کوششیں بھی کامیاب نہیں ہو سکیں گی۔ نظام عدل کی کمزوریوں کو دور کرنے کیلئے قانون سازی کی جا سکتی ہے، اور کی جانی چاہیے۔ ہر شخص کو سستا اور فوری انصاف ملنا چاہئے، لیکن عدالتوں کے خلاف مہم جوئی سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ یہ آگ ایسی ہے کہ جو بھڑکانے والوں ہی کو جھلسا ڈالے گی۔ نظام عدل کی کمزوریاں جو بھی ہیں، ان سے برسر اقتدار جماعت اور اس کے بڑے بڑے بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ قوم بخوبی آگاہ ہے کہ کون کون سا مقدمہ کس کس طرح کے حیلوں سے الجھایا اور لٹکایا جا رہا ہے، اس لیے نظام عدل کیخلاف جذبات ابھارنے اور غیر منطقی بیانات داغنے کے بجائے اپنا دستوری کردار ادا کیجیے، ماضی میں جس نے عدل کی راہ میں گڑھے کھودے، وہ خود ان میں گرا، اس بار بھی کچھ مختلف نہیں ہو گا۔ شہباز شریف کا راستہ کاٹنے کیلئے آپ کو اپنا راستہ بدلنا پڑے گا، اگر اسی راستے پر چلتے رہے تو پھر آپ کا خدا حافظ... اور آپ کو خدا حافظ۔
''بھا‘‘ طفیل کی رخصتی
پاکستان کے ممتاز اخبار نویس اور کالم نگار ایم طفیل گزشتہ دِنوں انتقال کر گئے۔ انہیں ہر چھوٹا بڑا بھائی سمجھتا اور (پنجابی محاورے میں) ''بھا‘‘ کہہ کر بلاتا تھا۔ وہ بھی سب کے بھائی بن کر رہے۔ انہوں نے اِس دُنیائے رنگ و بو میں نوے سال گزارے، اور مسلسل کئی عشرے صحافت کی وادیٔ پُرخار میں سفر جاری رکھا۔ طویل عرصے سے روزنامہ ''جنگ‘‘ سے وابستہ تھے۔ اداریہ نویس کے طور پر خود کو منوایا۔ کالم نگار کے طور پر بھی ممتاز ہوئے۔ کارکن کی زندگی گزاری، اور قلم کے ساتھ رشتہ آخر دم تک ٹوٹنے نہیں دیا۔ اُن کی ذہانت‘ متانت اور صلاحیت نے اُنہیں ممتاز بنائے رکھا۔ اللہ تعالیٰ اُن کی مغفرت فرمائے، کہ سایہ دار درخت اپنا ثمر آپ ہوتے ہیں۔
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)