اعلیٰ عدالتوں سے یکے بعد دیگرے ایسے فیصلے آ رہے ہیں، جن سے پاکستان کے احتسابی نظام پر سوالیہ نشانات کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ احسن اقبال، خواجہ آصف اور شاہد خاقان عباسی کی درخواست ہائے ضمانت کی منظوری کے تفصیلی فیصلوں میں الزامات، اور واقعات کا سرسری سا جائزہ لیا گیا ہے، اور جو کچھ سامنے آیا ہے، اس نے ہر اُس شخص کو مضطرب کر دیا ہے جو پاکستان کو ایک توانا جمہوری مملکت کے طور پر دیکھنا چاہتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان اگر اسے منصبی نہ مانیں، تو بھی ان کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ ان تمام عدالتی آرا کا بغور مطالعہ کریں، اور دیکھیں کہ (ان کی مبینہ) مدینے کی ریاست میں اختلاف رائے کی سزا کس کس طرح اور کس کس کو دی جا رہی ہے۔ یہ درست ہے کہ نیب یا اس کے قانون کی ایجاد میں موجودہ وزیر اعظم یا ان کی جماعت کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ یہ جنرل پرویز مشرف کی تخلیق ہے، اور انہوں نے اسے اپنی ضروریات اور اہداف کو حاصل کرنے کے لیے بنایا تھا، ان موصوف نے کس کس طرح اس سے فائدہ اٹھایا، اس کی تفصیل بیان کرنے کا محل نہیں، ایک ایک واقعہ ریکارڈ پر ہے، اور خود انہی کے حلقہ بگوشوں نے قلعی کھول رکھی ہے۔ جنرل صاحب کے دور میں نیب کے چیئرمین کی تقرری ان کا صوابدیدی اختیار تھا، بعد میں چیف جسٹس افتخار چودھری نے اپنے دائرہ اختیار سے آگے بڑھ کر اس میں اپنی رائے داخل کر لی یا کرا لی۔ بعدازاں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے اسے حکومت اور حزبِ اختلاف کی رضامندی سے مشروط کر دیا۔ یہ دونوں جماعتیں باری باری پانچ پانچ سال وفاق میں برسر اقتدار رہیں۔ دونوں مل کر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت حاصل کر چکی تھیں، اس طرح عام قانون سازی تو کیا، دستور میں ترمیم کرنے کا بھی کلی اختیار رکھتی تھیں، اس اختیار کا استعمال انہوں نے 18ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے کرکے بھی دکھایا، اور دستوری ڈھانچے میں بنیادی اور اہم تبدیلیاں کر ڈالیں۔ کنکرنٹ لسٹ ختم کر کے صوبوں کو مالا مال کر دیا، وفاقی حکومت کے ہاتھ پائوں باندھ دیے، لیکن احتسابی قوانین کا جائزہ لینے کی توفیق ان کو نہیں ہو سکی۔ ستم بالائے ستم یہ کہ صوبوں کے وسائل اور اختیارات میں تو اضافہ کر دیا، لیکن مقامی حکومتوں کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ بلدیاتی اداروں کے مالی اور انتظامی استحکام کو یکسر نظرانداز کر دیا گیا۔ نتیجتاً پاکستانی جمہوریت آج بھی ٹانگوں کے بغیر ہے، صوبائی دارالحکومتوں میں اختیارات کا ارتکاز ہے، اور ضلعی سطح تک وسائل کی منتقلی کا کوئی اہتمام نہیں۔
پاکستان میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے انعقاد ہی کو جمہوریت کی تکمیل سمجھ لیا گیا ہے۔ ان کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومتوں کو اپنی ناک سے آگے دیکھنے کی ضرورت ہے نہ خواہش۔ برصغیر پاک وہند میں برطانوی راج قائم ہوتے ہی بلدیاتی اداروں کے قیام کی طرف توجہ دی گئی تھی۔ چند ہی برس کے اندر (محدود حق رائے دہی کی بنیاد پر ہی سہی) بلدیاتی ادارے قائم کر دیئے گئے تھے تاکہ نچلی سطح پر نظم و نسق میں مقامی لوگ شریک ہو سکیں، لیکن پاکستانی جمہوریت اِس سے بے نیاز ہے۔ وزیراعظم عمران خان اپوزیشن میں تھے تو نچلی سطح تک اختیارات کی تقسیم کے حق میں انہوں نے آسمان سر پر اٹھا رکھا تھا، لیکن وزیراعظم بنتے ہی (اس حوالے سے بھی) اپنے فرمودات طاق نسیاں پر رکھ دیے۔ پنجاب میں تو یہ ہوا کہ برے بھلے جو ادارے موجود تھے، انہیں تحلیل کر دیا گیا، من مرضی کی تبدیلی لانے کے لیے نیا قانون بنایا گیا، لیکن انتخاب کا نام تک محو ہو گیا۔ سب کچھ سرکاری افسروں یا چہیتے افراد کو سونپ کر چین کی بانسری بجائی جانے لگی۔ متاثرین عدالت پہنچے، تو سپریم کورٹ سے بحالی کا پروانہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ عدالت نے بلدیاتی اداروں کے خاتمے کو غیر آئینی قرار دے دیا۔ تفصیلی فیصلہ بھی جاری فرما دیا، اور ادارے کالعدم قرار دینے والے قانون کو بھی مسترد کر ڈالا، لیکن ابھی تک پرنالہ وہیں کا وہیں ہے۔ اداروں کو کام کرنے نہیں دیا جا رہا، اور توہین عدالت کی درخواست زنجیر عدل ہلانے میں ہنوز ناکام ہے۔ بااختیار مقامی اداروں کے بغیر جمہوریت کا دعویٰ کھوکھلا ہے اور رہے گا، کشتی ہچکولے کھاتی رہے گی۔ بات احتسابی قوانین سے شروع ہوئی تھی کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی مجرمانہ غفلت کا نتیجہ آج خود ان ہی کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ جو جو لطیفے سرزد ہو رہے ہیں، ان کی تفصیل عدالتی فیصلوں میں موجود ہے، لیکن وزیر اعظم عمران خان کو حالات کا منصفانہ جائزہ لینے کی ضرورت (یا فرصت) نہیں ہے۔
کرپشن یقینا ختم ہونی چاہیے، لیکن کرپشن کے نام پر سیاست یا کرپشن میں سیاست کا خاتمہ بھی از حد ضروری ہے۔ اہلِ سیاست تو رہے ایک طرف، انتظامیہ بھی ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھی ہے۔ صنعتکار اور بزنس مین بھی احتجاج کرتے رہتے ہیں۔ وزرائے کرام تک برملا فرماتے چلے جا رہے ہیں کہ سرکاری افسر فائلوں پر دستخط کرنے کے لیے تیار نہیں، نیب کا قانون ان کو دبوچ لے گا، کسی بھی مفروضے پر کال کوٹھڑی کی نذر کر دیا جائے گا، نوے روز کا ریمانڈ ہو گا، اور اس کے بعد ضمانت کے حصول کے لیے طویل انتظار کہ نیب قانون میں ضمانت کا تصور ہی نہیں ہے۔ عدالتیں رٹ جورسڈکشن میں یہ درخواستیں منظور کرتی ہیں، اور دِنوں کا کام مہینوں، بلکہ سالوں تک پھیل جاتا ہے۔ عدلیہ اور دفاعی اداروں کو البتہ تحفظ حاصل ہے‘ ان کا دعویٰ ہے کہ ہم اپنا احتساب آپ کر سکتے ہیں۔ دو سابق چیف جسٹس صاحبان نے دستور اور قانون کی درگت جس جس طرح بنائی اور جس طرح ملکی معیشت کو زیربار کرکے رکھ دیا، اس کی مثال شاید ہی کہیں ڈھونڈی جا سکے، لیکن ادارہ ان کا مواخذہ کر سکا ہے، نہ ابھی تک پارلیمنٹ کو اس کی توفیق ہوئی ہے۔
پاکستانی سیاست آپسی لڑائیوں میں الجھی ہوئی ہے، ایک دوسرے کی تذلیل کو قومی فریضہ قرار دے لیا گیا ہے۔ آزاد کشمیر اسمبلی کی انتخابی مہم میں ہونے والی تقریروں کو سن سن کر عقل حیران اور تہذیب پریشان ہے۔ مغربی سرحد پر افغانستان اُبل رہا ہے۔ وہاں سے چنگاریاں اڑنے کے لیے بے تاب ہیں۔ ایک دوسرے کے خون سے پیاس بجھانے کی آرزو بالآخر کس کو کہاں لے جائے گی۔ یہ صاف دکھائی دے رہا ہے، دیوار پر لکھا ہوا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کشمیر کی آزادی اور افغانستان میں استحکام کے لیے ساری قیادتیں سر جوڑ کر بیٹھتیں، آگے بڑھنے کا راستہ تراشتیں، ایک دوسرے کو ذمہ دار قرار دینے کے بجائے اپنی اپنی ذمہ داری کا احساس کیا جاتا۔ کشمیرکا مسئلہ موجودہ نسل نے پیدا کیا ہے، نہ افغانستان کا معاملہ اس نے الجھایا ہے۔ جو کچھ ورثے میں ملا ہے، اسی سے عہدہ برآ ہونا ہے۔ امریکہ میں بھی یہ مسئلہ جو بائیڈن نے پیدا نہیں کیا، افغانستان پر چڑھائی کا فیصلہ تو دو عشروں پہلے ان کے پیشرو کر گئے تھے۔ ایک ہزار ارب ڈالر سے زیادہ اس جنگ میں جھونک کر بھی وہ بزعم خود افغانستان کو استحکام نہیں دے پائے، 80 ارب ڈالر خرچ کر کے کھڑی کی جانے والی افغان فوج اور اس سے منسلک اداروں کے سر پر کیا دھرا تھوپ کر بھاگ کھڑے ہوئے ہیں‘ لیکن ماضی کا ماتم نہیں کر رہے۔ بش یا اوبامہ کو کوسنے نہیں دے رہے، گزرے ہوئے کل سے الجھنے کے بجائے آنے والے کل کی طرف دیکھ رہے ہیں، اس کی طرف بڑھ رہے ہیں تو اے پاکستان کے حکمرانو، سیاست دانو اور پاسبانو! مستقبل پر نظر رکھو، اپنی انائوں میں بند ہو کر پاکستان کو افغانستان نہ بنائو، افغانستان کو پاکستان بنانے میں لگ جائو... آئین اور قانون کے تحت چلتا ہوا پاکستان۔
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)