گزشتہ چند روز کے دوران بہت کچھ ایسا ہوا کہ جس پر بہت کچھ کہا جا سکتا ہے۔تھر کے بلکتے ہوئے بچوں اور سسکتی ہوئی مائوں نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرالی۔جنوبی پنجاب میں بداخلاقی کا نشانہ بننے والی طالبہ کے ملزموں کو پولیس نے بے گناہ قرار دے دیا تو اس نے اپنے آپ کو آگ لگا کر جان دے دی۔سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو اس کا سوئوموٹو نوٹس لینا پڑا۔لاہور میں مستقل خط تقرر کا مطالبہ کرنے والی نرسوں پر پولیس پل پڑی تو انہوں نے وزیراعلیٰ کی توجہ حاصل کی، ان کا مسئلہ تو رہا ایک طرف، ان پر پولیس تشدد کی عدالتی تحقیقات کا حکم البتہ جاری کردیا گیا۔ وزیراعظم کراچی کے حالات کا جائزہ لینے وہاں پہنچے اور لیاری میں جاری خون کی ہولی کا نوٹس لیا تو ڈی جی رینجرز نے الزام لگایا کہ بعض حکومتی رہنما مجرموں کی پشتیبانی کرتے ہیں، جس کی وجہ سے امن قائم نہیں ہو پاتا۔ طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کرنے کے لئے حکومتی ٹیم کا اعلان کردیا گیا۔ اس میں سب کے سب سرکاری افسر ہیں، کوئی ایک بھی سیاستدان نہیں۔ مولانا سمیع الحق طالبان کے اس احسان کا ذکر کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کر پا رہے کہ انہوں نے براہِ راست مذاکرات کی تجویز قبول کرلی ہے گویا کسی نیکی کا ''ارتکاب‘‘ کر چکے ہیں۔ اس کے باوجود دہشت گردی کی وارداتیں جاری ہیں۔ ایک ہی دن میں کراچی اور کوئٹہ میں قانون نافذ کرنے والوں کو نشانہ بنایا گیا۔21 افراد شہید اور 80سے زائدزخمی ہوگئے۔ ان وارداتوں کی ذمہ داری احرارالہند نامی کسی تنظیم نے قبول کرلی،جبکہ طالبان نے ان سے لاتعلقی کا اظہار کردیا۔اس سے پہلے اسلام آباد میں سیشن کورٹ پر حملے کی ذمہ داری بھی اسی تنظیم نے قبول کی تھی۔ اس کا شجرہ نسب ابھی تک تلاش کیا جارہا ہے۔اکثر مبصرین کی رائے میں یہ نوزائیدہ تنظیم ہے۔ کئی اسے طالبان کا ''نیاچہرہ‘‘ قرار دیتے ہیں،جبکہ کئی کی رائے میں یہ ان سے الگ ہو جانے والے گروہ کا نام ہے۔یہ جو کچھ بھی ہے، اس کا سراغ ابھی تک (اڑتی چڑیا کے پر گننے کا دعویٰ رکھنے والی )ہماری خفیہ ایجنسیاں نہیں لگا پائیں۔لوگ سر پکڑ کر بیٹھے ہیں کہ طالبان کی طرف سے جنگ بندی کے اعلان کے بعد بھی اگر امن قائم نہیں ہوگا تو پھر کس کس طرح کے پاپڑ کہاں کہاں اور کس کس کو بیلنا پڑیں گے۔
ان سب خبروں کے درمیان یہ خبر بھی آ گئی کہ وزیراعظم نوازشریف، وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان اور اپنے معاون خصوصی عرفان صدیقی کے جلو میں بنی گالہ پہنچے۔ عمران خان اپنی وسیع و عریض رہائش گاہ میں ان کے لئے آنکھیں بچھا کر بیٹھے ہوئے تھے۔تحریک انصاف کے بعض چوٹی کے رہنما بھی اسی چوٹی پر موجود تھے۔وزیراعظم کی تواضع طرح طرح کے پکوانوں سے ہوئی اور تاریخ میں پہلی بار عمران خان کی مہمان نوازی کے جوہر کھلتے ہوئے دیکھے گئے۔خان صاحب اس معاملے میں خاصے بے نیاز واقع ہوئے ہیں۔ جب تک ان کے کزن اور بہنوئی حفیظ اللہ نیازی ان کے افسرِ مہمانداری تھے، تب تک انہوں نے بہت کچھ ڈھانپ رکھا تھا۔