پورا پاکستان خون میں نہلایا جا رہا ہے۔کوئٹہ سے پشاور اور کراچی سے راولپنڈی تک خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے۔بے گناہ شہری، گبھروجوان اور ہماری سرحدوں کے پاسبان نشانہ بنے ہوئے ہیں۔کچھ پتہ نہیں چل رہا ہے کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونے والا ہے۔کس کو کس وقت کس کی گولی نے چھلنی کر ڈالنا ہے اور کون کس وقت کس خودکش حملے یا بم کے دھماکے کی نذر ہو جائے گا۔تحریک طالبان پاکستان کی ترجمانی کا دعویٰ کرنے والے افراد مختلف وارداتوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں اور فخریہ طور پر اعلان کرتے ہیں کہ ہاں، ہم نے اپنے ہاتھ خون سے رنگ لئے ہیں۔کراچی میں تین میڈیا ورکرز بھی درندگی کا نشانہ بنے ہیں اور ان کے قتل کا اعتراف بھی ببانگ دہل کرلیا گیا ہے۔ فرقہ وارانہ وارداتیں بھی زوروں پر ہیں، کوئٹہ میں ایک بار پھر ہزارہ قبیلے کو خون سے غسل دیا گیا ہے اور کئی مقامات پر مختلف مسالک کے علماء کرام کے لاشے تڑپ رہے ہیں۔اغواء برائے تاوان کی وارداتیں بھی زوروں پر ہیں اور کوئی بڑا شہر ایسا نہیں جہاں معصوم بچوں، جوانوں اور بزرگوں کو اغوا کرکے ان کے اعزا و اقربا سے تاوان کا مطالبہ نہ کیا جاتا ہو اور ہر ماہ کروڑوں روپے بدقماش عناصر کی جیبوں میں نہ چلے جاتے ہوں۔
ارباب اختیار انگڑائیاں لیتے ہیں، بیانات جاری کرتے ہیں،الفاظ کے ذریعے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہیں اور پھر ڈھیر ہو جاتے ہیں۔ایک واردات کے بعد دوسری کا انتظار شروع کردیا جاتا ہے۔کچھ نہ کرنے ہی کو بہت کچھ کرنے کے مترادف سمجھ لیا گیا ہے۔اہلِ دین و دانش اپنی بحثوں میں الجھے ہوئے ہیں، نکتے تلاش کررہے ہیں، مذاکرات کی رٹ لگا رہے ہیں، لیکن کچھ کر نہیں پا رہے۔ان کا استدلال ہے کہ ''بگڑے ہوئے بچوں‘‘ سے بات چیت کرکے انہیں راہ راست پر لانا چاہیے ۔ان پر ان کی غلطیوں کو واضح کرنا چاہیے اور جب تک وہ رحم کھا کر جان کی امان نہ دے دیں، اس وقت تک ان سے رحم کی بھیک مانگتے رہنا چاہیے۔ ان کے نزدیک ''بزرگانہ شفقت ‘‘ کا تقاضا یہی ہے۔بڑھے ہوئے ہاتھ کو طاقت سے روکنا اپنے بھائیوں کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہوگا اور مسلمان اپنے کسی مسلمان ''بھائی‘‘ کا نقصان گوارا نہیں کر سکتا۔
یہ درست ہے کہ حالات اگر پیچیدہ ہوں، معاملات الجھ جائیں اور بعض اجتماعی غلطیوں کی وجہ سے سفید اور کالے میں تمیز آسان نہ رہے تو کسی گروہ کو رعایت دی جا سکتی ہے۔ بات چیت کے ذریعے اس کی غلطی واضح کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے اور افہام و تفہیم کے ذریعے الجھنوں کو سلجھایا جا سکتا ہے، لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اولاً تو ہر قانون شکن کو شک کا فائدہ نہیں دیا جا سکتا، ثانیاً جو بات چیت پر آمادہ نہ ہو اور دروازے بند کرنے کو شجاعت اور اپنے جاہلانہ تکبر کو استقامت قرار دینے پر بضد ہو، اس کو اس کے سکوں میں ادائیگی کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔
موجودہ حکومت نے زمامِ اختیار سنبھالتے ہی تمام سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کو مشاورت کے لئے طلب کیا تھا‘ اس اجلاس میں فوجی قائدین بھی موجود تھے۔ سب نے اتفاق رائے سے فیصلہ کیا کہ ملک کے مختلف حصوں میں موجود بندوق بردار عناصر سے بات چیت کے ذریعے مسائل حل کرنے کی کوشش کی جائے۔قبائلی علاقوں میں جاری آویزش اس کاوش کا خاص موضوع تھی۔اس کے نتیجے میں تحریک طالبان سے رابطے کی کوشش شروع ہوئی اورحکومتی ذرائع کے مطابق کچھ پیش رفت ہو چکی تھی کہ حکیم اللہ محسود ڈرون کا نشانہ بن گئے۔اس کے بعد قدم آگے نہیں بڑھ سکے۔حملے ہوتے رہے اور لاشے گرتے رہے۔تحریک طالبان کی ترجمانی کے دعوے دار مذاکرات سے انکاری رہے اور ہلاکتوں کی ذمہ داری بھی قبول کرتے رہے۔
اب پلوں کے نیچے سے پانی تو کیا، بہت سا خون بہہ چکاہے، لیکن جو افراد اب تک یہ توقع رکھتے ہیں کہ بات چیت کے ذریعے امن قائم ہو سکتا ہے، ان کی تمام تر خام خیالی کے باوجود انہیں ایک اور موقع ضرور دے دینا چاہیے، اس کے بعد طاقت کا جواب طاقت سے دینا پڑے گا۔اس میں وقت لگے گا اور نقصان بھی ہوگا، لیکن کوئی دوسرا راستہ نظر نہ آئے تو پھر اسی راستے پر چلنا پڑتا ہے، جس کی فریقِ مخالف دعوت دے رہا ہو۔
اس میں دو آراء نہیں ہو سکتیں کہ طاقت کا استعمال کم سے کم ہونا چاہیے، تاکہ گھن کے ساتھ گیہوں بھی نہ پس جائے، صرف وہی عناصر نشانہ بنیں جو اپنا استحقاق ثابت کر چکے ہوں، لیکن بات کہنا تو آسان ہے، اس پر عمل آسان نہیں ہے۔آسمان سے برسنے والی گولیاں اپنے اہداف خود ہی طے کیا کرتی ہیں۔اس لئے ٹریگر دبانے سے پہلے ایک بار پھر ان سب کو اکٹھا کرکے، ان سے مشاورت کرلی جائے، جنہوں نے مذاکرات کا فیصلہ کیا تھا تو کوئی مضائقہ نہیں ہوگا۔تیر کمان سے نکل جائے تو اسے راستے میں روکا نہیں جا سکتا۔عمران خان ہوں یا مولانا فضل الرحمن ، مولانا سمیع الحق ہوں یا سید منور حسن سب اچھی طرح جان لیں کہ دو گھروں کا مہمان بھوکا رہتا ہے۔وہ جو کچھ کرسکتے ہیں، کر گزریں،مولانا سمیع الحق کی طرح دامن بچانے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔لڑکوں، بالوں کو سمجھائیں، وہ اپنے آپ کو ضائع نہ کریں۔بندوق رکھیں، سیاسی عمل میں شریک ہو جائیں، اپنی بات منوانے کے لئے دلیل سے طاقت لائیں، طاقت کو دلیل نہ بنائیں۔ ریاست کی طاقت کو زیر کرنے کا خواب دیکھا تو جا سکتا ہے لیکن اسے دیوانے کا خواب کہتے ہیں۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)