عید کی نماز پڑھ کر معانقوں اور مصافحوں کو دور سے سلام کرتے ہوئے گھر پہنچے، ناشتے کے بعد عزیزان علی اور عثمان کے ساتھ قبرستان کا رخ کیا کہ عمر شامی بیرون ملک ہیں۔ پہلی ملاقات والدہ محترمہ سے کی، جونیو گارڈن ٹائون کے قبرستان میں محوِ آرام ہیں۔ اس سے متصل ماڈل ٹائون کا ایک چھوٹا سا قبرستان ہے، جس میں میری بھانجی سارہ‘ جو ایک ہونہار ماہر نفسیات تھیں اور بہت آگے بڑھنے کے ارادے رکھتی تھیں، اپنے جواں خوابوں سے لبریز دفن ہیں۔ یہیں محترم ضیا شاہد اوران کے ہونہار بیٹے عدنان شاہد بسیرا کیے ہوئے ہیں۔ دو، تین کلومیٹر کے فاصلے پرفیصل ٹائون کا قبرستان ہے، جہاں میری سب سے بڑی بہن وسیم اختر اور ان کے شوہر محمد اختر عادل لمبی تانے ہوئے ہیں۔ وہاں سے کچھ ہی دور ماڈل ٹائون جی بلاک کا قبرستان ہے جہاں جواں سال بھتیجے عامر ضیا نے پڑائو ڈال رکھا ہے۔ اس سے چند قدم کے فاصلے پر فیض احمد فیض مقیم ہیں۔ یہیں استادِ گرامی پروفیسر اصغر علی، رجحان ساز دانشور اشفاق احمد خان، ان کی بے مثال اہلیہ بانو قدسیہ، بیدار مغز استاد پروفیسر کرامت حسین جعفری اور بہت سے ایسے لوگ سورہے ہیں، پاکستان جن کے دم سے مہکتا تھا، انہیں دیکھ کر اور سن کر زندہ رہنے کی امنگ پیدا ہو جاتی تھی۔ گارڈن ٹائون کے علاوہ ہر قبرستان میں پانی کھڑا تھا، آگے بڑھنا مشکل تھا، متعلقہ سوسائٹی اور ضلعی انتظامیہ‘ دونوں کے نگران راستے خشک نہیں رکھ پائے تھے۔ سو دروازوں ہی پرکھڑے ہوکر فاتحہ پڑھی، گارڈن ٹائون کا قبرستان البتہ حسن انتظام کا نمونہ تھا۔ پانی کا ایک قطرہ تک موجود نہیں تھا، راستے حسبِ معمول کشادہ اور خشک تھے، قدموں کی چاپ کے منتظر۔
واپس گھر پہنچے تو دِل کے ساتھ ساتھ آنکھیں بھی بوجھل تھیں۔ قربانی کی ذمہ داری آب پاشوں کی ہائوسنگ سوسائٹی کے منتخب صدر اور اپنے اولوالعزم بھانجے شہزاد شامی کو سونپی جا چکی تھی، سو اطمینان سے بستر پر دراز ہوگئے۔ کچھ ہی دیر گزری ہوگی کہ طاہرہ بیگم صاحبہ نے جھنجوڑا، ٹی وی پر خبر آرہی ہے عارف نظامی چل بسے ہیں۔ یہ سنتے ہی اٹھنے کی کوشش کی، لیکن اٹھا نہیں گیا۔ دِل بند ہوتا محسوس ہوا اور آنکھیں کھل کر بند اور بند ہوکر کھلنے لگیں، یااللہ، یہ کیا ہوا؟ عید کے روز انہوں نے اپنی جان کیسے قربان کردی، اوسان بحال ہوتے دیرلگی، بیمار تووہ تھے، لیکن اس طرح رخصت ہوجائیں گے، یہ سوچا بھی نہیں تھا۔ کچھ ہی عرصہ پہلے ان کا ایک آپریشن ہوا تھا، وہ صحت یاب ہورہے تھے لیکن آواز پست اور لہجہ سست نظرآتا تھا۔ ٹی وی پر اپنے پروگرام میں بھی ٹھہر ٹھہر کربات کرتے، لیکن ذہانت اورنکتہ سنجی برقرار تھی۔ آپریشن کی تفصیل معلوم کرکے اطمینان ہواکہ مشکل مراحل بخیروخوبی گزر گئے ہیں۔ چند ہی روزپہلے مشاہد حسین سید لاہورآئے تو احمد بلال محبوب صاحب نے انہیں اپنے ہاں ناشتے پرمدعو کیا۔ عارف نظامی صاحب کو بھی دعوت دی جو انہوں نے بصد خوشی قبول کرلی لیکن عین وقت پر معذرت موصول ہوگئی۔ طبیعت کی خرابی کی اطلاع تشویش کا باعث توتھی، لیکن اسے غیرمعمولی نہ سمجھا گیا۔ دِل کے عارضے نے انہیں ہسپتال داخلے پرمجبور کیا، اور چندہی روز بعد سانحہ پیش آگیا۔ عارف نظامی نے اِس دُنیا سے منہ موڑلیا، اپنے گرامیٔ قدر والد حمید نظامی مرحوم کے پاس جا بسے۔
عارف نظامی بڑے باپ کے بڑے بیٹے تھے، صحافت انہوں نے وراثت میں پائی تھی، لیکن اس میں نام اور مقام اپنی محنت اورکوشش سے بنایا۔ والد کا انتقال ہوا تو ان کی عمر تیرہ، چودہ برس کی ہوگی، وہ اپنے والد کواخبار پڑھتے، لوگوں سے ملتے، اورکام کرتے دیکھتے توانہی جیسا بننے کی خواہش دِل میں پیدا ہوہو جاتی۔ والدہ محمودہ بیگم بھی پڑھی لکھی تھیں، علی گڑھ سے گریجوایشن کی تھی، تحریروتقریر پر ان کو عبور تھا۔ حمید نظامی کا انتقال ہوا تو ان کے بھائی مجید نظامی نے ادارہ نوائے وقت کا انتظام سنبھالا۔ دیکھتے ہی دیکھتے عارف نظامی نے پنجاب یونیورسٹی سے ابلاغیات میں ایم اے کیا، اور نوائے وقت سے وابستہ ہوگئے۔ پرنٹنگ پریس میں کام کیا، رپورٹر کے طور پرفرائض ادا کیے، اورپھر ایگزیکٹو ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ اِس دوران ''نوائے وقت‘‘ نے کئی ادوار دیکھے۔ مجید نظامی مرحوم نے اپنا راستہ الگ کرکے روزنامہ ''ندائے ملت‘‘ کا اجرا کرلیا، نوائے وقت بیگم محمودہ نظامی کی براہِ راست نگرانی میں آگیا۔ چند برس بعد مجید نظامی نے یہ ذمہ داری دوبارہ سنبھال لی۔ عارف نظامی ان کے نائب (اور ولی عہد) کے طور پر پہچانے جانے لگے۔ چچا اور بھتیجے کے خیالات اور احباب الگ الگ تھے۔ دونوں کو حمید نظامی مرحوم کے نسبی تعلق اور ادارے کے ساتھ کمٹمنٹ نے باندھ رکھا تھا۔ سقوط ڈھاکہ نے نوجوان عارف کے دِل پر ایسا چرکا لگایا تھاکہ آمریت ان کو ایک آنکھ نہ بھاتی تھی، وہ بھٹوکے مداح تھے، ان کے ساتھ ہر غیرملکی دورے میں شریک رہتے، مجید نظامی بھٹو صاحب سے نظریاتی فاصلہ رکھتے تھے لیکن نبھانے کا ہنر جانتے تھے۔
