پاکستانی سیاست کا بے ڈھنگا پن برقرار ہے، جو حکومت میں ہیں، وہ بھی اور جو اپوزیشن میں ہیں، وہ بھی اپنے اپنے کام سے نا واقف نظر آتے ہیں۔ حکومت والوں کا لہجہ اپوزیشن کا سا، اور اپوزیشن کا حکومت کا سا ہے۔ تحریک انصاف نے جب سے اقتدار سنبھالا ہے، پچھلی حکومتوں کا رونا دھونا جاری ہے۔ تین سال گزر چکے لیکن اپنی ہر نالائقی کا بار گزشتہ حکومت پر ڈالنے کا سلسلہ جوں کا توں ہے۔ اپوزیشن کی اپوزیشن کو کمال سمجھ لیا گیا ہے، اُدھر اپوزیشن اپنی ہر بات منوانے پر بضد نظر آتی ہے۔ اس کی بد ترین (یا بہترین) مثال بلوچستان میں دیکھنے کو ملی، جہاں بجٹ پیش کرنے کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی گئیں۔ اپوزیشن ارکان صوبائی اسمبلی کی عمارت میں دھرنا دے کر بیٹھ گئے، دروازے بند کر دیے، وزیر اعلیٰ کا راستہ روک لیا کہ بجٹ اجلاس نہیں ہونے دیں گے۔ کہا یہ جا رہا تھا کہ بجٹ کی تیاری میں اپوزیشن کو اعتماد میں نہیں لیا گیا، اس لیے اسے پیش نہیں کیا جا سکتا۔ بصد مشکل پولیس نے راستہ بنایا، اور بجٹ اجلاس کا انعقاد ممکن ہوا۔ بجٹ پیش ہونے کے بعد اس پر احتجاج کرنے کا حق تو اپوزیشن کو بہرحال حاصل ہے، وہ اس کے خلاف (قانون کے دائرے میں رہ کر) کسی بھی طرح احتجاج کر سکتی ہے، لیکن جو کچھ بلوچستان میں ہوا، اور ہو رہا ہے وہ پارلیمانی سیاست کے لیے اجنبی ہے۔ اسمبلی کی تقدیس اپوزیشن کے ہاتھوں اس طرح شاید ہی پامال ہوئی ہو۔ مقدمے کے اندراج کے بعد اب معزز ارکان کا جتھہ تھانے میں دھرنا دیئے ہوئے ہے کہ گرفتار کرو۔ پولیس اس پر آمادہ نہیں‘ تو کہا جا رہا ہے کہ اگر گرفتاری نہیں ہو گی تو اِس کا مطلب یہ ہے کہ ایف آئی آر جھوٹی ہے، گویا درِ زندان کھل جائے تو پھر ایف آئی آر کے الزامات سچ ہو جائیں گے۔
اب ایک دوسرا منظر دیکھئے... اپوزیشن رہنمائوں کے خلاف نیب اور ایف آئی اے کی سرگرمیاں زوروں پر ہیں۔ سابق وزیر خارجہ اور مسلم لیگ (ن) کے انتہائی سینئر رہنما خواجہ آصف کئی ماہ قید میں رہ کر لاہور ہائی کورٹ سے ضمانت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ سماعت کے دوران عدالت کے سوالات اور نیب پراسیکیوٹر کے جوابات نے دیکھنے اور سننے والوں کو سر پیٹنے پر مجبورکر دیا۔ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ہاں ابھی تک مبہم الزامات پر پکڑ دھکڑ کا سلسلہ جاری ہے، اور عوامی نمائندوں کی تضحیک کا سامان کرنے کو کارنامہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ سابق قائدِ حزبِ اختلاف خورشید شاہ کی گرفتاری تو اب مہینوں نہیں برسوں کو محیط ہو چکی، ان کے عزیز و اقارب بھی نرغے میں ہیں، ان کے خلاف نہ کوئی ریفرنس دائر ہوا، اور نہ ضمانت پر رہائی ممکن ہو سکی ہے نہ سپیکر قومی اسمبلی ان کا پروڈکشن آرڈر جاری کر رہے ہیں کہ وہ قومی اسمبلی میں اپنے رائے دہندگان کی نمائندگی کر سکیں۔ بلاول بھٹو زرداری نے اب انہیں باقاعدہ خط لکھا ہے، لیکن ترت جواب نہیں آیا۔ قومی اسمبلی کے ارکان کو انتقامی کارروائیوں سے تحفظ دینے کے لیے ماضی میں کی جانے والی محنت اکارت جا رہی ہے۔ گوہر ایوب اور یوسف رضا گیلانی کی سپیکر شپ کے دوران اِس حوالے سے جو روایات قائم کی گئیں، اور اپوزیشن اور حکومت نے گرفتار ارکان کی حاضری کو یقینی بنانے پر جو اتفاق کیا، وہ اب قصۂ ماضی بن چکا ہے۔ ہماری جمہوریت آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے بھاگنے میں لگی ہے، اور آمرانہ حرکتوں کو مثال بنائے بیٹھی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اپوزیشن رہنمائوں کے خلاف اقدامات اور عدالتی ریمارکس کا جائزہ لے کر معاملات کو سنبھالنے کے لیے پیش قدمی کی جاتی۔ حکومت آگے بڑھ کر متعلقہ قوانین کا جائزہ لیتی، احتسابی اداروں کا اندھا پن دور کرنے کے لیے کوشاں ہوتی، لیکن وہ یک طرفگی کو کمال سمجھ بیٹھی ہے، جس سے ماحول کی آلودگی دور ہونے میں نہیں آ رہی۔