گزشتہ انتخابات میں ٹکٹوں کی تقسیم نے دونوں کے درمیان فاصلہ پیدا کیا اور حفیظ اللہ اپنے بھائی انعام اللہ نیازی کا ساتھ دیتے دیتے بہت دور نکل گئے تو زمان پارک دستر خوانی قبیلے سے محروم ہوگیا۔ عمران خان اور حفیظ اللہ خان ایک دوسرے کو برادرِیوسف قرار دیتے اور اپنے آپ کو مقامِ یوسف پر فائز سمجھتے ہیں، لیکن دونوں میں سے کوئی بھی یوسف بننے پر تیار نہیں۔معاف کر دینے کی یوسفی سنت کسی ایک کو بھی اپنی طرف متوجہ نہیں کر پا رہی۔ بہرحال نوازشریف عمران خان کے ہاں پہنچے تو بھید کھلا کہ وہ باقاعدہ مدعو کئے گئے ہیں۔خان صاحب نے انہیں یاد فرمایا تھا، سو ان کے پرانے دوست چودھری نثار علی نے ان کا دل اس خوشی سے بھرنے کا سامان کر دیا۔
بتایا گیا ہے کہ وزیراعظم کو اپنے مخالف رہنما کا گھر بہت پسند آیا کہ یہ بھی جاتی عمرہ میں ان کے گھر ہی کی طرح وسیع ہے۔آرائش و زیبائش اگرچہ کہ مختلف ہے، خان صاحب کے ہاں سادگی کے ساتھ ساتھ مقامیت کا ٹھپہ گہرا ہے۔وزیراعظم کو یہ جگہ یوں بھی بھائی کہ سطح سمندر سے بلند ہے ۔پہاڑی کے اوپر۔ یہاں بیٹھ کر مری کا سا لطف اٹھایا جا سکتا ہے۔خان صاحب کے جوتے بھی انہیں اچھے لگے اور انہوں نے پوچھا کہ کیا یہ طالبان نے دیئے ہیں؟ خان صاحب نے جواباً اپنی سادگی کا اظہار یوں کیا کہ پہلے وہ ''آئی کے‘‘ (عمران خان) تھے لیکن اب انہیں ''ٹی کے‘‘ (طالبان خان) کہا جانے لگا ہے۔ طالبان سے مذاکرات کی رٹ خان صاحب نے یوں لگائی ہے کہ سوشل میڈیا پر ان کے حامی نوجوانوں کو چپ سی لگ گئی ہے۔خان صاحب ان کو اپنا موقف سمجھا نہیں سکے، یا سمجھانے کی ضرورت محسوس نہیں کر رہے، یہ تو وہ جانتے ہوں گے،لیکن نوجوانوں کی بڑی تعداد کے دل اگر ٹوٹے نہیں ہیں تو کھٹے بہرحال ہوگئے ہیں۔
دو بڑوں کی یہ ملاقات خان صاحب کو سستی نہیں پڑی۔بنی گالہ پارک سے ناجائز تجاوزات کے خاتمے کے لئے تو وزیراعظم نے فوری اقدام کرکے انہیں طمانیت کا احساس دلا دیا، لیکن ان کے حامیوں کی بے اطمینانی دیکھی نہیں جا رہی۔ جذبات کی دنیا میں جو بھی سکہ چلے، پاکستانی سیاست کے سنجیدہ طالب علموں کے لئے یہ اچھی پیش رفت تھی۔دہشت گردی کے بارے میں حکمت عملی کو اگر جماعتی سیاست سے الگ رکھا جائے تو اس کی تعریف کی جانی چاہیے۔طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے دونوں رہنمائوں نے اتفاق کیا اور یہ بات بھی بیان کی گئی کہ جو عناصرباتوں سے نہیں مانیں گے، ان کے لئے لاتوں کو کام میں لایا جائے گا۔اب دیکھتے ہیں کہ ان ہر دو عناصر کو الگ الگ کیسے کیا جاتا ہے اور ہر ایک سے ان کے شایان شان سلوک کے لئے عملی اقدامات کیا ہوتے ہیں؟... چلتے چلتے اگر یہ بھی عرض کردیا جائے تو کچھ غلط نہیں ہوگا کہ ہمارے سیاستدان ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوتے ہوئے اگر یہ بات بھی یاد رکھیں کہ کبھی ہاتھ ملانا پڑ سکتا ہے تو ان کے اپنے حق میں بہتر ہوگا۔سیاسی اختلاف کو حق اور باطل کی جنگ بنایا جائے گا تو پھر ایک دوسرے کو مسکرا کر دیکھنا بھی گناہِ کبیرہ ہی قرار پائے گا۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)