برسوں عارف نظامی کو ''نوائے وقت‘‘ گروپ کا مستقبل سمجھا اور سمجھایا جاتا رہا۔ مجید نظامی ان کی اسی طرح پرورش کرتے رہے۔ وہ انجمن مدیران پاکستان کے صدر منتخب ہوئے، انگریزی روزنامہ ''نیشن‘‘ کا اجرا کیا۔ چچا کی طرح بھتیجے کا قد بھی بڑاہوتا گیا۔ اُس کے لہجے میں بھی وہ کاٹ آتی چلی گئی جو نظامی خاندان کا طرۂ امتیاز سمجھی جاتی تھی۔ اہلِ اقتدارکو ٹوکنا، ان کے سامنے اپنی رائے کا بے دھڑک اظہارکرنا، پارلیمانی جمہوریت پرزور دینا سیاسی عمل کو پاکستان کیلئے آکسیجن سمجھنا، چچا اور بھتیجے دونوں کا تعارف یہی تھا۔ عارف دائیں بازو کے ساتھ بندھے ہوئے نہیں تھے، بایاں بازو بھی انہیں اپنا لگتا تھا، ان کے والد ہی ان کے آئیڈیل تھے۔ چچا کو ایک زمینی حقیقت کے طورپر انہوں نے قبول کیا اور آداب بجا لاتے رہے لیکن اپنا الگ تشخص بھی برقرار رکھا۔ خبران کی تلاش میں رہتی، بینظیر بھٹو کی اسمبلی تحلیل ہونے کی خبر انہوں نے دی، اور گویا ایٹمی دھماکہ کر دیا۔ ریحام خان کی عمران سے علیحدگی کی خبر بھی انہی نے بریک کی تھی، ''وقت نیوز‘‘ کی بنیاد انہوں نے رکھی، لیکن اس کے ساتھ تعلق زیادہ عرصہ برقرار نہ رہ سکا۔ سو، ''وقت نیوز‘‘ وقت کی رفتار کا ساتھ نہ دے سکا، اس نے منہ موڑ لیا۔
کم و بیش پندرہ سال پہلے چچا بھتیجے کے اختلافات بے قابو ہوگئے۔ ایسے حالات پیدا ہوئے کہ نوائے وقت گروپ عارف نظامی سے محروم ہوگیا۔ ایک قیامت تھی کہ جوبرپا ہوگئی۔ عارف نے اپنا انگریزی روزنامہ ''پاکستان ٹوڈے‘‘ شروع کیا، روزنامہ ''جنگ‘‘ میں کالم لکھنے لگے، روزنامہ ''دنیا‘‘ سے بھی وابستہ رہے۔ 92 نیوز نے ان کا پروگرام شروع کیا تو کالم بھی وہیں منتقل ہو گیا۔ نئے ادارے کو خون کی ضرورت تھی، جو بے دھڑک فراہم کیا جارہا تھا۔ جدوجہد جاری تھی کہ دِل ہانپنے لگا۔ حمید نظامی مرحوم بھی دِل ہی کے عارضے میں جاں بحق ہوئے تھے۔ مجید نظامی کے تین بائی پاس ہوئے، دِل ہی کا روگ عارف نظامی کی قربانی کا باعث بن گیا۔
عارف نظامی اعتدال اور استدلال سے بات کرنے پرقادر تھے۔ باخبر تھے، اور باعلم تھے۔ الفاظ کا چنائو سوچ کر کرتے لیکن لگی لپٹی رکھے بغیر اپنی سی کہہ بھی گزرتے۔ ان کی رخصتی سے ذاتی طورپر تو نقصان ہوا ہی ہے کہ ان کے ساتھ برسوں کا تعلق تھا، لیکن قومی صحافت کو بھی بڑا صدمہ پہنچاہے۔ ذمہ داری کے ساتھ آزادی کا استعمال کرنے والی صحافت میں ایک ایسا خلا پیدا ہواہے، جوآسانی سے پُر نہیں ہوسکے گا کہ اب اس خلا کو پُرکرنے کی ضرورت کا احساس ہی کم ہوتا جا رہا ہے؎
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دِل سے احساس زیاں جاتا رہا
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)