ایک اور منظر ملاحظہ کیجیے... سپریم کورٹ کے کراچی میں تجاوزات ختم کرنے کے حوالے سے کیے جانے والے فیصلوں سے ہزاروں افراد متاثر ہو رہے ہیں، ان کی عمر بھر کی کمائی لٹ جانے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے، لیکن سندھ حکومت کے کانوں پر جوں رینگ رہی ہے، نہ اُس وفاقی حکومت کو غور کرنے کی فرصت ہے، جس کے پاس کراچی کی نمائندگی کا حق ہے۔ دونوں حکومتوں کو مل کر متاثرہ خاندانوں کے دُکھ کا مداوا کرنا چاہیے تھا، عدالت کا دروازہ مل کر کھٹکھٹانا چاہیے تھا، مہلت طلب کر کے متاثرین کو معاوضہ ادا کرنے کی سکیم بنانی چاہیے تھی کہ آخر وہ پاکستان کے شہری ہیں‘ غزہ کے رہنے والے ہیں نہ مقبوضہ کشمیر کے۔ ان کو روندنے سے ریاست کو جو ضعف پہنچے گا، اس کا احساس کسی کو نہیں۔ چند ارب روپے ان کے لیے قومی خزانے سے کیوں نہیں حاصل کیے جا رہے؟ اس انسانی المیے سے آنکھیں بند رکھی گئیں، تو اس کے جو خوفناک اثرات ہماری اجتماعی زندگی پر مرتب ہوں گے ان کا تصور ہی رونگٹے کھڑے کر دینے کے لیے کافی ہے۔
پاکستانی سیاست کے کردار ایک دوسرے کے ساتھ چلنے اور ایک دوسرے کی بات سننے کو تیار نہیں ہیں، لیکن افغانستان میں اشرف غنی اور طالبان کو دن رات سیاسی حل تلاش کرنے کے مشورے دیے جا رہے ہیں۔ امریکہ تک کو عقل کے ناخن فراہم کرنے کے لیے سرگرمی دکھائی جا رہی ہے، لیکن یہی ناخن وزیر اعظم اپنے استعمال میں لانے کو تیار نہیں۔ نظر نہیں آ رہا کہ نریندر مودی جیسے ہٹ دھرم کو کشمیری لیڈروں سے مذاکرات کرنا پڑے ہیں، اے پی سی بلانا پڑی ہے۔ یہ درست ہے کہ حریت کانفرنس کے بغیر یہ اجتماع اہلِ کشمیر کا اعتماد اور اعتبار حاصل نہیں کر پایا، لیکن مقبوضہ ریاست کا خصوصی درجہ ختم کر کے مسئلہ کشمیر کو ختم کرنے کا خواب تو چکنا چور ہو گیا ہے۔ اہلِ کشمیر کا اس اقدام کے خلاف بے مثال اکٹھ بی جے پی حکومت کے دانت کھٹے کر چکا ہے، اور مودی کو یہ کہنا پڑا ہے کہ ''مناسب وقت پر‘‘ کشمیر کی ریاستی حیثیت بحال کر دی جائے گی۔
مودی جیسے شخص کو مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے پیچھے ہٹنا پڑا، اور ان لوگوں کے ساتھ بیٹھنا پڑا ہے جنہیں مہینوں نظر بند رکھا گیا، تو پاکستان کے اندرونی معاملات سدھارنے کے لیے حکومت اور اپوزیشن کو باہمی صلاح مشورے کی اہمیت کا احساس کیوں نہیں ہو رہا؟ ہٹ دھرمی اور کٹ حجتی سے بہت کچھ بگڑ تو سکتا ہے، سنور کچھ بھی نہیں سکتا۔ وزیر اعظم عمران خان ہاتھ آگے بڑھائیں، اور اپوزیشن کے ساتھ اُس سلوک کا آغاز کریں، جو پارلیمانی سیاست کا تقاضا ہے۔ جو ہم وطنی کا تقاضا ہے، جو قانون اور اخلاق کا تقاضا ہے، اور جو آئین کا تقاضا ہے۔گاڑی کا ایک پہیہ جو بھی دعویٰ کر ے، گاڑی اس پر نہیں چل سکتی۔
علمائے کرام کی بیماری
پاکستان کے تین ممتاز ترین علمائے کرام کی بیماری کی خبروں نے ان کے مداحوں کو اضطراب میں مبتلا کر دیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کو کراچی کے ایک ہسپتال میں داخل ہونا پڑا، انہیں مثانے کی انفیکشن بتائی جا رہی ہے۔ مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر بھی کراچی کے ایک ہسپتال میں داخل ہیں۔ مولانا محمد حنیف جالندھری ملتان کے انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں ہیں۔ یہ تینوں حضرات اپنے اپنے انداز اور اسلوب میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں جلد صحت یاب کرے کہ یہ ہمارے معاشرے کا چراغ ہیں، ان کی روشنی سے اندھیرے سمٹ رہے ہیں۔
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)