"MSC" (space) message & send to 7575

عید کا اچانک چاند

خیال کیا یقین تھا کہ عیدالفطر جمعہ کو منائی جائے گی۔ چاند بدھ کو نظرآنے کا کوئی سوال ہی نہ تھا۔ موسمیات اور فلکیات کے ماہرین اس پراصرار کررہے تھے۔ سائنس و ٹیکنالوجی کے سابق وزیر فواد چودھری نے دو ٹوک اعلان کردیاکہ چاند دیکھا نہیں جا سکے گا، جن کو افغانستان اور سعودی عرب کیساتھ عید منانے کا شوق ہے، وہ جھوٹ بولنے گویا جھوٹا چاند دیکھنے کے بجائے صاف الفاظ میں بات کہیں اور جوکرنا چاہتے ہیں کر گزریں۔ اس کے باوجود رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس اس کے نئے نویلے سربراہمولانا عبدالخبیر آزاد کی سربراہی میں طلب کر لیا گیا، تاکہ بدھ کو چاند دیکھنے کی کوشش کی جاسکے۔ بھارت‘ بنگلہ دیش سے چاند نہ دیکھنے کے اعلانات جاری ہوچکے تو خیبرپختونخوا اوربلوچستان کے بعض حصوں سے چاند دیکھنے کے دعوے موصول ہوگئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ شمالی وزیرستان میں منگل ہی کو چاند دیکھا جاچکا تھا، ''چشم دید‘‘ گواہوں کی فہرست بھی جاری کی جاچکی تھی، مقامی مولوی صاحبان کے زیراثر بدھ کوعید منا ڈالی گئی تھی۔
رویت ہلال کمیٹی رات گئے تک روایتوں میں الجھی رہی، دورافتادہ افسروں اور مولوی صاحبان کولمبی لمبی کالیں ہوتی رہیں۔ خیبرپختونخوا کی زونل کمیٹی نے چاند دیکھنے والوں کی تفصیل مرکزی کمیٹی کوارسال کردی، جبکہ مفتی پوپلزئی حسبِ معمول مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا انتظار کرنے پر اپنے آپ کوآمادہ نہ کرسکے۔ انہوں نے جمعرات کوعید کا اعلان داغ دیا۔ مولانا عبدالخبیرآزاد کہ بادشاہی مسجد لاہور کے خطیب اورامام ہیں، حضرت مولانا مفتی منیب الرحمن کی مسند سنبھالے ہوئے تھے۔ مفتی صاحب قریباً دوعشرے رویت ہلال کمیٹی کی سربراہی کا فریضہ ادا کرتے رہے، لیکن پھرمرکزی حکومت نے انہیں سبکدوش کرنے میں عافیت جانی۔ وزیرمذہبی امور حضرت نورالحق قادری نے خودیہ فیصلہ کیا یا وزیراعظم کو بھی اس میں شریک کرلیا یا وہ وزیراعظم کے فیصلے میں شریک ہوگئے، اس بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا، چاند کوبہرحال مفتی صاحب کی ''قید‘‘ سے آزاد کرالیا گیا۔ مفتی صاحب اپنی متانت اور ثقاہت کی وجہ سے ملک بھر میں ممتاز ہیں۔ اہلِ سنت کے بریلوی مکتب فکر سے ان کا تعلق ہے‘ لیکن دوسرے مسالک کے متعلقین بھی ان کا احترام کرتے، اوران کی سوجھ بوجھ سے استفادہ کرتے ہیں۔ مفتی صاحب کی بات اگرچہ لمبی ہوجاتی ہے لیکن استدلال سے خالی نہیں ہوتی۔ وہ اگرایل ایل بی کرلیتے تو پاکستان کے ممتاز ترین وکلا میں ان کا شمار ہوسکتا تھا‘ اب اپنے مدرسے میں اپنا چراغ جلائے ہوئے ہیں‘ لیکن ان کے مداح انہیں مفتی اعظم قراردیتے، اوران کے فتوے کا انتظار کرتے ہیں۔ مفتی منیب الرحمن کے سامنے مولانا عبدالخبیر آزاد طفلِ مکتب یعنی نوآموز ہیں لیکن مولانا عبدالقادرآزاد مرحوم کا فرزند ہونے کے ناتے ان کا حلقہ تعارف بھی محدود نہیں ہے۔ اعتدال اورتوازن کی بدولت ان کا بھی احترام کیا جاتا، اور اخوت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
رویت ہلال کمیٹی نے طویل اجلاس کے بعد چاند نظر آنے کا اعلان کردیا۔ موصول ہونیوالی گواہیوں کوقبول کرتے ہوئے جمعرات کی عید کا نقارہ بجادیا۔ تراویح پڑھنے کے بعد اس غیرمتوقع اوراچانک اعلان نے بہت سوں کو بدحواس کردیا۔ عامۃ المسلمین توصبر کا گھونٹ پی کررہ گئے، لیکن مفتی منیب الرحمن نے اختلافی نوٹ جاری کرنا ضروری سمجھا۔ رویت ہلال کمیٹی کے فیصلے پرعدم اطمینان کا اظہارکرتے ہوئے انہوں نے جمعرات کونمازِ عید ادا کرنے پرتو آمادگی ظاہرکر دی، لیکن ساتھ ہی یہ تلقین کردی کہ ایک روزہ بعدازاں رکھ لیا جائے اور اعتکاف میں بیٹھنے والے حضرات بھی کسی اوروقت ایک دن کا اعتکاف کرکے کمی پوری کرلیں۔ کئی حضرات نے مزید حوصلہ پکڑا، اور جمعرات کوروزہ رکھنے کی تلقین کردی۔ تحریک لبیک کے بعض متعلقین اور متوسلین ان میں شامل تھے۔ سو لاہور، گوجرانوالہ اورکئی دوسرے شہروں میں بہت سے لوگوں نے جمعہ کونمازِ عید ادا کی۔ بتایا گیاکہ کمیٹی نے ایک ہی دن عید منانے اور حکومت کے سرپر اتحاد کا سہرا سجانے کیلئے رویت ہلال کی مشتبہ گواہیوں کو تسلیم کرلیا ہے۔ مفتی منیب الرحمن کا کہنا تھاکہ جب چاند نظر آہی نہیں سکتا تھا، توپھر جوحضرات اسے دیکھنے کا دعویٰ کررہے تھے، ان کی کڑی جانچ پرکھ اورکرید پڑتال ضروری تھی، جیسا کہ اگرایک شخص یہ دعویٰ کرے کہ وہ لاہور سے کراچی بذریعہ کار ایک گھنٹے میں پہنچ گیا ہے، اوراپنے حق میں گواہ پیش کردے توبھی اس کا دعویٰ قبول نہیں کیا جائے گا، شفاخانہ امراض دماغی میں البتہ اسکا اور اسکے گواہوں کا معائنہ ضرور کرایا جائے گا... لیکن پھر یہ سوال پیدا ہواکہ اگررویت ہلال کا کوئی احتمال ہی نہ تھا، توپھر رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس کیوں طلب کیا گیا؟ اوریہ کہ خود مفتی منیب الرحمن بھی اس طرح کی مشکوک فضا میں کمیٹی کا اجلاس طلب کرتے، اورچاند کا اعلان کرتے پائے جاتے رہے ہیں... کئی علما یہ کہتے ہوئے میدان میں آگئے کہ احتمال توموجود تھا،اور اسی بنیاد پررویت ہلال کا دعویٰ یکسر مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ جمعہ کی عید کے حوالے سے ایک خلجان یہ تھاکہ مبینہ طور پر دو خطبے حکمرانوں پر بھاری ہوتے ہیں، عید کے ساتھ جمعہ کا خطبہ بھی مل جائے تو پھر اہلِ اقتدار کیلئے بدخبری کا باعث بن جاتا ہے۔ یہ افواہ فیلڈ مارشل ایوب خان کے آخری سالوں میں اس قدر عام ہوئی کہ جمعہ کی عید سے انکے متعلقین و متوسلین گھبراگئے۔ اس زمانے میں مرکزی رویت ہلال کمیٹی توہوا نہیں کرتی تھی، اس کا ڈول بعد میں ڈالا گیا، اس لیے حکام نے کوشش کی کہ علمائے کرام بدھ کوچاند دیکھنے کا اعلان کردیں۔ مثبت جواب نہ ملنے پرچند بڑے علما گرفتار کرلیے گئے۔ اس حوالے سے جاری ہونیوالے پریس نوٹ میں ان حضرات کے نام کے ساتھ مولانا کے بجائے مسٹر کا لاحقہ لگایا گیا تھا، مسٹر ابوالاعلیٰ مودودی، مسٹر اختشام الحق تھانوی وغیرہ، لوگوں کی بڑی تعداد نے عید جمعہ ہی کے روزمنائی، اورایوب خانی اقتدارکو دوخطبوں کا ''بوجھ‘‘ اٹھانا پڑگیا۔ اب بھی بہت سوں کو پرانا واقعہ یاد آیا، لیکن دلچسپ معاملہ یہ تھاکہ جمعہ کوعید منانے پر اپوزیشن نہیں فواد چودھری بضد تھے، اس لیے عمرانی اقتدار اس بوجھ تلے اس طرح نہ دب پایا جس طرح ایوب خانی اقتداردبا ہواپایا گیاتھا۔
بہرحال‘ جمعرات کو قوم کی بھاری تعداد نے عید منائی، چند فیصد ہی معاملہ جمعہ تک لے جاسکے۔ مفتی تقی عثمانی اوربعض دوسرے اکابر نے مشکل یوں آسان کردی کہ: جس کو اللہ نے فیصلہ کرنے کا حق اورصلاحیت دی ہے، وہ اگریہ اعلان کرے کہ ہمارے سامنے ایک جم غفیر نے شہادت دی ہے توپھر ہماری ذمہ داری ختم ہوجاتی ہے۔ ہم اسکے اعلان کے پابند ہیں، اگر قاضی (رویت ہلال کمیٹی) یہ اعلان کرے کہ چاند نظر آگیا ہے تو ہمارے لیے حجت ہے، اس میں شک و شبہ پیدا کرنے کی ضرورت نہیں‘ اگر تمام شہادتوں کو یکجا کرنے کی کوششوں میں دیر ہوئی تو یہ بھی کوئی قابل ملامت بات نہیں ہے۔ الحمدللہ عیدالفطر صحیح وقت پر ہوئی ہے اورصحیح طریقہ پر ہوئی ہے، روزہ قضا کرنا شرعاً کسی کے ذمے واجب نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں انتشار وافتراق سے محروم رکھے۔ سوباتوں کی ایک بات یہی ٹھہری کہ چاند کا اعلان کرنا رویت ہلال کمیٹی کی ذمہ داری ہے، کسی اورشخص یا ادارے کی نہیں۔مفتی منیب الرحمن کے دور میں بھی یہی رائے صائب تھی اور آج بھی یہی رائے مستند ہے۔ اہلِ پاکستان کو یہ ایک نکتہ پلے باندھ لینا چاہیے؎
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں، اور بیرون دریا کچھ نہیں
اگر حکومت ''چاند کے سوداگروں‘‘ سے نمٹنے کی ہمت یاصلاحیت نہیں رکھتی، توپھر میڈیا اورقوم کوانہیں نظرانداز کرکے آگے بڑھ جانا چاہیے۔
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں