گزشتہ ہفتے بلکہ‘مہینے‘بلکہ سال‘ بلکہ تین سال کی سب سے بڑی خبر یہ تھی کہ پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا‘ اپوزیشن اور حکومت دونوں نے اس میں بصد مسرت یا ضرورت شرکت کی۔ صدارت کے فرائض قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر نے ادا کیے‘ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے بھی اس میں شرکت کی۔ جنرل فیض حمید نے افغانستان‘ کشمیر اور خطے کی صورتحال پر بریفنگ دی‘ جس کے بعد سوال جواب کا سیشن ہوا‘جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید کے جوابات سے شرکا یکساں طور پر مطمئن پائے گئے‘ اس میں اپوزیشن اور حکومت کی تمیز نہیں تھی۔ یہ اجلاس بند کمرے میں ہوا‘ چند میڈیا پرسنز کو بھی مدعو کیا گیا تھا‘ لیکن پھر بعض اپوزیشن رہنمائوں کے اعتراض پر ان کے دعوت نامے واپس لے لیے گئے کہ پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں کوئی غیر پارلیمانی عنصر داخل نہ ہونے پائے۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ اس اجلاس کی رونق ہی غیر پارلیمانی شخصیات تھیں‘ اگر لشکتی ہوئی وردیاں موجود نہ ہوتیں تو ساری رونق ماند پڑ جاتی۔ اجلاس کا کورم ہی پورا نہ ہوتا۔ بہرحال اجلاس ہوا‘ اور کئی گھنٹے جاری رہا۔ جنرل باجوہ کے ساتھ طویل نشست کا موقع اہلِ صحافت کو چند ہفتے پیشتر رمضان المبارک میں مل چکا تھا۔ جنرل فیض حمید کی ایک تفصیلی بریفنگ میں بھی شرکت کی سعادت حاصل ہو چکی تھی‘اور دفتر خارجہ میں شاہ محمود قریشی سے استفادہ بھی کیا جا چکا تھا کہ وہاں اہلِ سیاست کے ساتھ ساتھ چند اہلِ صحافت کو بھی اذنِ باریابی عطا کر دیا گیا تھا۔ کچھ نہ کچھ اندازہ تھا کہ سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں کن موضوعات پر‘ کس ڈھنگ سے گفتگو ہو گی۔ اس لیے تشنگی کا احساس ہونے کے باوجود نہیں تھا۔ بند کمرے کے دروازوں اور دیواروں پر کان لگانے کی ضرورت محسوس نہیں ہو رہی تھی کہ پاکستان افغانستان کے داخلی معاملات میں مداخلت سے مسلسل انکار کر رہا ہے‘اس آگ میں انگلیاں جلانے کے لیے تیار نہیں ہے‘ لیکن یہ سوال بار بار سامنے آ کھڑا ہوتا ہے کہ اگر محلے میں آگ لگے گی تو اس کی تپش سے محفوظ رہنا کس حد تک اور کس طرح ممکن ہو سکے گا؟
اسے خوش قسمتی کہیے یا بدقسمتی کہ اس طرح کے اجلاس جہاں دوسرے جمہوری ممالک میں روزمرہ کا معمول ہیں‘ وہاں پاکستان میں یہ شہ سرخیوں کی زینت بنتے‘بلکہ سب سے بڑی خبر بن جاتے ہیں۔ اس دلچسپی میں مزید دلچسپی اُس وقت پیدا ہوئی جب وزیراعظم عمران خان رونق افروز نہیں ہوئے‘ مزید سے مزید دلچسپی کا سامان اُس وقت ہوا جب فواد چودھری صاحب کی طرف سے بتایا گیا کہ وزیراعظم تو اجلاس میں شرکت کیلئے تیار تھے لیکن آخری لمحوں میں جب سپیکر کی طرف سے اپوزیشن رہنمائوں بالخصوص شہباز شریف صاحب کے تحفظات سے آگاہ کیا گیا تو انہوں نے ارادہ بدل لیا‘یا یہ کہیے کہ کپڑے تبدیل کر کے محو ِآرام ہو گئے۔ یہ بھی سننے میں آیا کہ وزیراعظم کی آمد پر واک آئوٹ کی دھمکی دی گئی تھی‘اس پر مریم اورنگزیب فوراً میدان میں آئیں‘ اور اسے سفید جھوٹ قرار دیا۔بلاول بھٹو زرداری نے جھٹ اسے وزیراعظم کی انا پرستی سے تعبیر کر دیا۔ سپیکر کے ترجمان نے گول مول سا بیان جاری کیا کہ وزیراعظم کی آمد پر بعض اپوزیشن رہنمائوں کو تحفظات تھے۔یوں گویا وزیراعظم اپوزیشن رہنمائوں کے ساتھ بیٹھنے کی زحمت یا کوفت سے بال بال بچ گئے‘ کہا جا سکتا ہے کہ ان سے دعوت نامہ اُسی طرح واپس لے لیا گیا جس طرح اہلِ صحافت سے لیا گیا تھا‘اب یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ پاکستانی صحافت کو وزیراعظم کا سا پروٹوکول حاصل ہے‘اس کے ساتھ وہی سلوک کیا جا رہا ہے‘ جس کا مستحق وزیراعظم کو گردانا گیا‘اس لیے اہلِ صحافت جن شکایات کا اظہار کرتے رہتے ہیں‘ ان میں کوئی صداقت نہیں‘ان کی عزت وزیراعظم کے برابر ہو چکی ہے‘ جو انہیں راس نہیں آ رہی۔ ایک دلچسپ اطلاع یہ بھی ہے کہ سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں جب وزیراعظم کی غیر حاضری زیر بحث آئی‘ تو قائد حزبِ اختلاف نے وضاحت کی کوشش کی‘ لیکن ان کا مائیک بند کر دیا گیا‘یوں دِل کی دِل میں رہ گئی۔
اسلام آباد میں جب اجلاس‘ اور اس کے اثرات سے نبٹا جا رہا تھا‘ لاہور برادرِ عزیز اعجاز الحق کے دورے سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ایک عرصے بعد وہ کئی دن کیلئے یہاں آئے تھے‘اور ان کے اعزاز میں دیے جانے والے ظہرانوں اور عشائیوں نے ماحول کو گرما رکھا تھا۔آغاز انہوں نے اپنی میزبانی سے کیا تھا‘اس کے بعد شمع حفیظ اللہ نیازی‘ وحید چودھری‘ ڈاکٹر حسین پراچہ سے ہوتی ہوئی آگے بڑھتی گئی۔امریکہ سے ڈاکٹر اسد اسماعیل اور احتشام نظامی صاحبان بھی تشریف لے آئے تھے‘ ان سے استفادہ بھی ممکن ہو گیا۔ ممتاز صنعت کار حاجی طارق شفیع کی ناگہانی وفات نے دِلوں کو افسردہ کر رکھا تھا۔وہ کئی ہفتوں سے مری میں مقیم تھے‘ نواز شریف اور شہباز شریف صاحبان کے چہیتے کزن تھے‘ بھٹو دور میں جب میاں محمد شریف مرحوم نے لُٹ پٹ کر متحدہ عرب امارات کا رخ کیا تو نوجوان طارق ان کے ہمراہ تھے۔ شریف خاندان کے بیرونِ ملک پھیلے ہوئے بزنس کے بارے ان کی شہادت بڑا وزن رکھتی تھی‘ صحت مند اور چاق و چوبند تھے‘ لیکن موت سے کس کو رُستگاری ہے؟ ہزاروں افراد نے انہیں دِلی دعائوں کے ساتھ رخصت کیا۔ اعجاز الحق صاحب کے ساتھ ان کا‘ اور ان سے جڑے شریف خاندان کا ذکر ہوتا رہا۔کراچی سے ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر کے انتقال کی خبر نے بھی اداسیاں بکھیر دیں۔وہ دارالعلوم اسلامیہ بنوری ٹائون کے سربراہ تھے۔ اردو اور عربی پر یکساں قدرت رکھتے تھے۔ مدینہ یونیورسٹی سے قاہرہ کی الازہریونیورسٹی تک‘ تعلیم حاصل کرنے کے لیے گئے‘اور ہر جگہ دھاک بٹھا دی۔ کم و بیش پون صدی سے درس و تدریس میں مشغول تھے۔علم و عمل نے انہیں مرجع خلائق بنا رکھا تھا ؎
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
اعجاز الحق کے ساتھ تبادلہ ٔ خیال کے دوران بار بار ذکر جنرل ضیا الحق کا آتا رہا کہ افغانستان پر (1979ء میں) سوویت فوجوں کی یلغار کے بعد وہ افغان مزاحمت کے پشتی بان تھے۔ دنیا کو ان کی بات ماننا اور ان کے ساتھ کھڑے ہونا پڑا تھا۔امریکہ سے چین‘ اور سعودی عرب سے مصر تک‘ سب یک آواز تھے۔سوویت فوجوں کے دانت کھٹے ہوئے‘انہیں واپس ہونا پڑا‘ اور تاریخ کا رخ بدل گیا۔ اس مزاحمت ہی کے دوران پاکستان کا ایٹمی پروگرام مکمل ہوااور یوں جنرل ضیا الحق اور افغان جہاد پاکستان کو ایسی توانائی دے گئے‘جو اب تک دشمنوں پر لرزہ طاری کئے ہوئے ہے۔سوویت اور امریکی فوجیں بہت مختلف حالات میں‘اور مختلف اہداف کے تحت افغانستان پہنچی تھیں‘ لیکن رخصت ایک جیسے حالات ہی میں ہونا پڑا۔ سوویت فوجوں کی واپسی کے وقت بھی وسیع تر اتفاقِ رائے سے افغان حکومت قائم نہیں ہو سکی تھی‘ اب امریکہ رخصت ہو رہا ہے تو افغان ایک دوسرے سے الجھے ہوئے ہیں۔ایک طرف کابل کی اشرف غنی حکومت ہے‘ تو دوسری طرف طالبان کے امڈتے ہوئے لشکر۔ دیکھنے والے سہمے جا رہے ہیں کہ حالات بے قابو ہیں۔پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر اگرچہ بڑی حد تک باڑ لگائی جا چکی‘ تاہم اگر مہاجرین کا سیلاب آیا تو اسے روکنا مشکل ہو گا۔الزام پر الزام لگیں گے‘ ہر طرف سے انگلیاں اٹھیں گی‘ اور بے یقینی کے سائے گہرے ہوتے جائیں گے‘سوویت اور نیٹو افواج کے ساتھ تو جو ہوتا تھا سو ہو گیا‘ لیکن افغانوں نے ایک دوسرے کے ساتھ جو کرنا ہے‘وہ چالیس سال گزرنے کے باوجود نہ ان کی سمجھ میں آ رہا ہے نہ دوسروں کی‘ کوئی تو ہو جو انہیں سمجھائے کہ ع تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن‘ اپنا تو بن
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)