جنرل مرزا اسلم بیگ اگست کی دو تاریخ کو ماشاء اللہ اپنی 90ویں سالگرہ منا چکے۔ وہ پاکستانی فوج کے ایسے سربراہ تھے، جنہیں کئی حوالوں سے یاد رکھا جائے گا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ حادثہ بہاولپور کے بعد جب صدر جنرل ضیاء الحق کے ساتھ پاکستانی فوج کے کئی اہم افراد بھی لقمۂ اجل بن چکے تھے، تو اُس وقت جنرل اسلم بیگ اگر چاہتے تو بآسانی اقتدار پر قابض ہو سکتے تھے۔ وہ فور سٹار جنرل تھے۔ جنرل ضیاء الحق کے نائب تھے، اور اب فوج کی قیادت کی ذمہ داری حالات نے ان کو سونپ دی تھی۔ انہوں نے اپنے رفقا کے ساتھ مشاورت کے بعد فیصلہ کیا کہ آئین کے مطابق سینیٹ کے چیئرمین غلام اسحق خان کو منصبِ صدارت سنبھالنے کا موقع ملنا چاہیے۔ اس کی ایک وجہ تو وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ ان کے والد نے اُنہیں نصیحت کی تھی کہ حق دار کو اُس کا حق دینے میں کوتاہی نہ کرنا، اور دوسری بات یہ ہے کہ وہ ملک میں آئین کی حکمرانی چاہتے تھے۔ غلام اسحق خان کو جب فوجی قیادت کا یہ فیصلہ سنایا گیا تو وہ اس پر یقین نہیں کر پا رہے تھے۔ اُنہیں صدارت کا منصب سنبھال کر نوے روز کے اندر اندر انتخاب کرانے کا ٹاسک دے دیا گیا۔ اس کے بعد جو ہوا، وہ سب ہمارے سامنے ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو جماعتی بنیاد پر ہونے والے انتخابات میں سب سے بڑی پارٹی کی قائد بن کر سامنے آئیں، یوں گیارہ سال بعد اس جماعت کو اقتدار واپس مل گیا‘ 1977ء میں جس سے چھینا گیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم اس چھینا جھپٹی کی نذر یوں ہوئے تھے کہ سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے نتیجے میں پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیے گئے تھے۔ انہی ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی ان کی کرسی پر بیٹھی تو مسلح افواج نے عوامی فیصلے کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا۔
مرزا اسلم بیگ کے تین سالہ دور میں کیا کچھ ہوا، انہوں نے کس سے کیوں اختلاف کیا، بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے ساتھ ان کے تعلقات کتنے ہموار یا ناہموار رہے۔ انہوں نے حکومتوں کی راہ میں کیا مشکلات کھڑی کیں، اور حکومتیں ان کی راہ میں کہاں کھڑی ہوئیں، یہ سب تفصیل مرزا صاحب نے اپنی اس ''خود نوشت‘‘ میں بیان کر دی ہے، جو ''اقتدار کی مجبوریاں‘‘ کے زیر عنوان شائع ہوئی ہے۔ معروف عسکری دانشور اور ادیب کرنل اشفاق حسین نے‘ جن کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں، جنرل صاحب کے ساتھ کئی ماہ تک مکالمہ جاری رکھا۔ کئی نشستیں ہوئیں، اور بالآخر مرزا اسلم بیگ کی یادداشتیں مرتب ہو کر سامنے آ گئیں۔ اس میں مرزا صاحب نے اپنے حوالے سے اٹھائے جانے والے سوالات کے جواب بھی دیے ہیں، بین الاقوامی حالات کا جائزہ بھی لیا ہے، امریکہ، سعودی عرب اور نواز شریف سے ناراضی کی وجوہات بھی بیان کی ہیں، اور اس بات کی وضاحت بھی کی ہے کہ وہ جنرل ضیاء الحق کے جہاز پر کیوں سوار نہیں ہوئے تھے۔ جنرل مرزا اسلم بیگ نے کیا ایسا کیا جو نہیں کرنا چاہیے تھا، اور کیا ایسا نہیں کیا جو کرگزرنا چاہیے تھا، اس پر بحث جاری رہے گی، ان کے تجاوزات اور محدودات کا جائزہ لیا جاتا رہے گا، لیکن انہوں نے ایک اہم فیصلہ یہ کیا کہ ''پاکستان نے جو تین جنگیں لڑی ہیں، ان پر سیمینار کرائے جائیں اور ان میں ایسے افراد اپنے خیالات کا اظہار کریں، جنہوں نے ان جنگوں میں عملی حصہ لیا ہو۔ 1946ء کی جنگ کے بارے میں سات سیمینار منعقد کرائے گئے، جو راولپنڈی، کراچی، لاہور، پشاور، مظفر آباد، بھمبر اور سکردو میں ہوئے۔ ان سیمیناروں میں جہادِ کشمیر 1948ء کے بہت سے اہم پہلو سامنے آئے‘ جو اِس سے پہلے منظر عام پر نہیں آئے تھے‘‘۔ جنرل بیگ کہتے ہیں: ان مذاکروں کی کارروائیاں ''ڈیفنس اینڈ میڈیا جرنل‘‘ میں شائع ہوتی رہی ہیں جسے راقم الحروف نے مرتب کیا تھا، اور یہ جریدے اُس وقت کے ڈائریکٹر آئی ایس پی آر بریگیڈیئر سید محمد اقبال اور ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل ریاض اللہ کی سرپرستی میں شائع ہوئے تھے، لیکن عام آدمی تک ان کی رسائی نہیں ہوئی۔ ضرورت اِس بات کی ہے کہ یہ کارروائی اردو میں شائع کی جائے تاکہ گلگت بلتستان اور پاکستان کے عوام شجاعت اور بہادری کی ان داستانوں سے آشنا ہو سکیں۔ ہماری رائے تو یہ ہے کہ اسے گلگت بلتستان کے تعلیمی اداروں کے نصاب میں شامل کیا جائے۔
گلگت بلتستان نے 1947ء کے بعد جس طرح آزادی حاصل کی، اس کی تفصیل پڑھنے کے لائق ہے۔ یہ ولولہ انگیز داستان ایک ایک پاکستانی کو ازبر کرنے کی ضرورت ہے کہ بے سروسامانی میں کس طرح بھارتی عزائم کو چکنا چور کیا گیا۔ گلگت اور بلتستان کے عوام اور پاکستان کے جانبازوں نے کس طرح سر اور دھڑ کی بازی لگا کر اپنی سرزمین سے بھارتی فوج کو بھگایا۔ جنرل مرزا اسلم بیگ کے منعقد کردہ ایک سیمینارز میں قائداعظمؒ کے اے ڈی سی (1940ء) میجر جنرل (ریٹائرڈ) وجاہت حسین نے اس بات کی تردید کی، جو غلط العام کی طرح پھیلی ہوئی ہے کہ جنرل گریسی نے قائداعظمؒ کی حکم عدولی کرتے ہوئے کشمیر میں فوج بھیجنے سے انکار کر دیا تھا۔ قائداعظمؒ کے اے ڈی سی کا کہنا تھا کہ جو لوگ قائداعظمؒ کو قریب سے جانتے ہیں، وہ اس بات کی تصدیق کریں گے کہ اگر جنرل گریسی قائد کی حکم عدولی کرتے تو وہ انہیں عہدے سے برطرف کر دیتے، جبکہ جنرل گریسی نہ صرف اپنے منصب پر فائز رہے بلکہ انہوں نے اپنی مدت بھی پوری کی۔ جنرل گریسی کا کہنا تھا ''انہیں قائداعظم کی طرف سے یہ احکامات ملے ضرور تھے لیکن جب انہوں نے قائداعظم کو اصل صورتحال سے آگاہ کیا کہ پاک فوج کو جو افسر اور جوان ملے تھے، وہ اس وقت تک بھارت میں پھنسے ہوئے تھے، لٹ پٹ کر جو افراد پاکستان پہنچ رہے تھے انہیں مختلف یونٹوں اور فارمیشنوں میں تعینات کیا جا رہا تھا، لیکن نفری پوری نہیں تھی‘ پوری فوج منتشر حالت میں تھی۔ انہی دِنوں سیلاب کی تباہ کاریوں نے قیامت برپا کر رکھی تھی، سیالکوٹ بریگیڈ کی یونٹیں سیالکوٹ سے لے کر میانوالی تک پھیلی ہوئی تھیں اور پنڈی بریگیڈ کی یونٹیں سرگودھا سے لائل پور تک پھیلی ہوئی تھیں اور سیلاب زدگان کی امداد میں مصروف تھیں، کوئی ایک یونٹ بھی سالم حالت میں موجود ہی نہیں تھی۔ مَیں نے یہ ساری صورتحال قائداعظم کو بتائی تو وہ خاموش ہو رہے‘‘۔
مرزا اسلم بیگ نے دیباچے ہی میں اقتدار کی ان مجبوریوں کا ذکر دیا ہے جو حقائق کو تسلیم نہیں کرنے دیتیں، یا سیدھے راستے پر چلنے نہیں دیتیں۔ جنرل اسلم بیگ کے بقول یہ مجبوریاں ایوب خان کو لاحق تھیں، جنرل یحییٰ خان اور جنرل ضیاء الحق کو، اور جنرل پرویز مشرف کو بھی۔ جنرل اسلم بیگ نے اپنی دانست میں ان مجبوریوں کی تفصیل بیان کر دی ہے۔ جنرل بیگ کی اپنی مجبوریاں کیا تھیں، اس کا ناقدانہ جائزہ لینے کا کام ان کے رفقا یا بعد میں آنے والے جونیئرز ہی کر سکتے ہیں۔
جناب محمد شریف بقا کی تازہ کتابیں
لندن میں مقیم ممتاز پاکستانی نژاد دانشور اور اقبال شناس جناب محمد شریف بقا اپنی ذات میں ایک انجمن یا یہ کہیے کہ یونیورسٹی ہیں۔ وہ تحقیق و تصنیف کا چراغ جلائے بیٹھے ہیں، اور اپنے نئے اور پرانے ہم وطنوںکی رہنمائی کا سامان کرتے رہتے ہیں۔ سیرت نبویؐ پر ان کی دو تصانیف بزبان انگریزی منظر عام پر آئی ہیں، پرافٹ محمدؐ، جیسا کہ قرآن نے بیان کیا ("Prophet Mohammad as Described in the Qruan'') اور ویسٹرن رائٹرز اینڈ پرافٹ محمدؐ ("Western Writers & Prophet Mohammad'') دو کتابچے اردو میں ہیں۔ رسول خدا کے زریں اقوال... اور قرآن کیا کہتا ہے؟... اسلام کا پیغام لوگوں تک پہنچانے کے لیے یہ کتابیں عام کی جانی چاہئیں۔
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)